پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اتحادی حکومت کی سب سے اہم حلیف جماعت ہے ، اس کے باوجود پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پارٹی کارکنوں کا کوئی پرسان حال نہیں، وفاقی حکومت، مرکزی قیادت، حتی کے صوبائی قیادت تک کسی جگہ ان کی شنوائی نہیں ہورہی، پارٹی کارکن ایک جانب اپنی قیادت کی نا قدری کا شکار تو دوسری جانب پرویز الہٰی حکومت کے ظلم وستم کا شکار ہیں، ووٹروں کا کام نہ ہونے کی وجہ سے طعنہ زنی الگ برداشت کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ صوبائی اور ضلعی قائدین عوام کا سامنا کرنے سے گھبرا تے اور گھروں کے اندر رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا رواں سال مارچ میں عوامی لانگ مارچ کے دوران تاریخی استقبال کیا گیا، صادق آباد سے لاہور اور راولپنڈی تک جگہ جگہ سیاسی قوت کے بھرپور مظاہرے ہوئے، جس سے پارٹی میں نئی روح پیدا ہو گئی اور جیالے متحرک او ر فعال ہوگئے، بلاول بھٹو لانگ مارچ اور عمران خان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد تک سفر طے کر کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہوگئے، پنجاب سے تعلق رکھنے والےوسطی پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف اسپیکر قومی اسمبلی کے بن گئے، وسطی پنجاب کے سابق صدر قمر زمان کائرہ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر ، گلگت بلستستان بن گئے، جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہے، سابق گورنر اور صدر جنوبی پنجاب مخدوم احمد محمود کے بیٹے سید مرتضی محمود کو وفاقی وزارت کا قلمدان مل گیا۔
ماہ ستمبر میں وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کا نوٹیفکیشن ہوا تو مظفر گڑھ سے پارٹی ایم این اے نوابزادہ افتخار احمد خان، مظفر گڑھ سے دوسرے ایم این اے رضا ربانی کھر، مظفر گڑھ سے تیسرے ایم این اے مہر ارشاد احمد خان ، راولپنڈی کے ڈویژنل صدر سردار سلیم حیدر، سرگودھا کے ڈویژنل صدر تسنیم احمد قریشی وزیر اعظم کے معاونین خصوصی بن گئے۔ پیپلزپارٹی کے جیالے حیران اور پریشان ہیں کہ سب کچھ کیا ہورہا ہے، کہا ہورہا ہے اور کون کررہا ہے؟ پیپلزپارٹی کے اسپیکر قومی اسمبلی، وفاقی وزرا، وزیر اعظم کے مشیران اور معاونین کا جیالوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لاہور کے جیالے جنھوں نے ہر احتجاج، تحریک اور جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا،انھوں نے قربانیاں دے کر پارٹی کے جھنڈے کو بلند رکھا لیکن اتحادی حکومت میں انھیں فراموش کردیا گیا۔
لاہور کے جیالے شکوہ کرتے ہیں کہ پنجاب کے صدر راجہ پرویز اشرف نے اسپیکر قومی اسمبلی بننے کے بعد صوبائی تنظیم میں دلچسپی ختم کردی اور اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ آئینی طور پر پارٹی کے صوبائی صدر کی ذمہ داریاں ادا نہیں کرسکتے، انھوں نے چار مہینوں میں صرف ایک مرتبہ لاہور میں 18ویں ترمیم کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں شرکت کے علاوہ کبھی دورہ نہیں کیا، پنجاب ایگزیکٹو کا ہر ماہ اجلاس کا تواتر بھی ختم،چار مہینوں میں صرف ایک اجلاس بلاول ہائوس اسلام آباد میں ہوا، ان کی توجہ قومی اسمبلی اور گوجر خان اپنے حلقے تک محدود ہے، انھیں پنجاب کا صدر برقرار رکھنا کیوں ناگزیر ہے؟ پنجاب کا پارٹ ٹائم صدر ہٹا کر مستقل صدر کیوں نہیں؟
وفاقی حکومت میں شامل وزرا، معاونین اور مشیران لاہور میں نجی تقریبات اور ملاقاتیں کرکے اسلام آباد واپس چلے جاتے ہیں، پارٹی اجلاسوں میں شرکت اور کارکنوں سے ملاقاتیں کیوں نہیں کرتے؟ مرکز میں اتحادی حکومت کے وقت ڈھارس دی گئی کہ پنجاب کے ساتوں ڈویژنل صدور کو مشیر اور معاونین مقرر کیا جائے گا، ان کی جگہ ضلع مظفر گڑھ کے تین ارکان قومی اسمبلی اور پنڈی ، سرگودھا کے ڈویژنل صدور کو فوقیت کیوں دی گئی؟
