کراچی کے مختلف علاقوں میں موجود کئی مساجد اور دینی درس گاہیں ایسی ہیں جنہوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور شہر پر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، یہ مساجد اور دینی و علمی درس گاہیں اپنی انفرادیت اور نوعیت کے اعتبار سے قومی اور بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں، پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے طلبا و طالبات کی ایک بہت بڑی تعداد ان دینی مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔
جوں جوں کراچی ترقی کا سفر طے کرتا رہا نئی مساجد بھی تعمیر ہوتی گئیں، ایک اندازے کے مطابق اس وقت کراچی میں بیس ہزار سے زائد چھوٹی بڑی مساجد ہیں، ان میں سے بعض کو نہ صرف تاریخی حیثیت حاصل ہے بلکہ ان مساجد کے محل و قوع، خوبصورتی، دلکشی اور طرز تعمیر کے باعث شہرت بھی حاصل ہے، آج ہم ان خاص خاص مساجد کا ذکر کریں گے جنہیں کراچی کی پہچان کہا جاسکتا ہے۔
عید گاہ مسجد جامع کلاتھ
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ کراچی کی پہلی عید گاہ بندرروڈ پر جامع کلاتھ مارکیٹ کے مقابل واقع ہےلیکن تاریخی اعتبار سے کراچی کی قدیم ترین عیدگاہ لیاری میں فقیر محمد خان دادا روڈ پر واقع ہے، مورخین کے مطابق ڈھائی سو سال قبل یہ عید گاہ سندھ میں میروں کی حکمرانی کے دوران بنائی گئی،اس میں غوث بخش بزنجو،سرحاجی عبداللہ ہارون، غلام حسین خالق دینا، سر غلام حسین ہدایت اللہ، ایوب کھوڑواور جی ایم سید جیسی سندھ کی مشہور شخصیات نے عید کی نماز ادا کی، یہ عید گاہ ایوب خان کے مارشل لاء دور میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہ چکی ہے، پہلے یہ عیدگاہ ایک بہت بڑا میدان تھا جس میں بہت سے درخت لگے ہوئے تھے، اب اس کے چاروں طرف دکانیں بن گئی ہیں اور عیدگاہ میدان سکڑتا جا رہا ہے۔
عثمان دموہی نے اپنی کتاب ”کراچی تاریخ کے آئینے میں“ میں اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانوی فوج کے سندھ فتح کرنے کے بعد کراچی میں پہلی مرکزی عیدگاہ 1879-80ء میں بندر روڈ پر قائم ہوئی،قیام پاکستان کے بعد عید کی پہلی نماز میں قائد اعظم محمد علی جناح نے عام نمازیوں کے ہمراہ آخری صفوں میں کھڑے ہوکر نماز عید ادا کی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ قائد اعظم نماز عید کے لئے تاخیر سے پہنچے تھے،امام صاحب مولانا ظہور الحسن درس نےان کی آمد تک نماز روکنے سے انکار کردیا تھا ، قائد اعظم نے امام صاحب کے اس اقدام کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا۔
جامع مسجد تھانوی، جیکب لائن
کراچی کی قدیم اور خوبصورت مساجد میں جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کو خاص اہمیت حاصل ہے، قیام پاکستان سے آٹھ روز قبل مولانا احتشام الحق تھانوی جیکب لائن پہنچے اور اس مسجد میں اپنے فرائض انجام دینا شروع کئے، اس وقت یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی،1911 ء برطانوی دور میں بلوچ رجمنٹ کے فوجیوں نے اس مسجد کو تعمیر کیا تھا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی نے اس مسجد میں امامت اور دیگر ذمہ داریوں کواعزازی طور پر سنبھالا تو بلوچ رجمنٹ کے فوجیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ فوجی ہونے کے باعث ان کا تبادلہ جگہ جگہ ہوتا رہتا ہے اس لئے مستقل طور پر مولانا احتشام الحق تھانوی ہی اس مسجد کا انتظام سنبھال لیں۔
