• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلہ تکنیکی‘ ججز کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا، ماہرین قانون

کراچی (ٹی وی رپورٹ) ملک کے ممتاز قانونی ماہرین بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی‘جسٹس (ر)شائق عثمانی ‘ناصرہ جاوید‘عامرعباس ودیگر کا کہنا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا‘عدالت نے تکنیکی فیصلہ دیا ہے ‘جج صاحبان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا جے آئی ٹی نے ثابت کردیاتھاکہ مریم نواز ٹرسٹی نہیں مالک تھیں ‘یہ اوپن اینڈشٹ کیس ہے ۔

اپنے تجزیے میں بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کا کہنا تھا کہ مریم نواز کی کی عدالت میں پوزیشن تھی کہ میں ٹرسٹی ہوں مالک نہیں ہوں ۔نلسن اور نیسکول یہ دو کمپنیز تھیں جو برٹش ورژن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہوئیں اور انہوں نے ان فلیٹس کو خریدا اور ان کمپنیز کی مالک مریم نواز تھیں ،ٹرسٹی نہیں اونر اور جے آئی ٹی نے ثابت کردیا تھا کہ یہ اس کی مالک ہیں ۔

جب مالک ثابت ہوگئیں تو انہیں یہ ثابت کرنا تھا کہ پیسہ کہاں سے آیا ،اس لئے ان کو جو سزا دی گئی تھی وہ اس لئے دی گئی تھی کہ آپ نے معاونت کی ہے نواز شریف کے اثاثے چھپانے کے جرم میں ۔تو یہ اوپن اینڈ شٹ کیس ہے،جب انہوں نے یہ جھوٹ بولا تھا کہ میں ٹرسٹی ہوں تو وہیں سے ثابت ہوگیا تھا کہ یہ اپنے باپ کو بچانے کے چکر میں ہیں ۔

مصدق عباسی نے مزید کہاکہ آج جو چیز ہورہی ہے یہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے جسے کہتے ہیں فرینڈلی پراسیکیوشن ،جج نے جب یہ سوال پوچھا کہ نیب نے کوئی تحقیقات کی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کیوں آپ نے ہمارے سامنے رکھ دی جبکہ JITکے سربراہ جو کہ اس معاملے کے اہم ترین گواہ بھی تھے انہوں نے توتمام دستاویزات کو صحیح پیش کردیا تھا ۔

یہ کہہ دیناکہ آپ نے اپنی انوسٹی گیشن نہیں کی تو اپنی خود انوسٹی گیشن اور کونسی کرنی تھی جب وہی شخص جس نے تحقیقات کی وہ بطور گواہ موجود تھا۔بغیر کسی شبہ کے وہ دستاویزات جو ورجن آئی لینڈ سے لئے گئے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ مریم نواز ان فلیٹس کی قانونی ماہر ہیں ۔

پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے ماہر قانون عامر عباس کا کہناتھاکہ موجود ہ کیس میں سب سے بڑی جو کوتاہی ہوئی جب جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی چوہدری قمر زمان اس وقت نیب کے چیئرمین تھے انہوں نے جوریفرنس بنایا پہلے تو اس میں انہوں نے Flawsڈال دیے جو کہ آگے جا کر میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو ہیلپ کریں کہ انہوں نے یہ بتایا ہی نہیں کہ میاں صاحب کی اپنی آمد ن کتنی ہے اور یہ بتایا ضروری ہوتا ہے کہ ان کی آمدن اتنی ہے اور ان کے پاس جو اثاثے ہیں اس سے اتنے زیادہ ہیں ۔

قانون کی تبدیلی کا اثرتو بہت پڑاہے ۔سیکشن 14کو ختم کردیاگیا جس کے بعد اب یہ نیب کا کام ہے کہ ہے وہ بتائے کہ فلاں کک بیک سے یہ پراپرٹیز آپ نے لی ہیں تب تو اس کو کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے زمرے میں لایا جائے گا ۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ماہر قانون ناصرہ جاوید نےکہا کہ موجودہ حکومت اپنی سہولت کیلئے نیب قانون میں بے شمار ترامیم لے آئی ہے۔

پہلے بار ثبوت شریف فیملی پر تھا یہ ثابت نہیں کرسکے ان کو سزا ہوگئی اب وہ بار ثبوت آپ نے استغاثہ پر ڈال دیااس لئے ان کو بریت ہوگئی ہے‘ نیچے کی عدالت نے فیصلہ کچھ کیا ہواہے ہائی کورٹ نے فیصلہ اس کے مخالف کیا ہوا ہے۔سپریم کورٹ میں تو خودبخود کیس جائے گاکہ دونوں فیصلوں میں تضاد ہے ‘اگر وہ جواب نہیں دیں گے تو اس مقدمے کی از سر نو سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی۔

پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے ماہرقانون جسٹس (ر)شائق عثمانی کا کہناتھاکہ اس کیس میں چند دن پہلے سماعت ہوئی تھیں اس میں جج حضرات جب سوالات پوچھ رہے تھے تو یہ عیاں ہوگیا تھا کہ یہ بری ہوجائیں گے۔

استغاثہ کا کام کرائم کو ثابت کرنا ہوتا ہے اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے پراپرٹی کا تعلق نواز شریف کے ساتھ نہ دکھا سکے ۔ جہاں تک مریم نواز کا تعلق تھا وہ پبلک آفس ہولڈر نہیں تھیں ۔ کورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تکنیکی فیصلہ ہے جج صاحبان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔

نواز شریف کو فائدہ پہنچنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ دیکھنا یہ ہے کہ پراپرٹی کی ملکیت کے متعلق جج صاحبان کے کیا ریمارکس ہوتے ہیں۔ اگر وہ مثبت تبصرہ کرتے ہیں تو اس میں یقینا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔جہاں تک نوازشریف کی نا اہلی کی بات ہے وہ تو برقرار رہے گی کیوں کہ انہیں اقامے پر نا اہل کیاگیاتھا۔

سعد رسول نے کہاکہ آج جمہوریت اور قانون کی جیت ہوئی ہے‘نیب کے دفاتر میں بھی ایک دوسرے کو مبارکباد دی جارہی ہے‘جن سوالات کا جواب نیب ٹرائل کورٹ میں دے رہی تھی ان سوالات کا جواب نیب اب نہیں دے رہی ہے ۔ نیب سے پوچھا جارہا ہے کہ آپ کے پاس کیا شواہد ہیں ؟ نیب نے شواہد سپریم کورٹ میں پیش کئے مختلف موقعوں پر۔

عدالت پر ہم ایک لمحہ کے لئے بھی الزام نہیں دے سکتے نہ اس فیصلہ میں کوئی سقم اٹھا سکتے ہیں ۔ عدالت نے اپنا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ان شواہد کی بنیاد پر کرنا ہے جو عدالت میں پیش کیا گیا ۔

نیب دلائل دینے میں آج اتنا سنجیدہ نظرنہیں آرہاتھا‘وہ یہ جواب دے رہا تھا کہ ہم صرف جے آئی ٹی پر انحصار کررہے ہیں ۔ آپ پر کوئی کیس ہو اور میں نیب کے جانب سے پیش ہوجاؤ اور کہوںکہ مجھے کچھ خاص شواہد ملے ہی نہیں تو عدالت کس طرح اس پر کارروائی کرے گی ۔

اہم خبریں سے مزید