• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کو 10 ماہ گزر چکے ہیں لیکن تاحال مقامی حکومتوں کو اختیارات منتقل نہیں کئے گئے جس کے خلاف صوبے بھر کے بلدیاتی نمائندے سراپا احتجاج ہیں جبکہ بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات کی عدم منتقلی کیخلاف پشاور ہائیکورٹ سے بھی رجوع کرلیا گیاہے خیبر پختونخوا میں جن تحصیل کونسلوں کی طرف سے بجٹ کی منظوری دی گئی صوبائی حکومت کی طرف سے بلدیاتی نمائندوں کے منظور کردہ بجٹ کو بھی معطل کردیا گیا ہےصوبے کے منتخب میئرز اور تحصیل چیئرمینز نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں صوبائی حکومت کی جانب سے ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے اسے بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے میئر پشاور حاجی زبیر علی میئر مردان حمایت اللہ مایار اور صوبے کے دیگر میئر زو تحصیل چیئرمینز کے مطابق صوبائی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی شق نمبر 23 ‘ 23A ؛اور 25.25A میں ترامیم کرکے عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر بیوروکریسی کو مسلط کردیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں عوام نے تاریخ میں پہلی بارعوام کے ووٹوں سے میئرز اور تحصیل چیئرمینز براہ راست منتخب ہوئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کے حقوق پر بھی ڈاکہ ہے ایکٹ میں ترامیم واپس لیکر بلدیاتی نظام کو اس کے اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے عوام کے مسائل انکی دہلیز پر حل کرنے کے سلسلے میں بلدیاتی ادارے موثر اور فعال کردار اداکرسکتے ہیں عوام کو اپنے مسائل و مشکلات کے سلسلے میں وزراء اور ارکان اسمبلی سے رابطوں میں مشکلات پیش آتی ہیں جبکہ بلدیاتی نمائندے جو ان کے اپنے ہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ان کو مسائل و مشکلات سے آگاہ کرنے میں عوام کو آسانی ہوتی ہے خودمختار بلدیاتی نظام پاکستان کی سالمیت و استحکام اور عوام کی بالادستی کے لیے ضروری ہے اختیارات کی حقیقی معنوں میں نچلی سطح تک منتقلی نہ ہونے کی وجہ سے عوامی مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں اگر بلدیاتی ادارے کمزور ہوں گے تو عوام کے مسائل کس طرح حل ہوں گے بلدیاتی نظام کا بنیادی مقصد عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں سب سے بہترین نظام لوکل گورنمنٹ ہےملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی معاشی بحران روز بروز شدت اختیار کر تا جارہا ہے۔

خیبر پختونخوا میں آٹے کی قیمتیں قابو سے باہر ہوگئی ہیں صوبائی دارالحکومت پشاورمیں سرکاری آٹے کے حصول کیلئے عوام کو ذہنی کوفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے شہری مخصوص سیل پوائنٹس پر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر آٹا خریدنے اور اکثر خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور ہیں جہاں بدنظمی، لڑائی جھگڑوں اور بدانتظامی کے واقعات سامنے آرہے ہیں خیبرپختونخوا حکومت نے ملک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد صوبہ کے عوام کو سبسڈائز نرخوں پر سرخ آٹا فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت نے 37 ارب روپے مختص کئے ہیں ، صوبہ میں سینکڑوں سیل پوائنٹس قائم کئے ہیں جہاں عوام کو 10 کلو آٹے کا تھیلہ 490 روپے میں فراہم کیا جارہا ہے۔ 

تاہم عوام کیلئے مخصوص سیل پوائنٹس پر آٹا ٹرکوں سے آٹے کا حصول ناممکن ہوگیا ہے، مرد ، خواتین اور بوڑھے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر پہلے شناختی کارڈ جمع کرکے انٹری کرتے ہیں جہاں سے پرچی لیکر ٹرک کے پاس جمع ہوجاتے ہیں، ٹرک پر موجود افراد پرچی لیکر تھیلہ متعلقہ شخص کے پاس پھینکتے ہیں جس سے روزانہ کئی افراد زخمی ہوجاتے ہیں اسی طرح سیل پوائنٹس پر شدید دھکم پیل اور بدانتظامی کے واقعات بھی عام ہیں سیل پوائنٹس پر سرخ سرکاری آٹے کا 20 کلو تھیلہ کا نرخ 980 روپے مقرر ہے جبکہ مارکیٹ میں یہی آٹا 1800 روپے میں مل رہا ہے، اسی طرح مارکیٹ میں فائن آٹے کا20 تھیلا 2200 اور سپر فائن آٹا 2300 سے 2400 روپے میں مل رہا ہےخیبرپختونخوا فلور ملز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہمیں ضرورت کے حساب سے آٹا یا گندم نہیں مل رہی۔

آٹا تقسیم کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ اور محکمہ خوراک کی ہے محکمہ خوراک ٹرکوں کے ذریعے آٹا کی ترسیل کو فوری بند کرے اور فلور ملز کو آٹا ڈیلرز کی فہرست مہیا کی جائے تاکہ باعزت طریقے سے آٹا کی ترسیل ممکن ہو سکے گندم کا یومیہ کوٹہ 3 ہزار ٹن سے بڑھا کر 7 ہزار ٹن کیا جائے اگر یومیہ کوٹہ نہ بڑھایا گیا تو 20 کلو تھیلہ کی قیمت 3 ہزار تک بڑھ جائے گی پنجاب حکومت کی جانب سےآٹا کی نقل و حمل پر بے وجہ پابندیاں ختم کی جائیں صوبے کی گندم کی ضروریات کو فوری پورا کیا جائے اگر صوبائی حکومت گندم مطلوبہ یومیہ 7 ہزار ٹن گندم فراہم کرے تو آٹے کی قیمت میں 5 سو روپے تک کمی آئے گی۔ 

عوام کوپہلے ہی عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری اور پسماندگی جیسے مسائل اور مہنگائی کی وجہ سے اذیت کا شکار ہیں لہٰذا آٹا بحران اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ پر قابو پانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے خیبر پختونخوا میں جاری آٹا بحران اور اس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قابو کرنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی ترتیب دیدی جائے تاکہ صوبہ کے عوام کی تکالیف کا ازالہ ہوسکے خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کی نئی لہر کے بعد سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے بعض دوسرے علاقوں میں پہاڑوں پر دہشتگردوں کی موجودگی کی اطلاعات اور دہشتگردی کے واقعات کے بعد عوام میں خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے جبکہ عوام امن کمیٹیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہےعوام نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امن کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائیگا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید