لاہور(تجزیہ ،صابر شاہ) 27 اکتوبر 2017 کو برطانیہ میں علاج کے لیے ملک چھوڑنے والے، پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بالآخر 1798 دن یا چار سال گزارنے کے بعد پیر کی شام وطن واپس پہنچ گئے۔دستاویزات سے پتہ چلتاہےکہ 72 سالہ ڈار 27 اکتوبر 2017 کو ایک روزہ علاقائی اقتصادی کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیراعظم کے خصوصی طیارے پر پاکستان سے روانہ ہوئے لیکن تنازع کےبعدواپس پاکستان آنے کے بجائے وہ سابق وزیراعظم سے ملاقات کیلئےپہلے سعودی عرب گئےاور پھربرطانیہ جانےکاانتخاب کیا، 22 نومبر 2017کو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسحاق ڈار کی ʼطبی چھٹی کی منظوری دے دی تھی، جس کے تحت ان سے کابینہ کے تمام قلمدان واپس لے لیے گئے تھے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے مذکورہ معاملے میں طبی چھٹی کی منظوری دی تھی جس دن حکومت نے مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں سے 2سے3ارب ڈالراکٹھاکرنےکیلئے روڈ شوز کا آغاز کیا تھا تاکہ غیر ملکی کرنسی کے سرکاری ذخائرپردبائو کر روکا جاسکے، اسی روز وزیراعظم عباسی نے فوری طور پر وزیر خزانہ، ریونیو اور اقتصادی امور کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ لاہور کے نامور ہیلی کالج آف کامرس اور انگلینڈ اور ویلز کے انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سے تعلیم حاصل کرنے والے ڈار کو 21فرورری 2018سےپہلےکابینہ کاقلمدان لینے کیلئے برطانیہ سےواپس آناتھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،وزیر اعظم عباسی کو لکھے گئے اپنے خط میں اس وقت کے موجودہ وزیر خزانہ نے لکھا تھاکہ 28اکتوبر 2017 کو عمرہ کرنے کے فوراً بعدمیں نے سینے میں شدید سرد اور دبائو محسوس کرنےپرمقامی ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جنہوںنےکارڈیالوجسٹ کےپاس واپس جانے کا مشورہ دیا،برطانیہ میں میرے ٹیسٹوں میں ڈفیوزکرونری اوراسکیمک(دل کی بیماریاں ظاہرہوئی ہیں،احتساب عدالت جہاں ڈارکوبدعنوانی ریفرنس کاسامناتھاکی قانونی ٹیم نےخصوصی عدالت کےجج کوآگاہ کیاکہ مسلم لیگ(ن)کےمعاشی جادوگرطبی وجوہات کی بناپرکم ازکم 6ہفتےتک سفرنہیں کرسکتے۔