فرحی نعیم
ہم ہر روز کئی لوگوں سے ملتے ہیں ، کسی سے ملاقات باعث خوشی ہوتی ہے، کچھہ سے مل کر زیادہ اچھا نہیں لگتا، مزاج پر گراں بھی گزرتے ہیں۔ لیکن کیا آپ ایسے لوگوں سےملی ہیں ،جن کی تسلی بخش گفتگو آپ کی تسکین کا باعث بنی ، جن سے مل کر آپ اپنا درد بھول گئ ہوں، یقیناً آپ کے ارد گرد بیشتر افراد میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوگا، جس کے کندھے پر سر رکھ کر یا بات چیت کرکے آپ نے ہلکا پھلکا محسوس کیا ہوگا۔ اپنی کتاب زندگی اس کے سامنے کھول کر آپ کو شرمندگی نہیں بلکہ سکون محسوس ہوا ہوگا، کیوں کہ وہ آپ کی تکلیف، آپ سے بڑھ کر محسوس کر کے،وہ درد آپ کے اندر سے غیر محسوس انداز میں نکال کر آپ کو پر سکون کردیا ہوگا۔
قارئین ہم یہاں نہ کس نفسیاتی معالج کی بات کر رہے ہیں نہ ہی والدین کی۔ نفسیاتی معالج کا یہ پیشہ ہے کہ وہ اپنےمریض کا مرض رفع کرے اور والدین اولاد کو تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے۔ اور ان کے غم دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ہم تو بات ان عام افراد کی کر رہے ہیں جن کی اس خوبی نے انہیں خاص بنا دیا ہے،جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں، مگر ایسے بھی ہیں اگر بات ہم یہاں صنف نازک کی کریں، جو گھر، گھر سے باہر، خاندان یا اگر وہ ایک خاتون خانہ کے ساتھ نوکری پیشہ بھی ہے تو دہری، تہری ذمہ داری نبھا رہی ہوتی ہیں۔
گھریلو و معاشی امور میں کیسے کیسے نشیب و فراز کا سا منا نہیں کرنا پڑتا، اگر ایسی مشکل گھڑی میں مسائل کا شکار عورت کو تنہا چھوڑ دیا جائے تو وہ ذہنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے، ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو سکتی ہے، یا پھر بہت سی الجھنوں کا شکار بھی، اکثر خواتین تو خود ہی ان سے لڑ لڑ کر ذہنی، نفسیاتی وجسمانی الجھنوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں، لیکن جن کو مہربان مل جائیں جو مرہم بن جائیں، ان کا وجود ایک نعمت سے کم نہیں ہوتا، اگرچہ ایسی خواتین کوئی اعلیٰ ڈگریاں نہیں رکھتیں، نہ ہی کسی مخصوص شعبہ سے وابستہ ہوتی ہیں ، بس ایک حساس اور درد مند دل کی مالک ہوتی ہیں ، جو اپنی زندگی کو ، اللّہ کے بندوں کی تکلیف رفع کرنےکی کو شش کرتی ہیں۔
اگرچہ ایسے مہربان آٹے میں نمک کی مقدار کے برابر ہیں ، لیکن بہرحال موجود ہیں ۔ آپ اگر خدانخواستہ زندگی کے الم ناک دور سے گزر رہی ہیں، یا کوئی کرب ناک واقعے نے آپ کی حیات کا دھارا بدل دیا، یا پھر ماضی میں کسی اندوہ ناک صورتحال کا سامنا ہوا، ایسی ہر مشکل گھڑی میں ایسے لوگ جو استاد، دوست، پڑوسی، عزیز، کولیگ یا دور و نزدیک کے کسی قریبی رشتے دار میں سے بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ جن سے دل و روح کا ایک ان دیکھا سنگم ہے۔ جوآپ کے زخموں پر پھائے رکھے، تسلی و تشفی کا احساس دلا کر آپ کو زندگی کا روشن چہرہ دکھائے، جو اندھیرے میں جگنو بن کر چمکے ، خیالات کو مثبت انداز سے دکھانے کی بھرپور صلاحیت رکھے، ایسے لوگ ہی زندگی کو منور کرتے ہیں۔
زندگی سے منسلک منفی اثرات کو زائل کر کے گرتے کو سنبھالنے میں مدد دیتے ہیں ۔ یہ ہماری روزمرہ زندگی کا مشاہدہ ہے، کہ زندگی مسائل و مصائب کا پہاڑ ہے۔ ایک طوفان بلا خیز ، جس میں ہر آن مشکلات سر اٹھائے داخل ہو رہی ہیں۔ ایک ناقابلِ فہم صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ کب کیا ہو جائے کچھ نہیں معلوم، کچھ مسائل خارجی تو کچھ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہوتے ہیں ۔ ان سے نبردآزما ہونا آساں نہیں۔ بڑی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ چھوٹی، غیر اہم چیزیں بھی غلط قدم اٹھا کر بڑی اور اہم دکھنے لگتی ہیں۔
