میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ:سلیم اللہ صدیقی
موسمیاتی تبدیلی ایک بڑی حقیقت ہے، دوسری حقیقت متاثرین کی بحالی ہے لیکن ان کی منتقلی ، بحالی اور محفوظ بنانے کا عمل بدنظمی کا شکار ہے۔
ہمارا تعمیراتی اسٹرکچر ہے کسی بھی صورت انتہائی تبدیل موسمی حالات کو برداشت کرنے کے لائق نہیں ہے، ہمیں قومی اور صوبائی سطح پر ایسی ٹاسک فورسز کی شدید ضرورت ہے، جس میں ٹیکنو کریٹس شامل ہوں اوروہ کوشش کریں ان تمام حالات سے نمٹنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر تجاویز پیش کریں ان کو قانونی شکل دے کر نافذ کیا جائے۔
ملک بھر میں زمین کو کمرشل بنیادوں پر فروخت کرنے کے کاروبارکا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ہمیں ایسی محفوظ جگہیں تیار رکھنی چاہیےجہاں لوگ آسانی سے پہنچ سکیں۔
ڈاکٹر نعمان احمد
سیلابی آفت تو گزرگئی لیکن اب اس کےمزید اثرات سامنے آرہے ہیں جو زیادہ مہلک ہیں۔ جس میں ممکنہ طور پر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور غذائی قلت شامل ہیں۔ متاثرہ آبادی کی بحالی کے لیے بین الاقوامی اداروں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو پانی اترتے ہی ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ سب سے پہلی ضرورت تو بچوں کی ہے جس پر عالمی ادارۂ خوراک بھی توجہ دلارہا ہے۔ بدلتے موسم کے ساتھ سردی میں اور وہ بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے لوگوں کو گرم کپڑے اور لحاف چاہئیں۔
انوشے عالم
ملک بھرمیں کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی فوری تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ ان اداروں میں مستقبل کی فیصلہ سازی کے لیے صرف ماہرین کو رکھا جائے۔ ماہرین کا تعلق شعبہ ماحولیات، موسمیات، زراعت، زمین، فصل اورجدید ٹیکنالوجی سے ہو۔ شعبہ مکمل ان کے حوالے کرنے کے بعد ان کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل بنایا جائے۔
زہرہ خان
متاثرین کو ایسی جگہوں پر آباد کیا جائے جو چٹان نما ہو ں،کم از کم ایک گوٹھ کی آبادی دو سو خاندانوں پر مشتمل ہو۔ گوٹھ میں فراہمی و نکاسی آب بجلی، گیس کمیونٹی سنٹر، بنیادی ہیلتھ سینٹر، اسکول،حکومت مہیا کرے، متاثرین کی بحالی کے لیے وفاقی صوبائی اور مقامی اور بین الاقوامی جو فنڈ ہے ان کو یکجا کیا جائے اور فصلوں کے لیے مال مویشیوں کے لئے گھروں کی کی تعمیرات کے لئے ایک مناسب رقم متاثرین کو پر دی جائے۔
زاہد فاروق
بارش تو برس گئی لیکن اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ایک داستان چھوڑ گئی، اس ادراک کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان میں بارشوں کے سبب پیدا سیلاب کی نقصانات اور مستقبل پر اثرات ایک سنجیدہ موضوع ہے، اسے امدادی کارروائیوں تک محدود کر کے نظرانداز کرنا مناسب عمل نہ ہو گا، افسوس کی بات ہے کہ وفاقی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز بھی اس سیلاب کی نذر دکھائی دیتی ہیں، ادارے ابھی بھی درست صورت حال بتانے سے قاصر ہیں، اعدادو شمار اندازوں کی بنیاد پر بیان کئے جا رہے ہیں، نقصانات کے ساتھ یہ جاننے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ابھی کتنے مکانات اور افراد پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور آئندہ دنوں میں پانی کی نکاسی نہ ہونے کی صورت میں انہیں کیا خطرات لاحق ہوں گے، مال مویشی اور زراعت پر جن کا گزارہ تھا آئندہ ان کا کیا ہو گا، موسمیاتی تبدیلی کی یہ لہر آئندہ برسوں میں بھی قائم رہے گی اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا، امدادی کاموں کی مرکزیت پر بھی سنگین سوالات ہیں، عالمی امداد کے استعمال اور تقسیم کا میکنزم کیا ہے؟ متاثرین کی معیشت کے ساتھ ان کی صحت اور تعلیم کے حوالے سے بھی سوچنا ہو گا، بارش اور سیلاب میں جو کچھ بہہ گیا ہے اس کی واپسی ممکن ہو گی۔ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب تقریبا مکمل اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے شدید متاثر ہیں۔
جناب فیصل ایدھی سے ایک ملاقات میں تفصیلی گفتگو رہی،، تقریبا تمام ہی باتوں پر اتفاق رائے پایا گیا، مثال کے طور پر بارشوں سے جس پیمانے کی تباہی ہوئی ہے اس سے تنہا نمٹنا ہماری جیسی کسی بھی حکومت کے بس سے باہر ہے، حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے تاکہ ریلیف کے لئے وسائل مہیا کئے جا سکیں، حکومت نظرثانی شدہ سیلابی ریلیف بجٹ پیش کرے اور اخراجات اور آمدنی کے نئے اہداف مقرر کرے، پاکستان کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی بات کی جائے، موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہونے پرہرجانے کا دعویٰ کیا جائے، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مذید افراد کو شامل کیا جائے، فیصل ایدھی نے اعتراف کیا کہ آفات کا مقابلہ کرنے اور متاثرین کی مدد کے لئے رفاہی تنظیموں میں آپس میں کوئی ہم آہنگی، تعاون اور رابطہ نہیں ہے وہ منظم بھی نہیں ہیں، جس کے سبب امدادی کام کسی منصوبہ بندی سے نہیں ہو پاتا، اس قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کی گائیڈ لائن کے تحت چلنا چاہیے، بنا کسی منصوبہ بندی سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ اکثر قریبی اور آسان رسائی کے علاقوں میں کئی تنظیموں کی امداد وافر مقدار میں پہنچ جاتی ہے جب کہ دور دراز اور مشکل راستوں میں گھرے افراد تک کوئی امداد نہیں پہنچ پاتی۔
انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ امدادی سامان دس فی صد متاثرین تک ہی پہنچ سکا ہے، نوے فی صد بےیار و مددگار ہیں، خدشہ ہے کہ بھوک اور بیماری انہیں نگل لے گی، زمینی راستوں کی صورت حال کے پیش نظر کشتیوں اور ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے جو دستیاب نہیں ہے، نشان دہی کی گئی کہ عوام کو امدادی سامان فراہم کرنے میں شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے سوشل میڈیا دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
ملک میں سیلاب گلیشیر پگھلنے یا ٹوٹنے سے نہیں بارش سے پیدا ہوا ہے۔یہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ اس کا ذمہ دار پاکستان نہیں ہے۔پاکستان میں سالانہ اوسط سے کئی سو گنا زیادہ بارشیں ہوئی ہیں سندھ میں سب سے زیادہ، ہزار گنا تک کا اندازہ ہے، سندھ میں سو کلو میٹر کا علاقہ کسی جھیل کی مانند ہے، سی این این نے تصویر بھی جاری کی ہےبلوچستان، سندھ، ساوتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا شدید متاثر ہیں، اور سیلاب سے ساڑھے تین کروڑ افراد بے گھر ہوئے ہیں، یہ تعداد یوکرین روس جنگ کے نتیجے میں ہجرت کرنے والوں کی تعداد کا چھ گنا ہے پاکستان کا ہر چھٹا فرد سیلاب اور بارشوں سے متاثر ہے
عالمی ادارے، عالمی میڈیا اور ممالک اندازہ کر رہے ہیں کہ کس بڑے اسکیل کی تباہی کا سامنا ہے۔ ان کا ردعمل بھی اسی کے مطابق ہے۔ محکمہ موسمیات نے یکم جولائی سے اب تک ملک بھر میں ہونے والی بارش کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں جس کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ بارش سندھ میں ریکارڈ ہوئی، ملک بھر میں بارشوں کا اوسط 118.7ملی میٹر ہے رواں برس بارش 368ملی میٹر یعنی 210فیصد زائد بارشیں ہوئیں، سندھ میں اوسطا 113.1 ملی میٹر کا ریکارڈ ہے حالیہ رواں مون سون سیزن میں 687.6 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے، گویا اوسط سے 508 فیصد برسات زیادہ بارش، جس سے سیلابی صورت حال ہوئی بلوچستان میں اوسطاً 51.9ملی میٹر بارش کا ریکارڈ ہے، رواں سیزن میں دوسرے نمبر پر بلوچستان میں زائد بارش 314.1ملی میٹر یعنی 506فیصد زیادہ ریکارڈ ہوئی۔
صورت حال کی اس سنگینی کو سمجھنے امداد اور بحالی کے کاموں کی ضرورت اور جائزہ لینے اور تعمیر نو کے لیے جنگ فورم نے، سیلاب بلا میرے آگے، کے موضوع پر جنگ فورم "سیلاب کے بعد، بحالی اور تعمیر نو" کے موضوع پر جنگ فورم منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر نعمان احمد (چیئرمین، آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ، این ای ڈی یونیورسٹی)زہرہ خان (جنرل سیکرٹری، ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن) انوشے عالم (پاکستان لیبر ٹرسٹ) اور زاہد فاروق( جوائنٹ ڈائریکٹر، اربن ریسورس سینٹر) نے اظہار خیال کیا ، فورم کی تفصیلی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
ڈاکٹرنعمان احمد
(چیئرمین، آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ، این ای ڈی یونیورسٹی کراچی)
موجودہ سال کی غیرمعمولی موسلادھار بارشیں اور اس کے نتیجے میں سے پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت نے پورے ملک میں اجتماعی تباہی کا سامان برپا کردیا ہے۔ ہم دیکھ رہے لوگ اور ان کا مال و اسباب کس تیزرفتاری سے تلف ہوا ہے۔ لاتعداد افراد جاں بحق اور لاکھوں کی تعداد میں خاندان بے گھر ہوئے ہیں اور ابھی بہت سے علاقے پانی سے گھرے ہوئے ہیں۔ حکومتی متعلقہ ادارے اور غیر سرکاری سماجی تنظیمیں متاثرین کی مدد کاکام کررہی ہیں۔
ان میں مختلف نوعیت کی امدادی سامان کی تقسیم ہورہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بنیادی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں جو پاکستان میں اس سے پہلے آنے والے سیلابوں کی کیفیات اور اس سے متعلق محرکات سے متعلق ہیں ۔ دوہزار دس میں بھی سیلاب آیا تھا، جس میں وہ اضلاع متاثر ہوئے جو دریا نہر یا پانی کی کی گزرگاہوں سے منسلک تھے۔ لیکن موجودہ صور ت حال یوں زیادہ غیر معمولی ہے۔ یہ جو غیر معمولی بارشیں ہوئیں تواس کے نتیجے میں وہ علاقے بھی متاثر ہوئے ہیں جو کسی دریا نہر یا پانی کی دیگر گزرگاہوں کے ساتھ نہیں ہیں۔
ہمارے سامنے پانی کے نکاس کا نظام انتہائی سنگین مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے آمدروفت کے زمینی راستے جس میں ہائی ویز، سڑکیں اور ریلوے لائن شامل ہیں وہ بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں میڈیا کے ذریعے یہ بھی دکھایا جارہا ہے ،بہت سے مکانات گرگئے ہیں ،اس کے علاوہ دیگر املاک تباہ ہوئیں جس میں ہوٹل ،پل،فصلیں مختلف سیلابی پشتے جو حفاظت کے لیےبنائے گئے تھے ان سب کو نقصان پہنچا ہے۔ اس پورے برباد انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں کافی وقت درکار ہوگا۔
