• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احسن سعید

’’استاد‘‘ یہ لفظ شائد آج کل کی جنریشن اتنا استعمال نہ کرتی ہو یا پھر ان کو اردو میں بولنے میں دقت محسوس ہوتی ہو، لیکن میرے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پانچویں جماعت سے لے کر میٹرک تک یہ لفظ روزانہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ تھا۔ استاد جی نے کہا ، کہ اگر چھٹی کی تو چار ڈنڈے پڑیں گے جو اگلے دن پڑتے بھی تھے۔

مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ان اساتذہ کو کیا ملتا تھا ہمیں چھٹی کرنے پر سزا دے کر؟ وہ کیوں ہماری اتنی فکر کرتے تھے، کیوں گھروں سے بلوا لیتے تھے۔ پھر سوچتا ہوں کہ یہ ان کی ایمانداری تھی جو انہیں ہمارے مستقبل کی فکر اپنے بچوں کی طرح تھی۔

مجھے پوری زندگی اچھے اساتذہ ملے اور اللہ کا شکر ہے ہم میں اپنے اساتذہ کا مذاق اڑانے کا رواج بھی کوئی اتنا خاص نہیں تھا۔ ہمارے گورنمنٹ ا سکول پرائیویٹ اسکولوں کا مقابلہ کرتے تھے، بورڈ میں پوزیشنز آتی تھیں۔ پچھلے دنوں میں بہت عرصہ کے بعد اپنے آبائی قصبہ گیا اور اپنے میٹرک کے استاد کو ان کے گھر جا کر ملا۔ کیا عظیم زندگی ہے ان کی بھی، پوری زندگی گاؤں کے بچوں کو پڑھاتے گزری اور ابھی بھی گزر رہی ہے۔ ان کے طلبا فوج سے لے کر بڑے بڑے حکومتی اداروں میں کام کرتے ہیں اور بہت سے بیرون ملک چلے گئے، لیکن میرے استاد وہیں اور آئندہ کی نسلوں کو پڑھا رہے ہیں۔

اپنے استاد کی آنکھوں میں اپنی وجہ سے دیکھی گئی خوشی سے بڑا لمحہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ میرا اپنے قصبے میں گزارے گئے تمام وقت میں سے وہ آدھا گھنٹہ بہت ہی قیمتی تھا جو میں نے اپنے استاد کے پاس گزارا۔ یہ وہ انسان ہیں جو بلا غرض کے دوسروں کے بچوں کی زندگیاں سنوارتے ہیں۔ بہت خوش قسمت ہوں میں جو مجھے بہترین استاد ملے، کرسیاں نہیں ملیں بیٹھنے کو تو کیا ہوا، اپنے استاد کے دلوں میں تو بیٹھے ہیں نا۔