اس وقت مُلک شدید بحران میں مبتلا ، سخت مصائب ومشکلات سے دوچارہے۔ وطنِ عزیز کے معاشی اور سیاسی حالات تو پہلے ہی ابتر تھے کہ غیر معمولی طویل مون سون کی ریکارڈ بارشوں، سیلابی صورتِ حال نے مزیدتباہی مچاکر عوام کی مشکلات میں گونا گوںاضافہ کر دیا۔ مُلک کا ایک تہائی رقبہ، 38 سے 40 فی صد پاکستان سیلاب سے بُری طرح متاثر ہے۔ تباہی کے نتیجے میں متعدّد افراد جاں بحق اور لاتعداد افراد بے گھر ،بے آسرا ہوچُکے ہیں۔ نیز، ہلاک ہونے والے مال مویشیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
جانے کتنی ہی بدنصیب مائیں ہیں، جن کے جگر گوشے اُن کی آنکھوں کے سامنے سیلابی ریلوں میں بہہ گئے، کتنے ہی افراد کی جمع پونجی قیامت خیز سیلاب کی نذر ہو گئی، خاندان کے خاندان اُجڑ گئے،تباہ و برباد ہوگئے۔اور ستم تو یہ ہے کہ زندہ بچ جانے والے بھی انتہائی ابتر حال میں ، کُھلے آسمان تلے یا سخت کسمپرسی کی حالت میں کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ عمومی طور پر دیہی خواتین حجاب پردے کی سختی سے پابندی کرتی ہیں، لیکن اس بے سروسامانی ، الم ناک حالات میں چاردیواری رہی ہے اور نہ ہی انہیں اپنا تن بدن ، سر ڈھانکنے کو چادریں ہی میسّر ہیں۔ ایک سروے کے مطابق حالیہ سیلاب مُلک میں 2005ء میں آنے والے شدیدزلزلے اور 2010ء میں آنے والے سیلاب سے کہیں زیادہ تباہ کُن ہے۔
ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد تین کروڑ، تیس لاکھ، چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ کئی دیہات تو صفحۂ ہستی سے مکمل طور پر مِٹ گئے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد اپنے بچے کُھچے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اور اس سانحے سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارےحکمرانوں، سیاست دانوں کو قیامت کی اس گھڑی میں بھی ایک دوسرے پر جملے کسنے، لعن طعن کرنے اور مقدمات بنانے سے فرصت نہیں۔ غریبوں کے بھوک پیاس سے بلکتے، موسموں کی سختیاں برداشت کرتے بچّوں سے انہیں کیا مطلب کہ اُن کے بچّے تو اپنے محلّات میں محفوظ ہیں۔
اب ان درد کے ماروں کو کون سمجھائے کہ جنہیں وہ اپنا مسیحا سمجھ کر ووٹ دے کے حکمرانی کے منصب تک پہنچاتے ہیں، وہ ووٹ لینے تو ان کی کچّی بستیوں میں آسکتے ہیں، لیکن اُن کی دادرسی، مدد کے لیے نہیں۔ اے کاش! کوئی ان سیاست دانوں کو یاد دلائےکہ یہ وہی بستیاں، علاقے اور میدان ہیں، جہاں وہ انتخابات کے دنوں میں ٹینٹ لگا کر جلسے کرتے ہیں۔ اُن دُور دراز، پس ماندہ میدانی،پہاڑی علاقوں کے لاکھوں لوگ اُن کےجلسوں میں شرکت کرکے، ان کےبڑے بڑے دعووں، وعدوں پر یقین کرتےہیں۔
آج ان ہی لوگوں کو سر چُھپانے اور زندہ رہنے کے لیے خیموں، خوراک اور ادویہ کی اشد ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے‘‘، تویہ کیسی ماں ہے، جس کے بچّے اُس کے سامنے روتے بلبلاتے، چیختے چلّاتے سیلاب کی بے رحم موجوں کی بھینٹ چڑھتے رہے اور وہ کچھ نہ کر پائی، کیا کوئی ماں اپنے بچّوں کو ایسے طوفانوں، سیلابوں، بے رحم موجوں کی نذر ہونے دیتی ہے۔ یہ حکمران، سیاست دان، جو عوام کے نمایندے، عوام کی آواز،اُن کے دکھ درد کے ترجمان ہوتے ہیں، انہیں کیوں احساس نہیں ہو رہا کہ عوام پر کیا قیامت گزرگئی ہے۔ ان حالات میں بھی اگر انہیں سیاست اور کرسی کی رسّہ کشی سے فرصت نہیں، تو آئندہ کے لیے ان سے کیا اُمید کی جائے۔