جب پنجاب میں حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ ختم ہوئی تو لیگی وزیر داخلہ عطا تارڑ اور وزیر قانون ملک محمد احمد کو وزیر اعظم کا معاون خصوصی مقرر کردیا گیا لیکن پیپلزپارٹی کے جنرل سیکرٹری اور پنجاب کے سابق سنیئر وزیر حسن مرتضی کیوں نظر انداز ہوگئے؟ وفاقی حکومت کے ماتحت پنجاب اور لاہور میں اہم سرکاری اداروں میں بھی پیپلزپارٹی کے کارکنان کو کوئی نمائندگی حاصل نہیں، ماضی میں گیس، بجلی کمپنیوں، پی آئی اے، متروکہ وقف املاک سمیت دیگر اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیپلزپارٹی کو ہمیشہ متناسب نمائندگی دی گئی ، لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ پیپلزپارٹی کے نامزد پاکستان بیت المال کے چیئرمین عامر فدا پراچہ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن شازیہ عطا مری بھی لاہور تنظیم کو نمائندگی اور کارکنوں کو ملنے ، سننے کے لئے آمادہ نہیں۔
پیپلزپارٹی لاہور کے جیالے برملا کہتے ہیں کہ اتحادی حکومت میں سیاسی یتیم ہو چکے ہیں، پارٹی تنظیم اور عہدیداران بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضی گزشتہ چار برسوں سے بہت متحرک و فعال کردار اور بھرپور جدوجہد کرتے رہے ناراض ہو کر چنیوٹ میں گوشہ نشینی اختیار کر چکے ،صوبائی سیکرٹریٹ ماڈ ل ٹائون میں آنا جانا چھوڑنے کے بعد اجلاسوں میں بھی شرکت نہیں کررہے، پیپلزپارٹی سوشل میڈیا اکائونٹس میں چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی ختم ہو گئی۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے لاہور کے جیالے مطالبات کررہے ہیں کہ وفاقی حکومت میں شامل تمام پارٹی وزرا ، معاونین، مشیران سمیت دیگر سرکاری محکموں میں لاہور کے کارکنوں کو کوآرڈی نیٹر مقرر کیا جائے، پنجاب سمیت لاہور کے اہم وفاقی محکموں کے انتظامی بورڈوں میں کارکنوں کو نمائندگی دی جائے، پنجاب میں صدر کے عہدے پرفی الفور لاہور سے تعلق رکھنے والے پارٹی رہنما کوتعینات کیا جائے۔ پنجاب کا صدر ہمیشہ لاہور سے منتخب کیا گیا جن میں بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد، افضل وٹو، ررفیق احمد شیخ، جہانگیر بدر، رانا شوکت محمود، فخر زمان، ملک مشتاق اعوان، قاسم ضیا، منظور وٹو، راؤ سکندر اقبال سمیت دیگر شامل تھے۔
یہ تمام رہنما لاہور سے آبائی تعلق یا مستقل رہائش ، روزگار رکھتے تھے، چار برس قبل پہلے لالہ موسی سے قمر زمان کائرہ، ان کے بعد گوجر خان سے راجہ پرویز اشرف کو صدر پنجاب بنایا گیا، حد ہو گئی کہ جنرل سیکرٹری پنجاب کے لئے بھی ندیم افضل چن سرگودھا، چودھری منظور قصور، حسن مرتضی چنیوٹ کو ذمہ داریاں سونپ دی گئیں، چار برسوں کے ناکام تجربات سے بہت نقصان ہو چکا، آئندہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں حصہ لینا ہے تو لاہور کے رہنمائوں کو پنجاب میں اہم عہدے دئیے جائیں ورنہ پارٹی اور کارکنوں کا مورال ختم ہو جائے گا۔
پیپلزپارٹی پنجاب کے کارکنان اس بات پر شدید سراپا احتجاج ہیں کہ حالیہ شدید سیلاب اور بارشوں کے دوران جنوبی پنجاب کے اضلاع لیہ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، چنیوٹ میں ہرطرف تباہی پھیل گئی لیکن آصف زرداری، بلاول بھٹو سمیت مرکزی قائدین ، وفاقی وزرا ، سرکاری محکموں پاکستان بیت المال اور بے نظیر انکم سپور ٹ کے سربراہان نے متاثرہ علاقوں کادورہ کیا نہ ہی وہاں امدادی سامان بھیجا گیا۔ ظلم یہ ہوا کہ لاہور میں جمع ہونے والا امدادی سامان اور فنڈز بھی فریال تالپور کے حکم پر لاڑکانہ بھیج دئیے گئے۔
پیپلزپارٹی لاہور کے صدر اسلم گل ان تمام حالات کے باوجود پرامید اور پرعزم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ لاہور میں نئی تنظیم سازی ہورہی ہے، ڈسٹرکٹ و ن میں نئے صدر زاہد ذوالفقار ، ڈسٹرکٹ ٹو آصف ناگرہ ، جبکہ ڈسٹرکٹ تھری عاطف رفیق، ڈسٹرکٹ فور امجد جٹ کو ریگولیٹ کردیا گیا، 30صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں سے 15زونل تنظیمیں اور 274یونین کونسلوں میں 150یونین کونسلوں کی تنظیمیں مکمل ہو چکی ہیں۔