• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کمرشل سنیما میں جمعہ 7؍اپریل 1978ء میں ریلیز ہونے والی ایکشن، رومانی، نغماتی گولڈن جوبلی فلم ’’پرکھ‘‘ پر بات کریں گے۔ یہ فلم کراچی کے نشیمن سنیما میں پیش کی گئی تھی ، جس کے ہدایت کار جان محمد جمن تھے، جو بنیادی طور ر ایک بہترین فوٹوگرافر تھے۔ان کی 1976ء میں بہ طور ہدایت کار پہلی فلم ’’دیکھا جائے گا‘‘ ریلیز ہوئی، فلم ساز فوٹوگرافی کے بعد ڈائریکشن میں بھی انہیں کام یابی ملی۔ فلم ’’پرکھ‘‘ کا جب انہوں نے آغاز کیا تو، اداکار شاہد کو اس فلم میں ہیرو کاسٹ کیا۔ شاہد اور جان محمد کی فلم ’’آمنا سامنا‘‘ کی تکمیل کے دوران کچھ اختلافات ہوگئے تھے ، ’’پرکھ‘‘ کا اعلان بھی اسی دوران ہوا۔ 

انہوں نے کہا تھا ’’آمنا سامنا‘‘ کے بعد جب ’’پرکھ‘‘ بنانے لگے، تو شاہد کی جگہ وحید مراد کو کاسٹ کیا ۔ وحید مراد ان دِنوں فلمی زوال کا شکار تھے ۔ اس فلم میں ان کی بھرپور ایکشن اداکاری نے انہیں دوبارہ کام یاب قرار دلوایا۔ رانی اور وحید مراد کی جوڑی اس فلم میں بے حد پسند کی گئی ، فلم کی کام یابی میں کمال احمد کا سپرہٹ میوزک، ایکشن، مناظر، رومانی اور کامیڈی سیکوئنس نے اسے کام یاب قرار دیا۔ ہدایت کار جان محمد نے عوام کے ذوق کو ہمیشہ اہمیت دیتے ہوئے ہلہ گلہ تفریح سے بھرپور فلموں کی میکنگ میں اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائی، وہ اپنے وقت کے ایک مکمل کمرشل، سپرہٹ ہدایت کار کے طور پر مقبول رہے۔

فلم ’’پرکھ‘‘ کی کہانی کوئی خاص نہ تھی، لیکن جان محمد کے زبردست ٹریٹمنٹ نے اس فلم کو باکس آفس پر سپرہٹ کروا دیا۔ فوٹوگرافر اےآر ناصر کا انتخاب بھی انہوں نے خُوب کیا، جنہوں نے کراچی کے ساحل سمندر اور دیگر لوکیشن کو نہایت عمدہ انداز میں عکس بند کیا۔ اداکار و مصنف جلیل افغانی کی، اس بھارتی کاپی کہانی کا منظرنامہ اور مکالمے بشیر نیاز نے بہت اعلیٰ لکھے۔ آرٹ ڈائریکٹر حاجی غلام محی الدین نے کلب اور آصف خان کے ڈین کے سیٹ بڑی مہارت سے تیار کیے۔ کمال احمد کی دُھنوں پر تسلیم فاضلی کے بول بھی خُوب ہٹ ہوئے۔

اداکاری کے شعبے میں سرفہرست وحید مراد رہے، جو پوری فلم میں چھائے رہے، جذباتی رومانی اور ایکشن مناظر میں انہوں نے نہایت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ’’دولت اور دنیا‘‘ کے بعد ’’پرکھ‘‘ ان کی ایک یادگار اور سپرہٹ ایکشن فلم تھی، جس میں ایکشن کے بادشاہ آصف خان کے سامنے بالکل نروس نہیں ہوئے اور جَم کر اداکاری کی، جسے فلم بینوں نے بہت سراہا۔ رانی نے روایتی ہیروئن کے کردار کو حسبِ معمول لاجواب کیا، رقص بھی عمدگی سے فلمائے۔ 

آصف خان نے اس فلم میں شریف اور اسمگلر کے کردار کو زبردست انداز میں ادا کرکے خوب داد پائی، خاص طور پر ان کا گیٹ اپ، تھری پیس سوٹ، سر پر ہیڈ، فرنچ کٹ داڑھی اور ہاتھ میں شکاری باز،اس زمانے میں خوب مقبول ہوئے۔ ننھا اور تمنا کے کامیڈی سیکوئنس بھی فلم بینوں نے پسند کیے، ننھا کے برجسہ مکالموں سے لوگ بے پناہ محظوظ ہوئے۔ دیگر اداکاروں میں قوی، نوین تاجک، عثمان پیرزادہ، جلیل افغانی، ساقی، رومانہ، راشد، گورامارواڑی اور ادیب کے کردار بھی مناسب رہے۔