کہا جا رہا ہے کہ سیلاب سے سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوئی ہے، جہاں ابھی تک جانی و مالی نقصانات کا صحیح طور پر تخمینہ ہی نہیں لگایا جا سکا۔ لیکن ہمیں تو لگتا ہے کہ اس صورتِ حال میں سیاست دانوں کی بے حِسی کا بھی اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سندھ اسمبلی کے صوبائی اسپیکر ، آغا سراج درانی کی گزشتہ دنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں وہ سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچےاور ڈرے سہمے متاثرین ان کے قریب آنے لگے، تو وہ انہیں خود سے دُور رہنے کی تاکید کرتے رہے۔
بعدازاں، بیان داغ دیا کہ ’’ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے جو تباہی آئی ہے، وہ عوام کے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے۔‘‘جس سے غم زدہ متاثرین کچھ اور بھی دُکھی ہوگئے۔ جب کہ صوبائی وزیرِ صنعت و تجارت ، منظور وسان متاثرہ علاقوں کو اٹلی کے شہر وینس سے تشبیہہ دیتے رہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سیلاب متاثرین اگر سیلاب میں بہہ جانے سے بچ بھی گئے، تو اب انہیں وبائی امراض نے آگھیرا ہے۔ جب کہ حکومتی امدادی کیمپوں میں طبّی سہولتوں کا فقدان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ متاثرہ علاقوں کے دَورے پر گئے، تو سکھر میں سیلاب متاثرین بپھر گئے اور مراد علی شاہ کی گاڑی کو گھیر ے میں لے لیا۔ اور اِک سندھ سرکار ہی پر کیا موقوف، اسی غیر ذمّے داری اور بے حسی کا ثبوت’’ تبدیلی سرکار‘‘ نے بھی دیا کہ خیبر پختون خوا اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود عمران خان کو جلسے جلوسوں ہی سےفرصت نہیں، گویا ان کی اوّلین ترجیح مَرتے، سِسکتے عوام نہیں، سیاست اور کُرسی ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ کم از کم قیامت کی اس گھڑی میں پاک فوج ، فلاحی رفاہی تنظیموں ،عوام النّاس کی طرح یہ بے حِس سیاست دان بھی ایک مرکز پر جمع ہوتے۔ کیا ضلع کوہستان کے اُن پانچ دوستوں کو بھلا یا جا سکتا ہے، جو سیلابی بہاؤ میں ایک چٹان پر کھڑے گھنٹوں دہائیاں دیتے رہے، سیکڑوں افراد انہیں اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتا دیکھنے کے باوجود نہ بچا سکے۔ایسا نہیں کہ مقامی افراد نے انہیں نکالنے کی حتی الامکان کوششیں نہیں کیں، لیکن سیلابی ریلےکے تیز بہاؤ کے سامنے بےبس ہوگئے اور یوں ، پانچ نوجوانوں میں سے چار انتہائی بے کسی و لاچاری کے عالم میں سب کی آنکھوں کے سامنے دریا بُرد ہو گئے۔
غالباً سب کو یاد ہوگا کہ تین سال پہلے جب عمران خان کی بہن، علیمہ خان چترال سیلاب میں پھنس گئی تھیں، تو ایک گھنٹے میں ہیلی کاپٹر اُن تک پہنچ گیا تھا،تو کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے کہ جن عوام کے ٹیکسز سے یہ ہیلی کاپٹرز آتے اور اُڑتے ہیں، اُن کا بھی ان پر کوئی حق ہے۔ اس حوالےسے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے معاونِ خصوصی اطلاعات ، بیرسٹر محمّد علی سیف فرماتے ہیں کہ ’’پہاڑی علاقوں میں گلیشیئرز سے سیلابی صورتِ حال بنی، اپریل اور مئی ہی میں وزیراعلیٰ نے ممکنہ سیلاب کے لیے اقدامات کرلیےتھے ، لیکن نقصانات ہماری توقعات سے کہیں زیادہ ہوئے۔نیز، وزیراعلیٰ کے زیرِ استعمال صرف دوہیلی کاپٹرز ہیں، لیکن وہ ریسکیو کے لیے نہیں ، سفر کے لیے ہیں۔