ان کی درخواست پر مولانا صاحب نے مسجد کا انتظام اور انصرام سنبھالنا قبول کرلیا اور پھر ان کی انتھک محنت اور توجہ کے باعث یہ چھوٹی سی مسجد قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بن گئی اور بڑی تعداد میں نمازی یہاں نماز ادا کرنے لگے۔ 1960ء میں مسجد کی تعمیر نو کے لئے جامع مسجد دہلی کی طرز پر اس وقت کے ماہر انجینئرز کی خدمات حاصل کی گئیں مسجد میں توسیع کے ساتھ ساتھ دو بڑے بڑے مینار تعمیر کئے گئے جن کی لمبائی سو فٹ تھی، ان میناروں کے درمیان تین گنبد بھی تعمیر ہوئے جن پر کالے رنگ کی دھاریاں بنائی گئیں، ان میں سے درمیان والا گنبد باقی دو گنبدوں سے بڑا ہے، مسجد کے منبر و محراب سنگ مرمر کے پتھروں سے تعمیر کئے گئے، مسجد کے احاطے میں وضو کے لئے ایک حوض ہے جس کے سامنے مسجد کی انتظامیہ کا دفتر اور پچھلی جانب مولانا احتشام الحق تھانوی کی رہائش گاہ تھی جس میں اب ان کے جانشیں صاحبزادہ مولانا تنویر الحق تھانوی رہائش پذیر ہیں۔
جامع مسجد تھانوی کے ہال میں تقریباً 900 نمازی بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں جبکہ برآمدے اور صحن میں پندرہ سو نمازیوں کی گنجائش ہے، بالائی منزل میں ایک ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں، 1960ء میں نماز کی تعمیر و نو کے لئے کھدائی کے دوران ایک سنگ مرمر کی تختی دریافت ہوئی تھی جسے 1911 ء میں بلوچ رجمنٹ کے جوانوں نے بنایا تھا اس تختی پر مسجد کا تعارف جلی حروف کندہ ہے، یہ مسجد آج بھی آباد ہے اور یہاں نمازوں اور خصوصاً جمعہ کی نماز کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں نمازی شرکت کرتے ہیں۔
نیو میمن مسجد، بولٹن مارکیٹ
نیو میمن مسجد کا شمار کراچی کی صف اول مساجد میں ہوتا ہے، ایم اے جناح روڈ پراس مسجد کا سنگ بنیاد قیام پاکستان کے دو سال بعد 24 اگست 1949ء میں رکھا گیا اور مسجد کی تعمیر مختصر عرصے میں مکمل کرلی گئی، اس تاریخی مسجد میں پہلی اذان 15 جولائی 1949ء میں دی گئی، 1970 ء میں بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر تین گنبد تعمیر کئے گئے جس میں ہر ایک مینار کی اونچائی 190 فٹ اور گنبد 70 فٹ اونچائی کے ساتھ ہے، یہ مسجد 17 ہزار 820 مربع گز پر واقع ہے اور اس مسجد میں بیک وقت 10ہزار افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔
وضو کے لئے دو حوض تعمیر کئے گئے ہیں، کراچی کے مصروف ترین علاقے میں ہونے کے باعث یہاں نمازیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، رمضان المبارک میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور اس مبارک مہینے میں مخیرحضرات کی جانب سے ہر روز ہزاروں افراد کے لئے مفت افطاری کا انتظام کیا جاتا ہے، رمضان المبارک میں ہی یہاں اسلامی تعلیمات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ آخری ایام میں شبینہ کی محفل بھی