ان تمام حالات کا اصل محرک موسمیاتی تبدیلی ہے۔ کافی عرصے سے ہمیں آگاہ کیا جارہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان پر بری طرح اثرانداز ہورہی ہے۔پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا پانچواں ملک تصور کیا گیا ہے۔ مختلف سائنسی تحقیقات اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ یہ تباہی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ جب ہمیں معلوم ہے موسمیاتی تبدیلی ایک بڑی حقیقت ہے، تو وہیں دوسری حقیقت متاثرین کی بحالی، لیکن ان کی منتقلی ،بحالی اور محفوظ بنانے کا عمل بدنظمی کا شکار ہے۔
ہمارا تعمیراتی اسٹرکچر ہے کسی بھی صورت انتہائی تبدیل موسمی حالات کو برداشت کرنے کے لائق نہیں ہے ، جیسے جیسے وقت آگے بڑھے گا ہم یہ دیکھیں گے تبدیل موسم کے نتائج مزید بڑھ کر سامنے آئیں گے۔ لہذا ہمیں قومی اور صوبائی سطح پر ایسی ٹاسک فورسز کی شدید ضرورت ہے، جس میں ٹیکنو کریٹس شامل ہوں اور وہ کوشش کریں ان تمام حالات سے نمٹنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر تیار تجاویز پیش کریں اور ان تجاویز کو قانونی شکل دے کر نافذ کیا جائے۔
جب پانی نیچے آئے گا تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوگی کہ ایک قومی سطح کا سروے کیا جائے، جس میں سیلابی نمونے کا جائزہ لیا جائے،اس میں دیکھا جائے کہ وہ نشیب یا اونچائی پر ایسے کون سے مقامات ہیں جہاں منتقلی ہوسکتی ہے۔ ان مقامات کو ترجیحی بنیاد پر بحالی و آبادکاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ دوسر ی جگہ پر ایسے کا م کیا جائے کہ وہاں پانی ٹہرے نہیں بلکہ نکل جائے۔ زمین کے بدلتے ہوئی صورت حال کا ٹھیک طریقے سے جائزہ لیا جائے۔ جن محرکات کے سبب آمدورفت کی سڑکیں متاثر ہورہی ہیں،ان سڑکوں اور ہائی ویز کو محفوظ بنانے کے لیے انفرا اسٹرکچر میں جن ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے وہ کی جائے۔
اسی طرح پانی کے قدرتی بہاو میں رکاوٹیں ہیں وہ رکاوٹیں جو پانی کو دریاوں یا دیگر میں نکاس میں جانے سے روکتا ہے وہ رکاوٹیں دور کی جائیں، کیونکہ پانی کے بہائو میں رکاوٹ سیلابی صورت حال کا باعث بنتی ہے۔ سارے کام کرنے کے لیے ہمارے پاس جدید سہولیات میسر ہیں۔ ہم ڈیجیٹل ٹول کا استعمال کرسکتے ہیں۔ سول ایوی ایشن ماڈلنگ کے ذریعے سے پیٹرن کو زیادہ بہتر انداز سے پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ سیلاب کی شدت کااندازہ جدید طریقے سے لے سکتے ہیں۔ یہ ٹاسک ترجیحی بنیادوں پر استوار کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہماری زمین کے معاملات کس حد تک سائنسی بنیادوں پر استوار ہیں۔
ہمیں صوبائی بورڈ آف ریونیو سے زمین کے مالکان کا پورا ڈیٹا حاصل کرنا چاہیے۔ اور یہ ڈیٹا بھی اس ہی ٹاسک فورس کے حوالے کرنا چاہیے۔تاکہ اتنی بڑی آبادی جو ان حالات کے بعد دوسری جگہ منتقل کی جائے گی ۔تو اس کی مدد سے ازسرنو آبادکاری میں یہ دیکھنا ہوگا اس میں کون سی زمین آسانی کے ساتھ مہیاکی جاسکتی ہے۔ ملک بھر میں زمین کو کمرشل بنیادوں پر فروخت کرنے کا جو رئیل اسٹیٹ کاروبار ہورہا ہے اس پر ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بعض جگہ ان اسکیموں کے نتیجے میں ہمارے قومی انفرااسٹرکچر جیسے ہائی ویز اور دیگر بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
کراچی میں ایم نائین موٹر وے سیلاب سے دوچار ہوا اسے اس بات سے جوڑا گیا ہے کہ اس کے اردگرد رئیل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ ہے۔ اسی طرح سوات میں ہوٹلوں کی تباہی ہوئی،وہ سب دریاوں کے راستے میں بنے ہوئے تھے وہ اس ماحولیاتی تبدیلی کا بوجھ برداشت نہ کرسکے۔ ہمارے یہاں قدرتی آفت بارش اور سیلاب کے متاثرین کوفوری طور پر اسکولوں اور کالجوں یا دیگر جگہ میں رکھا گیا ہے یہ مناسب طریقہ نہیں ہے۔
ہمارے ہر ضلع کی پبلک پراپرٹیز کا ضلعی بنیادوں پر یہ تعین ہونا چاہیے ان میں کس حد تک ان ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ ہنگامی حالات میں متاثرین کورکھنے کے لیے جگہ کا بندوبست ہونا چاہیے۔ہم زمانہ امن یا معمول کے دنوں میں تیار کرلیں گی توآفت کے دنوں میں بحثیت قوم زیادہ آسانی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرسکیں گے۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے تعلیمی ادارے متاثر نہ ہوں۔ اگر ہم یہ نہ کرپائیں تو اس کے نتیجے میں ہماری تعلیمی صورت حال بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔
دیگر سرکاری عمارتوں کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے یہ عمارتیں بھی آفت کی صورت میں استعمال کے قابل ہوسکتی ہیں۔ ہمیں ایسی محفوظ جگہیں تیار رکھنی چاہیے جہاں لوگ آسانی سے پہنچ سکیں۔ یہ سب ضلع اور اس سے نچلی سطح پر اس کا جائزہ اور آگاہی عوام کو دی جاسکتی ہے۔ ہماری عمارتیں بغیرکسی ترتیب کے بنی ہوئی ہیں،ان کاکوئی مربوط نقشہ نہیں، تعمیر کی کوئی مناسب رائے نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب آفت آتی ہے تو یہ گر جاتی ہیں۔ جس سے مال و جان کا نقصان ہوتا ہے۔
میرے خیال میں ہمیں اس کے لیے متعلقہ پیشہ ور جیسے آرکٹیکٹ،سول انجیئر بلڈنگ انجینر شامل ہیں یا اس شعبے میں زیرتعلیم سینئر طالب علم ہیں ان سے مدد لی جائے،وہ اپنے اساتذہ کی مدد سے وہ ایسا ماحول مہیا کرسکتے ہیں جس سے یہ صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔لیکن اگر ہم نےیہ کام اگلی آفت تک موخر کردیا تو یقینی ہمیں بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ ہمیں موجودہ آفت کو خطرے کی آخری گھنٹی سمجھنا چاہیے۔ اور پوری مربوط کوشش اپنے ماحول زیادہ بہتر بنا نے کے لیے کرنی چاہیے، تاکہ آئندہ آنے والی ایسی کسی بھی حالات کا نہ صرف مقابلہ کرسکیں اور تعمیر نو کی سرگرمی زیادہ اچھے طریقوں سے کریں۔ تاکہ وہ لوگ جو اس تباہی کے نتیجے میں اپنا سرمایہ کھو بیٹھیں ہیں انہیں کچھ سکون کا سانس ملے انہیں کچھ سہولت ملے۔ اس آفت سے پاکستان کی ایک تہائی آبادی متاثرہوئی ہے۔ اگر ہم نے ان کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہیں کی، ترقیاتی منصوبے نہیں کیے انہیں سائنسی بنیادوں پر تیار نہیں کیا تویہ بڑا خدشہ بن کر سامنے رہے گا اس طرح بہت بڑی انارکی کی کیفیت پیدا ہوجائےگی جو ملک کے نظم و نسق چلانے میں بہت دشواری پید اکرے گی۔
انوشے عالم
(پاکستان لیبر ٹرسٹ)
