اسلام آباد (نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب (ترمیمی)آرڈیننس 2022 کیخلاف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ عمران خان پر عوام نے اعتماد کرکے اپنا مینڈیٹ دیکر پارلیمنٹ میں بھیجا تھا،وہ حلقے کے عوام کی مرضی کے بغیر اسمبلی کیسے اور کیوں چھوڑکر آگئے ہیں؟ درخواست گزار (عمران خان) نیب قانون میں کی گئی ترامیم پر تمام سوالات پارلیمنٹ میں بھی اٹھا سکتے تھے ؟ اگر پارلیمنٹ اس قانون کو ختم کردے تو عدالت کیا کر سکے گی؟جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا، اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ احتساب اسلام کا بنیادی اصول ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا دباؤ ڈال کر ملزم سے پیسے لینا درست ہے؟ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا گرفتاری کے دوران پلی بارگین کرنے والا دباؤ ثابت بھی کر سکتا ہے۔ بعدازاں مقدمے کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سنگل بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو نیب کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ہم نے ایک نئی متفرق درخواست کے ذریعے اٹارنی جنرل کے دلائل کو اپنانے سے متعلق اپنا تحریری موقفعدالت کے متعلقہ شعبے میں جمع کروادیا ہے جبکہ درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث احمدنے اپنے گزشتہ روز کے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ قومی احتساب (ترمیمی)آرڈیننس 2022 کے اجراء کے بعد احتساب کے قانون کو غیر موثر کردیا گیا ہے ،انہوںنے کہا کہ عوامی عہدیداروں کے احتساب کا قانون 1949 سے آج تک موجود ہے،انکا کہنا تھا کہ احتساب کے جتنے بھی قوانین آئے ہیں عوامی عہدیداروں کو کسی میں بھی استثنیٰ نہیں ملاہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی یہ عدالت بدعنوانی کو ملک وقوم کیلئے ایک کینسر قرار دے چکی ہے۔