ایک خطرناک ڈاکو دارا (ادیب) نے ایس پی وقار (قوی) سے انتقام لینے کے لیے اس کے بیٹے ساجد (وحید مراد) کو بچپن میں اغوا کرلیتا ہے، ایک پولیس مقابلے میں دارا مارا جاتا ہے اور وہ بچے (ساجد) کو بھاگ جانے کو کہتا ہے، بچہ بھاگ کر زمانے کی ٹھوکروں کی نذر ہوجاتا ہے۔ روٹی چوری کرنے پر جیل چلا جاتا ہے، جہاں اسے ایک قیدی بچہ (ننھا) کی صحبت ملتی ہے۔ دونوں جوان ہوکر جیل سے رہا ہوتے ہیں۔ زیرو (ننھا) ساجد جو اب ہیرو کہلاتا ہے، دونوں مختلف وارداتیں کرتے ہیں۔ ایک روز ان کی ملاقات ایک لڑکی گل بانو (رانی) سے ہوتی ہے، جو لڑکے کے بھیس میں ہوتی ہے۔

زیرو اور ہیرو اسے اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں، وہ جس مکان میں رہتے ہیں، اس کی مالکن جولی (تمنا) زیرو پر عاشق ہوجاتی ہے، شہر کے معروف سماجی رہنما غریبوں کے ہمدرد دائود سیٹھ (آصف خان) جو دہری شخصیت کا مالک تھا، لوگ اسے نیک اور غریب پرور سمجھتے تھے، دراصل وہ باس کے نام سے جرائم کی دنیا کا بادشاہ تھا، جس نے گل بانو کے والد ساقی جو ایک دولت مند آدمی تھا، اسے اپنے پاس قیدی بنا کر رکھا ہوا تھا۔ گل بانو اپنے باپ کی تلاش میں جرائم پیشہ افراد سے ملتی تھی، تاکہ اسے اپنے باپ کے بارے میں پتا چلے باس کا چھوٹا بھائی اسلم (عثمان پیرزادہ) اپنی کالج فیلو فریدہ (نوین تاجک) سے محبت کرتا تھا ۔ 

فریدہ کو ایک روز غنڈوں سے ساجد (ہیرو) نے بچایا اور پھر گھر چھوڑنے آیا، تو ایس پی وقار نے بجائے شکریہ ادا کرنے کے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا!! گھر میں لگی ساجد کی بچپن کی تصویر دیکھ کر پتا چلا کہ ساجد، فریدہ کا سگا بھائی ہے۔ ساجد اپنے بچپن کی تصویر دیکھ کر خیالوں میں کھو جاتا ہے کہ کس طرح اسے دارا ڈاکو نے اغوا کیا تھا، اب ساجد کو پتا چل گیا کہ وہ ایس پی وقار کا کھویا ہوا بیٹا ہے، مگر وہ اپنی جرائم پیشہ زندگی کی وجہ سے خاموش تھا۔ ساجد کو فریدہ نے اپنا بھائی بنا لیا، جس کی وجہ سے ایس پی وقار بھی ساجد سے اچھا سلوک کرنے لگتا ہے۔ فریدہ کی سالگرہ پر ساجد نے اپنے جذبات کا اظہار ایک گیت گا کر کیا۔ 

اسلم اپنے بڑے بھائی سیٹھ دائود المعروف باس کو ایس پی کے گھر فریدہ کے رشتے کے لیے بھیجتا ہے۔ دونوں کا رشتہ طے ہوجاتا ہے۔ ہیروں کا اسمگلر باس فریدہ اور اسلم کی شادی والے دن اسمگلنگ کے ہیرے ایس پی کے گھر رکھ دیتا ہے، عین نکاح کے وقت پولیس فورس آکر ایس پی وقار کے گھر سے ہیرے برآمد کرلیتی ہے۔ بارات واپس چلی جاتی ہے۔ ایس پی کو جیل ہوجاتی ہے۔ ساجد ایس پی جو کہ اس کا باپ ہے، یہ الزام خود اپنے سر لے کر اسے رہائی دلاتا ہے۔ باس، ساجد کے اس عمل سے بہت پریشان ہوتا ہے اور اپنے آدمیوں کو حکم دیتا ہے کہ اسے جیل میں ختم کردیا جائے۔ 

اسلم اپنے بڑے بھائی کی یہ باتیں سُن لیتا ہے اور وہ اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ ساجد پولیس کی حراست سے فرار ہوکر باس کے اڈے پہنچتا ہے اور اسے للکارتا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری باس کے اڈے پر پہنچ کر اسے اور اس کے آدمیوں کو گرفتار کرلیتی ہے۔ گل بانو، ایس پی کو ساجد کے بارے میں تمام حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ وہی اس کا بچھڑا ہوا بیٹا ہے، جسے دُنیا والے ہیرو کے نام سے جانتے ہیں۔ گل بانو کا باپ ساقی بھی باس کے اڈے سے برآمد ہوجاتا ہے۔ باپ اور بیٹے کا ملاپ ہوتا ہے، باس جیسے خطرناک ملک دشمن اسمگلر کو گرفتار کروانے پر حکومت ساجد کو معاف کردیتی ہے۔ زیرو اور جولی، فریدہ اور اسلم، گل بانو اور ساجد تمام لوگ مل جاتے ہیں۔

فن و فنکار سے مزید
انٹرٹینمنٹ سے مزید