اس مسجد سے ٹیلی ویژن پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہے جس میں کراچی کے مختلف حفاظ کرام قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، مسجد سے ملحق اقبال کلاتھ مارکیٹ اسی مسجد کی ملکیت ہے، یہ مسجد کراچی کی متمول میمن برادری کی سرگرمیوں کا مرکز ہے، 1975ء میں میمن برادری نے اپنے لوگوں کے لئے اس بات کا فیصلہ کیا کہ میمن برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے نکاح کی تقریب مساجد میں منعقد کی جائیں گی، اس کے بعد سے سب سے زیادہ نکاح میمن مسجد میں ہی ہوتے ہیں۔
بنوری ٹاؤن مسجد
کراچی کے علاقے گرومندر سے جیل چورنگی کی طرف جائیں تو بائیں جانب جامع العلوم اسلامیہ کے احاطے میں بنوری ٹاؤن مسجد واقع ہے، یہ کراچی کی انتہائی مشہور دینی درس گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل کا مرکز بھی ہے، اس کا پرانا نام نیو ٹاؤن مسجد ہے اور اس کا شمار کراچی کی بڑی مساجد میں کیا جاتا ہے۔ 1954ء میں مولانا محمد یوسف بنوری نے اس درس گاہ اور مسجد کی بنیاد رکھی، اس وقت نہ تو کوئی عمارت تھی اور نہ ہی وسائل دستیاب تھے، موجودہ مسجد کی جگہ کانٹے، جھاڑیوں، گڑھوں اور پتھروں سے بھری ہوئی تھی، جامعہ میں زیر تعلیم طلبہ مسجد میں ہی پڑھتے تھے وہیں رہتے تھے۔
رہائش کے لئے نہ کوئی کمرہ تھا نہ ہی تعلیم کے لئے درس گاہ تھی، قیام پاکستان کے وقت کراچی بہت چھوٹا سا شہر ہوا کرتا تھا جو اولڈ سٹی ایریا کھارادر اور میٹھادر سے شروع ہو کر نمائش پر ختم ہوجایا کرتا تھا، مولانا محمد یوسف بنوری نے مدارس عربیہ کے فارغ التحصیل دس فضلاء کے ساتھ کام شروع کیا اور ان کے لئے اسلامی علوم میں تکمیل کا درجہ قائم کیا اور اپنے ایک دوست سے قرض لے کر طلبہ کو ماہوار وظیفہ اور اساتذہ کو تنخواہیں دینا شروع کیں، مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن رفتہ رفتہ ایک ایک دو دو کمرے بننا شروع ہوئے اور پھر عمارت تعمیر ہوگئی، کچھ عرصے بعد مولانا محمد یوسف بنوری کی کوششوں سے تین عمارتیں تعمیر ہوئیں۔
بعد ازاں درجہ تکمیل کے علاوہ جامعہ میں دوسرے درجات کا بھی آغاز کردیا گیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس علمی ادارے اور مسجد کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی اور پاکستان کے مختلف شہروں سے یہاں طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے لگے، اس دینی ادارے سے مولانا یوسف لدھیانوی، مولانا عبدالرزاق سکندر، مفتی شامزئی جیسے جید علماء وابستہ رہ چکے ہیں، مولانا یوسف لدھیانوی نے روزنامہ جنگ کراچی میں ”آپ کے مسائل اور ان کے حل“کے نام سے ایک طویل عرصے تک مضامین تحریر کئے جو قارئین میں بے انتہا مقبول تھے، آج بھی کراچی کی یہ مسجد اور دینی درس گاہ اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے اور سینکڑوں طلبہ یہاں زیر تعلیم ہیں۔
جامع دارالعلوم مسجد، کورنگی