دونوں ہیلی کاپٹرز خوراک توپہنچا سکتے ہیں ،مگر لوگوں کو نکال نہیں سکتے۔‘‘سابق وزیراعظم عمران خان گزشتہ دنوں جب سکھرمیں متاثرہ علاقوں کا دَورہ کرنےگئے، تو شہریوں نے سوال کیا کہ ’’خان صاحب! جب سکھر ڈوب رہا تھا، تو آپ کہاں تھے؟‘‘جس پر اُن سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف سمیت کئی حکومتی ارکان کو بھی متاثرہ علاقوں میںعوام کے سخت سوالات اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹے ہیں۔ یہ قدرتی آفات اور لاشوں پر بھی سیاست کرتے ہیں۔
البتہ، ہمیشہ کی طرح پاک فوج کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر بڑے پیمانے پر ریسکیو اور ریلیف آپریشن کا آغاز کیا گیا، جو تاحال جاری ہے۔فوج کے تمام جنرل افسران نے اپنی ایک ماہ کی تن خواہ متاثرین کی مدد کے لیے عطیہ کی ۔ پاک فوج کے سپہ سالار، جنرل قمر جاوید باجوہ نے بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دَورہ کیا اور کہا کہ ’’ہم وطنوں کی حفاظت اور عافیت ہماری اوّلین ترجیح ہے۔ تمام ترسیلاب متاثرین کی بحالی تک ہم ہرگزچین سے نہیں بیٹھیں گےاورمشکل کی اس گھڑی میں متاثرین کی بحالی کے لیے کوئی کسر بھی اُٹھا نہ رکھیں گے۔ پاک بحریہ نے سندھ کے ساتھ امدادی کارروائیوں کا دائرۂ کار پنجاب اور خیبر پختو ن خوا کے سیلاب زدہ علاقوں تک بھی بڑھا دیا ہے۔
نیز، پاک بحریہ کے جوان کشتیوں اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسے افراد کومستقلاً محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔وہ بلا تعطّل متاثرین کو راشن بیگز، تیار کھانا، صاف پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ یہی نہیں، پاک فوج کی جانب سے کئی طبّی کیمپس بھی لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح پاک فضائیہ بھی اس مشکل وقت میں سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہے، بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیلاب متاثرین کے لیے پاک فضائیہ کی جانب سے بھی کئی فرِی میڈیکل کیمپس کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب،ان ابتر حالات میں عوام النّاس کے ساتھ مختلف رفاہی تنظیمیں ہمیشہ کی طرح کافی متحرک نظر آرہی ہیںکہ مُلک بھر ہی کی غیر سرکاری تنظیمیں اس کارِ خیر میں اپنا بھرپور حصّہ ڈال رہی ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن ، چھیپا، سیلانی، عالم گیر ویلفیئر ٹرسٹ ، دعوتِ اسلامی کی فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن کی خدمات کا دائرہ خاصا منظّم اور وسیع ہے، تواس حقیقت سے انکاربھی ممکن نہیں کہ مُلک بھر میں کسی بھی قدرتی یا زمینی آفت سے نمٹنے کے لیے الخدمت کے رضاکار 24گھنٹے تیار رہتے ہیں۔ 2005ء کا زلزلہ ہو یا 2010ء کا سیلاب،الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکارہر لحظہ عوام کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