میں اندرون سندھ کے سیلاب متاثرہ گاوں دیہات قصبوں کی عوام کو قریب سے دیکھ کر آرہی ہوں۔ میڈیا کے ذریعے سیلاب سے آنے والی ملک بھر میں تباہی دیکھ تو سب رہے ہیں لیکن حالات درحقیقت نظرآنے سے زیادہ بدترین ہیں۔سندھ کی زیادہ خراب صورت حال کی وجہ بارش کے ساتھ بلوچستان سے بھی پانی بہہ کر آنا ہے۔ سندھ میں 120ملین ایکڑ فٹ پانی آیا ہے ، یہاں 11سو ملی میٹر بارشیں ہو ئیں ، یہ غیر معمولی ہے۔ ہم نےٹھٹھہ ،یوسی ہڈل شاہ، خیر پور، کوٹ ڈیجی، پیر جو گوٹھ وغیرہ اندر کافی آگے تک حالات کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ خیرپور میں رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ بھی ہمراہ تھیں۔
جہاں گئی جس طرف دیکھادور دور تک پانی کھڑا دیکھا ہے اور متاثرہ افراد بے سروسامانی میں نظر آئے۔اکثر کے پاس کوئی مدد نہیں آئی تھی۔ کئی مقام پرہزاروں متاثرین سیلاب بے یارو مددگار ،سڑک راستے اور بندوں پر کھلے آسمان تلے اپنے معصوم بچوں اور اہل خانہ کے ساتھ دھوپ کی تپش میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان غریب کاشت کاروں کے پاس نہ سرچھپانے کے لیے کوئی ٹینٹ نہ بچھانے کے لیے چادر تھی۔
ہم نے حالات کواپنی سوچ سے زیادہ خراب دیکھا ہے۔ لوگ بہت تکلیف میں ہیں، متاثرین اپنی املاک ،مویشی،فصل ،کھیت کی بربادی کے بعد بھوک اور بیماریوں سے لڑرہے ہیں، ان کے گھر آبائی زمینیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔زندہ رہنے کے لیے سوائے نقل مکانی کے ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔بے سروسامانی ،بیماری بھوک یہ سب کچھ ہے اور کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔سیلابی آفت تو گزرگئی لیکن اب اس کےمزید اثرات سامنے آرہے ہیں جو زیادہ مہلک ہے۔
جس میں ممکنہ طور پر پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور غذائی قلت شامل ہیں۔ بیماریوں میں ڈینگی ،ملیریا ہیضہ ،اسہال گیسٹرو اور زہریلے جانوروں کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔ ایک اندازےکے مطابق سندھ میں قریبا 30لاکھ گھروں کو نقصان پہنچا ہے، کپاس کھجور چاول اور گنے کی فصلیں متاثر ہوئیں ہیں، دو لاکھ سے زائد مویشی مرچکے ہیں۔
ماحولیاتی موسمیاتی تبدیلی اورموجودہ قدرتی آفت کے ذمے دارصرف ہم نہیں اس میں زیادہ حصہ دنیا کا ہے۔ لہٰذا مصیبت کی گھڑی میں اسے ہمارے ساتھ مساوی ذمہ داری لینا ہوگی۔ متاثرہ آبادی کی بحالی کے لیے بین الاقوامی اداروں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق ایسی آفتوں کا سامنا ہمیں ہرسال ہوسکتا ہے۔ دانش مندی کہتی ہے مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ہمارے ارباب اختیار ملکی اورغیرملکی ماہرین ماحولیات کی بات سنیں اور اس پر عمل درآمد کی کوششیں شروع کریں۔
ادارے اور لوگ اس مہم میں شامل ہوں ۔ماحولیاتی تبدیلی میں بگاڑ کی وجہ ہمارا رہن سہن کے پرانے طریقوں سے دور ہونا ہے،ہم نے درختوں کی کٹائی کی،پانی کے قدرتی راستوں کو روکا۔ اس نے ماحول کو بدل کررکھ دیا ہے،حالات اچھائی کے بجائے برائی کے طرف چلے گئے ہیں۔ سیلاب متاثرہ بچے ، برزگ خواتین بدترین ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔
مویشیوں کے لیے چارہ نہیں۔ لوگوں کے پاس پکانے کے لیے گیس یا کوئی دوسرا ایندھن چھوڑیں لکڑی بھی نہیں کیوں کہ یا تو و ہ ڈوبی ہیں یا سب بھیگ چکی ہیں ۔اب وہ اپنے لیے خوراک بھی تیار نہیں کرپارہے ،چاروں طرف پانی ہے ،گھر بہنے سےکھلے آسمان تلے جی رہے ہیں۔ کیکر کی جھاڑیوں کی مدد سے وہ اپنے لیے چھت بنا کر بیٹھے ہیں۔
