قرۃ العین خرم
”گوشی!کیسی ہو؟“گیارہ سالہ عدیلہ ٹوکری پکڑ کر گھر سے باہر نکلی تو اسی وقت گوشی بھی اپنے گھر سے نکلی۔ گوشی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھااور اس کے ساتھ چلنے لگی۔
دونوں سہیلیاں باتیں کرتی ہوئی قریبی باغ میں پہنچ گئیں۔ اس گاؤں کے لوگ مختلف اقسام کے پھول بڑی تعداد میں کاشت کرتے اور پھر قریبی شہروں میں انھیں اچھے داموں میں بیچ دیتے۔ اس لئے یہ بستی،پھولوں والی بستی کے نام سے مشہور تھی۔ یہاں رنگ بہ رنگے اور مختلف اقسام کے پھولوں کے باغات تھے۔
”تم دونوں اتنی دیر سے آئی ہو۔“باغ میں کام کرتی بی بی گل نے ایک نظرپر ڈالی۔ بی بی گل ان کے پڑوس میں رہتی تھیں۔وہ بستی کی بچیوں کو قرآن کی تعلیم بھی دیتی تھیں۔ میٹرک پاس تھیں،اس لئے بستی کے بچوں کو صبح کے وقت پڑھاتی بھی تھیں۔ دوپہر میں کام کرنے باغ میں آ جاتیں، یہ ان کا خاندانی پیشہ تھا۔
وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے پھول توڑ توڑ کر اپنی اپنی ٹوکری میں ڈال رہی تھیں۔ ”تمہیں پتا ہے رانی نے کل کیا کیا؟“گوشی نے اچانک دھیمی آواز میں کہا۔
”نہیں! وہ کل تمہارے کان میں کچھ کہہ رہی تھی ناں؟“عدیلہ نے پوچھا۔
”وہ اپنی سوتیلی ماں کے بارے میں بتا رہی تھی کہ بہت ظالم ہے۔“گوشی نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
”اچھا، مگر شکل سے تو بہت اچھی لگتی ہیں۔“ عدیلہ نے حیرت سے سوال کیا۔
”شکل کو رہنے دو،بہت تنگ کیا ہوا ہے رانی کو، اسے کھانے کو بھی نہیں دیتیں،سب کام رانی سے کرواتی ہیں‘‘۔ گوشی جلدی جلدی رانی سے سنی ساری باتیں عدیلہ کو بتانے لگی۔
شام کو جب وہ دونوں وہاں سے واپس آئیں تو عدیلہ نے گھر آ کر اپنی ماں کو گوشی سے سنی ہوئی ساری باتیں بتا دیں۔
”ہائے اللہ!رانی بے چاری پر اتنا ظلم ہو رہا ہے۔“عدیلہ کی ماں سن کر تڑپ اُٹھی۔اگلے دن عدیلہ کی ماں نے یہ بات اپنی پڑوسن کو بتائی،اس نے آ کو اور کسی کو بتائی اس طرح یہ باتیں بستی میں چاروں طرف پھیل گئیں۔ جب یہ باتیں رانی کے گھر پہنچیں تو اس کی سوتیلی ماں نے رانی کے ابا سے کہا،”میں نے کب اسے بھوکا رکھایا مارا ہے؟‘
”میں بات کرتا ہوں‘‘۔“رانی کے باپ نے پریشانی سے کہا۔
جب ابا نے رانی سے پوچھا تو رانی پریشان ہو گئی۔”ابا! میں نے تو ایسے ہی کہہ دیا تھا،میرا مطلب یہ تو نہیں تھا “رانی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
”تم نے جھوٹ کیوں بولا؟ اس سے ہمارے گھرانے کی پوری بستی میں بے عزتی ہوئی ہے۔“ابا نے گرجتے ہوئے کہا۔
”ابا!معاف کر دیں۔“رانی نے روتے ہوئے کہا۔
”آج سے تمہارا بی بی گل کے گھر پڑھنے جانا بند ،بس گھر میں رہو اور کام کرو۔“
ابا نے فیصلہ سنایا اور چلے گئے۔رانی رونے لگی۔ دراصل کچھ دن پہلے،رانی کی اپنی سوتیلی ماں سے کسی بات پر بحث ہو گئی،جس کا غصہ اس نے جھوٹی کہانی بنا کر نکالا تھا، مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی بنائی ہوئی جھوٹی کہانی،پوری بستی والوں کو معلوم ہو جائے گی،اسے گوشی پر سخت غصہ آ رہا تھا، جس نے راز کو راز نہیں رکھا تھا۔
کچھ دن تک جب رانی غیر حاضر رہی تو بی بی گل نے عدیلہ اور گوشی کو اس کی خیریت معلوم کرنے اس کے گھر بھیجا۔ رانی نے گوشی کو دیکھا تو اس پر بہت غصہ ہوئی کہ اس کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔
گوشی اور عدیلہ واپس آئیں اور بی بی گل کو ساری بات بتائی تو وہ سر پکڑ کر رہ گئیں۔”تم لڑکیاں میری دی گئی تعلیم و تربیت کا ایسے خیال رکھ رہی ہو؟ایک طرف رانی جھوٹی کہانیاں بنا کر دوسروں کو سنا رہی ہے اور دوسری طرف تم کسی کے راز کو راز نہیں رکھ سکیں۔“
”بی بی گل! مجھ سے غلطی ہو گئی۔“ گوشی نے روتے ہوئے کہا۔بی بی گل نے چپ کھڑی عدیلہ کی طرف دیکھا”اور عدیلہ تم نے بھی راز کو راز رکھنے کے بجائے گھر جا کر شور مچا دیا۔تم دونوں کی حماقت کی وجہ سے ساری بستی کا ماحول بوجھل ہو گیا ہے،سب رانی کی ماں کو بُرا کہہ رہے ہیں، جب کہ اس بیچاری کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔“ بی بی گل نے فکر مندی سے کہا۔ عدیلہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ اگلے دن بی بی گل ان دونوں کو لے کر رانی کے گھر گئیں۔ رانی کے ابا اور سوتیلی ماں کو بٹھا کر ساری بات سمجھائی۔
بستی میں بی بی گل کی بہت عزت تھی۔اس لئے سب ان کی بات غور سے سنتے تھے۔
”بچیاں نادان ہیں، ان سے غلطی ہو گئی ہے،معاف کر دیں۔“بی بی گل نے نرمی سے کہا تو رانی کی سوتیلی ماں نے اُٹھ کر اسے گلے لگا لیا۔سب کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔
بچو! اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک تو کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے دوسرا کوئی آپ کو کچھ بتائے تو اُسے راز ہی رکھیں دوسروں تک نہ پہنچائیں، ورنہ جھگڑے پیدا ہوسکتے ہیں۔