مشکل میں پھنسے عوام کو ریلیف پہنچانے میں کبھی پیچھے نہیں رہے ۔ اور آج بھی متاثرین کے ریسکیو،ریلیف اور بحالی کے لیے دن رات مصروفِ عمل ہیں۔ گلگت بلتستان سے لے کر چترال ،جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان تک اسی ادارے کے رضاکار خدمات میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ رضا کار فیلڈ ہی میں نہیں، ہیڈ آفس سے ضلعی دفاتر تک مختلف اُمور کی انجام دہی میں مسلسل مصروف ہیں ۔الخدمت کے رضاکاروں نے رسیوں، کشتیوں اور گاڑیوں یعنی اپنے محدود وسائل کی مدد سے لوگوں کو ریسکیو کر کےجہاں درجنوں قیمتی جانیں بچائیں، وہیں ان کےاپنے کئی رضا کاربھی زخمی بھی ہوئے۔ راجن پور اور داجل میں انہوں نے بچیوں کے جہیز کا سامان تک نکال کےمحفوظ مقام پر منتقل کیا۔
یہی نہیں، ادارے کی طرف سے دُوردرازبستیوں میں میڈیکل کیمپس لگائے جا رہےہیں، خیمے اور ترپالیں پہنچائی جا رہی ہیں۔اسی طرح جے ڈی سی بھی رفاہی امور میں کسی سے پیچھے نہیں۔واضح رہے، اس ادارے نے پہلی خیمہ بستی پنوں عاقل میں قائم کی ،پھر یکے بعد دیگرے کئی شہروں میں خیمہ بستیاں بنائیں۔ نیز، کراچی سے بڑے پیمانے پر ٹرکوں کے ذریعے لوگوں تک راشن پہنچایا،جب کہ دادو ،جھڈّو ، میر پور خاص، پیر جو گوٹھ، ڈیرہ مراد جمالی ، سانگھڑ،بدين، شکار پور،خیر پور ،کندھ کوٹ،سمیت کئی شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر خشک دودھ، ٹیٹرا پیک دودھ، جوسز، صاف پانی، بسکٹس اوربُھنے چنے چاول وغیرہ بھیجےجا رہے ہیں۔
جب کہ راجن پور اور سکھر سمیت کئی شہروں میں باورچی خانوںکا بھی انتظام کیا ہے، تاکہ متاثرین تازہ کھانا کھا سکیں۔اسی طرح آشیانہ ویلفیر سوسائٹی کے نام سے کام کرنے والے فلاحی ادارے نے بھی بلوچستان اور سندھ کےسیلاب متاثرین کے لیے راشن بیگز، پینے کا صاف پانی،کپڑے،ماچس ،لیمپ، موم بتیاں، مچھر دانیاں، کمبل اور ضروریات زندگی کا دیگر سامان پہنچایا۔خیبر پختون خوامیں سائبان ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے نام سے فلاحی ادارہ خاصا سرگرم ہے۔ یہ آرگنائزیشن چارسدّہ اور نوشہرہ کے سیلاب زدگان کی خدمت میں مسلسل مصروف ہے اور فِری میڈیکل کیمپ بھی لگایا ہوا ہے۔
اسی طرح انڈس اسپتال ، انصار برنی ویلفیئرٹرسٹ،سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ،خواجہ غریب نواز ویلفیئر ٹرسٹ، بیت السّلام ویلفیئر ٹرسٹ، جامعہ دارالعلوم کراچی، المصطفیٰ ٹرسٹ اور ریڈفاؤنڈیشن کی خدمات سےبھی کسی طور صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھر میں ریسکیو 1122 پہلے دن سے دُکھی انسانیت کی خدمت کے لیے عمل پیرا ہے۔ اس ادارے کے رضا کارمشکل ترین راستے عبور کر کے خیبرپختون خوا کے دُور اُفتادہ علاقوں سے متاثرین کی محفوظ مقامات تک منتقلی اور ابتدائی طبی امداد میں مصروفِ کار ہیں۔ اسی کے ساتھ پورے مُلک، بالخصوص کراچی کے عوام دُکھ اور مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔اور یہی وہ جذبہ، وہ احساس ہے، جو اس مُلک کے باسیوں کو دوسروں سے ممّیزو ممتاز کرتا ہے۔
تب ہی تو ابتلااور آزمائش کی اس گھڑی میں عوام، سیلاب متاثرین کےہم قدم ہیں۔ ہم سب اس قیامت خیز گھڑی میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔کیوں کہ سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک ہیں۔ہم پاکستانی ، معاشی طور پر توایک کم زور قوم ہو سکتے ہیں،مگر اخلاقی اور انسانی قدروں کے اعتبار سے اب بھی بہت مضبوط ہیں۔ بس، گلہ ہے، تو صرف صاحبانِ اقتدارو اختیار اور اپنے سیاست دانوں سے کہ یہ موقع سیاست کا نہیں تھا۔