آپ ہم تصور کرسکتے ہیں کہ کیکر کی چھت کے سائے اپنے دن رات گزاریں۔ ہمارے لیے اگر یہ ناممکن ہے، تو یہ لوگ کیوں ایسے رہنے پر مجبور رہیں۔ میں بے سروسامانی تپتی دھوپ میں بچی کو 103 بخار میں دیکھ کر آئی ہوں۔لہذا پوری دنیا کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات کو جائزہ لے ، صرف مدد کرنے سے مشکلات ختم نہیں ہوں گی۔ ان کی بحالی کے لیے ہمیں دوسری طرح کی ذمہ داری لینی پڑے گی۔ حکومت کو پانی اترتے ہی ترجیحی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔
سب سے پہلی ضرورت تو بچوں کی ہے جس پر عالمی ادارۂ خوراک تک بار بار کہہ رہا ہے۔ پھر موسم کے ساتھ سردی اور وہ بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے لوگوں کو سردی کے کپڑے اور لحاف چاہئیں۔ ساتھ ہی ساتھ جہاں پانی اُتر گیا، وہاں کھیتوں کی زمین بحال کرنے اور بچوں کے اسکولوں کی تعمیر ضروری ہے۔ بظاہر لیپا پوتی نہیں چلے گی۔ باقاعدہ اسکولوں کی عمارتیں، جن میں غسل خانے ضروری ہیں۔
ہمیں سب جلدی کرنا پڑے گا کیونکہ اگر دیر ہوئی تو ابھی کے متاثرہ جو بے ریارمددگار ہیں ایسے ہی حالت میں دوسری آفت کا شکار ہوجائیں، موجودہ آفت میں سیلاب زدگان غریب بے قصور ہیں۔ ان کے آباواجداد یا خاندان اس تباہی میں معصوم ہیں۔ انہیں جینے کا حق ہے وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کےلیے فوری مناسب بندوبست کرنا پڑے گا۔
انسانی بھوک کا المیہ اپنی جگہ لیکن ان پالتو مویشی گائے بھینس بکری وغیرہ جن کا چارہ ختم ہوچکا اب جب انہیں بھوک لگے گی اور کچھ میسر نہ ہو تووہ رونے کے علاوہ کیا کرے گا، سارے جاندار مشکل میں ہیں۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائےان کی مشکلات کو محسوس کریں۔ اور فوری عملی اقدامات کیے جائیں۔
زاہد فاروق
(جوائنٹ ڈائریکٹر،اربن ریسورس سینٹر)
سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے میری چند تجاویز ہیں۔
1- مقامی متاثرین اور سرکاری اداروں کے اہلکار مل کر متاثرین کا سروے کریں۔
2-جانی نقصان کتنا ہوا مال مویشی کا نقصان کتنا ہوا گھر کا نقصان کتنا ہوا اجناس کا نقصان کتنا ہوا، روزگار کتنا متاثر ہوا۔
3-متاثرین سے ان کی بحالی کے لیے تجاویز لی جائیں اور ان پر عمل بھی کیا جائے-
4-متاثرین کو ایسی جگہوں پر آباد کیا جائے جو چٹان نما ہوں۔
5-کم از کم ایک گوٹھ کی آبادی دو سو خاندانوں پر مشتمل ہو. گوٹھ میں فراہمی و نکاسی آب بجلی ۔ گیس کمیونٹی سنٹر ۔بنیادی ہیلتھ سینٹر۔اسکول۔حکومت مہیا کرے ۔کم ازکم پندرہ گوٹھ کے بعد ایک کالج اور اسپتال کی سہولت بھی متاثرین کو حاصل ہو۔
6-بے نامی زمین مین کاشتکاروں میں کم از کم پانچ ایکڑ فی خاندان حکومت مہیا کرے۔
7-متاثرین کی بحالی کے لیے وفاقی صوبائی اور مقامی اور بین الاقوامی جو فنڈ ہے ان کو یکجا کیا جائے اور فصلوں کے لیے مال مویشیوں کے لئے گھروں کی کی تعمیرات کے لئے ایک مناسب رقم متاثرین کو پر دی جائے۔
8- انٹرنیشنل سماجی تنظیمں مقامی تنظیموں کے باہمی اشتراک سے متاثرین کی بحالی کے لیے لیے طویل عرصے کا پروگرام سامنے لائیں۔
9-بینک دیگر مالیاتی ادارے سب متاثرین کو آسان شرائط پر ان کی بحالی کے لئے ان کے کاروبار کی بحالی کے لیے ان کے لئے آسان شرائط پر قرضہ جات فراہم کریں۔
زہرہ خان
(جنرل سیکریٹری، ہوم بیسڈ ویمن ورکرز فیڈریشن)
مون سون کی ریکارڈ بارشوں سے ہمیں سیلابی آفت کا سامنا ہے ۔ بہت سے علاقوں میں آج بھی چار چارفٹ پانی کھڑا ہے۔ گھر گرچکے ہیں بدترین تباہی سے ہمارا دیہی علاقہ بری طرح متاثر ہےعوام بدترین حالات میں جی رہے ہیں۔لیکن افسوس ایسے وقت میں ریاست کاذمہ دار کردار ہمیں نظر نہیں آرہا ۔جو ادارے اسی مقصد کے لیے بنائے گئے جنہوں نے سامنے آکر نمٹنا تھا ان کا کردار دور دور تک نظر نہیں آرہا۔