جامع دارالعلوم مسجد کورنگی میں واقع ہے مسجد کا رقبہ 10 ہزار 855 مربع گز ہے جو تقریباً 18 کنال کے برابر ہے، مرکزی ہال کے چاروں طرف گیلریاں تعمیر کی گئی ہیں، پوری مسجد کی دیواروں کی سات فٹ کی بلندی تک ماربل لگایا گیا ہے، فرش بھی ماربل سے تیار کیا گیا ہے، ہر مصلے کا ماربل دو فٹ چوڑا اور پانچ فٹ لمبا ہے جس کی وجہ سے نمازی سہولت سے نماز ادا کرسکتا ہے بیسمنٹ میں چھ وضو خانے بنائے گئے ہیں اور ایک بڑا وضو خانہ باب الشفیع سے داخل ہوتے ہی دائیں طرف ہے، بیک وقت یہاں 117 افراد وضو کرسکتے ہیں، باب فاطمہ سے بیسمنٹ میں داخل ہوں تو یہاں سو لوگوں کے وضو کرنے کا انتظام ہے۔
اس طرح ان چھ وضو خانوں میں 370 نمازی بیک وقت وضو بناسکتے ہیں،مسجدکے محراب عام رواج سے ہٹ کر بغیر کسی سجاوٹ کے سادہ طریقے سے بنائے گئے ہیں، اس میں گلیز ٹائل لگائے گئے ہیں منبر پر سنگ مرمر کا ماربل اور تینوں اطراف سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں، بیک وقت 17 ہزار 219 افراد نماز پڑھ سکتے ہیں، اس میں برآمدے اور کوریڈورز کی چھت اور تہہ خانہ بھی اگر شامل کرلیا جائے تو نمازیوں کی تعداد 30ہزار 693 ہوسکتی ہے، مسجد کے 10دروازے ہیں جنہیں الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ مسجد کے نیچے نہہ خانہ بنایا گیا ہے،جو خواتین کے لئے مختص ہے جہاں خواتین نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اصلاحی بیانات بھی سن سکتی ہیں ہے، اس مسجد میں مشہور عبادت گاہوں کی طرز و تعمیر کی جھلک نمایاں ہے۔
مسجد طوبیٰ، ڈیفنس
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں واقع مسجد طوبیٰ جسے گول مسجد کے نام سے پکارا جاتا ہے، کراچی کی مشہور مساجد میں شامل ہے، اس کی تعمیر پاکستان ڈیفنس آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی کے زیر نگرانی مکمل ہوئی، مسجد کی تعمیر کا آغاز ستمبر1966ء میں ہوا اور نومبر 1969 ء کوپایہ تکمیل کو پہنچا،کل رقبہ 5 ہزار 570 مربع گز ہے، تعمیر شدہ رقبہ 35 ہزار 312 مربع فٹ ہے،اس مسجد کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی چھت بغیر ستونوں کے بنی ہوئی ہے، گنبد گولائی میں تقریباً 72 میٹر یعنی 236 فٹ ہے، اس کی اونچائی 5 ہزار 148 فٹ ہے، گنبد میں 7ہزار سے زائد شیشے لگائے گئے ہیں۔
یہ مسجد سفید سنگ مرمر سے تعمیر ہوئی ہے اور مسجد کی اندرونی دیواروں پر سنگ مرمر کی ٹکڑیاں لگائی گئی ہیں ان کی تعداد 7لاکھ 68 ہزار ہے،مسجد کے گنبد کے ساتھ صرف ایک مینار تعمیر کیا گیا ہے، مینار کی اونچائی 120 فٹ ہے، مسجد کے تعمیر شدہ حصے میں پانچ ہزار افراد بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں جبکہ چبوترے پر نمازیوں کی گنجائش 3ہزار اور بیرونی حصے پر گنجائش 22 ہزار ہے، اس طرح مجموعی طور پر اس مسجد میں 30 ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔
مسجد میں اگر باآواز بلند تلاوت یا گفتگو کی جائے تو آواز کی بازگشت سنائی دیتی ہے جس کے باعث یہاں دوران نماز قرآن کریم کے سننے کا اپنا ہی لطف ہے، مسجد میں وضو کے لئے حوض بنائے گئے ہیں اور فرش پر دبیز قالین بچھائے گئے ہیں، گنبد کے بیچ میں ایک انتہائی دلکش فانوس لگا ہوا ہے جس سے مسجد کی خوبصورتی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، رات کے اوقات میں روشنی کا انتہائی مناسب انتظام ہے اور دور سے ہی مسجد کا سفید گنبد نظر آتا ہے۔