بروقت درست اقدام نہ کرنا ، یا حکمت عملی کا ثبوت نہ دینا ، ایسے ایسے گھریلو مسائل کا پیش خیمہ بن جاتا ہے کہ مصائب کی ڈور سلجھانے نہیں سلجھتی ، کئی ہاتھ ان کی گرہیں کھولنے میں ملوث ہوتے ہیں، تب کہیں جا کر کچھ پریشانیاں کم ہوتی ہیں ۔ اور پھر ہر ایک کی پریشانی کی نوعیت یکساں نہیں ہوتی ، انسان مختلف، مزاجوں میں تضاد و تفکرات کیسے ایک جیسے ہو سکتے ہیں، پھر ہر ایک کی اس سے نمٹنے کے لیے وسائل اور استطاعت بھی نہیں ہوتی۔
کچھہ چھوٹی پریشانی میں ہاتھ پیر چھوڑ ڈالتے ہیں اور کچھ بڑے بڑے طوفان کے سامنے ہمت نہیں ہارتے ۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس سب صورتحال کی ابتدا میں، دوران میں یا انجام کے وقت ، آپ کو اخلاقی یا روحانی سہارا درکار ہوتا ہے۔ اگر بدقسمتی سے نہ میسر ہو تو وقت تو گزر ہی جاتا ہے لیکن کٹھن اور اگر کوئی خو ش قسمتی سے کسی ایسے کی غیبی مدد حاصل ہو گئی جو، آپ کے حوصلے کو بلند کرے، آپ کو گرنے نہ دے، آپ کو تھام لے، تو یہ قسمت کی خوبی ٹھہرے گی۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے دم سے یہ دنیا قائم ہے۔
اصل میں ہم نے چھوٹی چھوٹی مہربانیاں کرنی چھوڑ دیں، ہم نہیں جانتے کہ ہمارا ایک عمل ، ہمدردی کا ایک جملہ، اس کا اظہار ، کس طرح دوسرے کے لیے باعث خوشی بنتا ہے، اس کمزور اور محروم شخص کے دل میں ہمارا کیسا تاثر قائم کرتا ہے ،ایسا عکس جو مدتوں بھلایا نہ جائے ، جو روشنی بن کر آگے سفر کرے، ایسا سفر جس کا کنارہ نہیں ، یہ ہمدردی و مدد کا جذبہ آگے اور آگے منتقل ہو کر تپتی راہ گزر میں ٹھنڈی چھاؤں بن جاتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ جن گوں نا گوں نا ہمواریوں کا شکار بنا ہوا ہے، وہاں اکثر افراد ایک دوسرے سے یہ کہتے سنے گئے کہ ، مثبت سوچ رکھیے، مثبت رویے اپنائیں ، آپ کے بہت سے مسائل آپ کے منفی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔
جب آپ اپنی سمت بدلیں گے تو ہوا کا رخ بھی خود بخود تبدیل ہو گا۔ اور اس طرح آپ اپنی ذات سے باہر نکل کر خاندان اور سماج کو بھی کچھ بہتر اور نیا دے سکیں گے۔ وہ پرندہ کیوں نہ بنیں جو صرف اپنے ہی بقا کے لیے نہیں زندہ رہتا بلکہ دوسروں کی پرواز کے لیے بھی جدو جہد کرتا ہے۔ آج معاشرے میں جس چیز کی سب سے زیادہ طلب ہے، وہی ہماری سوسائٹی میں ناپید ہے ، اخلاقی پہلو میں ہم سب سے پیچھے ، دل میں یہ سکوں کہ گر چہ جس چیز سے میں محروم تو اسے بھی خوشی سے دور کردیا گیا۔ حالانکہ ہمدردی کے بول سےآپ کا کیا جاتا ہے، دوسرے کے دل میں مقام ہی پیدا ہوتا ہے، تو کیوں نہ اپنوں کا سہارا بنیں، ایسا ہمدرد جس کا دل آپ کی تکلیف میں اسی طرح تڑپے،جیسے آپ کا اپنا دل درد وتکلیف محسوس کرتا ہے۔
اپنی شخصیت کو نکھارنے کی کوشش کریں، دعا کی درخواست کے بجائے اپنے وجود میں ایسی خوبیاں پیدا کیجئے جو دعا کا سبب بن جائے، باطنی روشنی دور تک پھیلتی ہے، اچھی دوا کا اثر بھی دیرپا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی خوبیوں کا مرقع بنیں،جو خیر خواہی کے جذبے سے لبریز ہو، جو اپنے وغیر سب کے لیے حساس و نازک دل رکھتا ہو، ایسے صورت میں ڈھل جائیں جو ہر کسی کی تکلیف کا مداوا بن جائے، روحانی خوشی بڑی کم ہے، یہ اللّہ کے چیدہ بندوں کو ہی میسر ہے۔ آپ بھی ان کم یاب میں نام لکھوالیں، لوگوں کی دوا بن جائیں۔
ان کا علاج بن جائیں۔ خیر بن جائیں، کیوں کہ شر بننا تو آسان ہے۔ حالانکہ ایسے لوگ خدا کے ناپسندیدہ ہوتے ہیں ، لیکن مرعوبیت قائم رکھنے کے لیے وہ ایسا ہی لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں، حقیقی مسرت تو دلوں کو فتح کرنے میں ہے۔ خوش رہنا بہتر لیکن دوسروں کو خوش رکھنا ، ان کے غم بانٹنا ، ان کا مرہم بننا ، ان کو طمانیت پہنچانا سب سے زیادہ بہترین کام ہے۔