ریلیف کا کام تو جو بھی جیسا ابھی ہورہا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں مشکلات بڑھیں گی کچھ دنوں بعد خوراک کی قلت سنگین مسئلہ بن کر سامنے آنے والی ہے، زمینیں ابھی بھی پانی میں ڈوبی ہیں، ایسے میں گندم کاشت نہیں ہوگی، کپاس اور دوسری تیارفضلیں پہلے ہی تباہ ہوگئیں ہیں، اس شعبے سے وابستہ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ایسے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بحالی کے لیے حکومت کو مربوط منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔
منصوبہ بندی پانچ دس سال تک نہیں بلکہ لمبے طویل عرصے کے لیے ہونی چاہیے۔ کیوںکہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں ہرسال ایسے ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے،تواگر ہم نے تیاری نہیں کی توآئندہ خوراک میں ہمیں کچھ دستیاب نہیں ہوگا۔ میری کچھ تجاویز ہیں جس پر فوری عمل درآمد کرکے حالات سے بہتر نمٹ سکتے ہیں۔
1-ملک بھر میں کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی فوری تنظیم نو کی ضرورت ہے۔ ان اداروں میں مستقبل کی فیصلہ سازی کے لیےصرف ماہرین کو رکھا جائے۔ ماہرین کا تعلق شعبہ ماحولیات، موسمیات، زراعت، زمین،فصل اورجدید ٹیکنالوجی سے ہو۔ شعبہ مکمل ان کے حوالے کرنے کے بعد ان کی سفارشات کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل بنایا جائے۔ ہم نے ابھی لوگوں کے لیے 11ملین جمع کرلیے ہیں۔ لیکن بدترین صورت حال کا سامنا پھر ہوا تو شاید اگلے سال ہم اتنا نہ جمع کرسکیں۔ لہذا نمٹنے کی منصوبہ بندی پیشگی کریںتب جاکر ہم بھوک ،غربت اور بے روزگاری کو ختم کرسکیں گے۔
2- حکومت، حزب اختلاف ،ریاست کے دیگر تمام ستون ایک نقطےپر متفق ہو کر عالمی مالیاتی اداروں کو اس بات پر قائل کریں، ہم نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک جو قرض لیئے ہیں، اس ناگہانی کے بعد یہ ادارےقرض واپس کرنے والی اقساط کو فوری موخرکریں۔ موخر کی میعاد کم از کم تیس سال تک ہونی چاہیے۔ قرض کی ادائیگی کی رقم متاثرہ عوام کی بحالی پر خرچ کیا جائے۔جس میں روزگار ،تعلیم اور صحت شامل ہیں۔
3-خوراک، بے روزگاری کے بعد متاثرہ علاقوں میں صحت بڑا سنگین مسئلہ نظر آرہا ہے۔ سیلاب متاثرین کی اکثریت میں جلدی بیماری وبائی صورت میں نظر آرہی ہے۔ دیہی سندھ میں بعض امراض پہلے ہی سے بہت زیادہ ہیں جیسے ہیپاٹئٹس اے بی سی بہت زیادہ نظر آرہا ہے۔ حاملہ خواتین چھوٹے شیرخوار بچے سیلابی صورت حال میں پریشان بیمار ہیں۔ تو یہاں شعبہ ہیلتھ کو زیادہ سرگرمی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
متاثرین کے بچوں کی تعلیم ختم ہوکررہ گئی ہے اسے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔حکومت کی طرف سےمتاثرہ خاندان کو فی کس 25ہزار روپے کا اعلان کیا گیا تھا۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ بہت سے خاندان اب تک اس قلیل امداد سے بھی محروم ہیں۔ حکومت اپنے وعدے پر عمل درآمد بھی کرے۔ دو ہزار دس کے سیلاب میں متاثرہ خاندان کے لیے 20ہزار روپے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بارہ سال کے وقفے مہنگائی کی بلند شرح کے باوجود صرف پانچ ہزار کے اضافے سے یہ امدد سوالیہ نشان ہے۔