60ء کی دہائی میں پاکستان کی فلمی صنعت اپنے عروج کے سفر میں داخل ہوگئی تھی یہاں مختلف موضوعات پر فلمیں بن رہی تھیں۔61ء میں اوّلین ’’کائو بوائے‘‘ ویسٹرن ایکشن اُردو فلم’’بارہ بجے‘‘ نمائش پذیر ہوئی۔ یہ فلم اے بی فلمز کے بینر تلے بنی، جس کے پیش کار این اے راجپوت اور فلم ساز عثمان افغانی تھے۔ باقر رضوی کی بہ طور ہدایت کار یہ پہلی فلم تھی،انہوں نے اس فلم کا منظرنامہ میں تحریرکیا تھا، جب کہ کہانی و مکالمے ایم اے بیگ کے تھے۔ فلم کے موسیقار لعل محمد اقبال، نغمہ نگار یزدانی جالندھری، واحد چغتائی، شبی فاروقی، روپ بانی تھے۔
یہ فلم کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو اور لاہور کے شاہ نواز اسٹوڈیو میں فلمائی گئی۔ باقر رضوی نے اپنی اس فلم میں عوامی امنگوں کے مطابق کام کیا۔ پاکستانی سینما میں اُس دور میں انگریزی ’’کائو بوائے‘‘ ٹائپ کی فلموں کا بہت عُروج تھا، فلم بین اس طرح کی فلموں کے دیوانے تھے، اس بات کو محسوس کرتے ہوئے باقر رضوی نے بالکل اس طرح کی ایک فلم ’’بارہ بجے‘‘ کے عنوان سے بناکر شہرت حاصل کی۔ اس فلم پر انہوں نے بہت مہنگے سیٹ لگوائے، تاکہ فلم کا وہی تاثر قائم رہے، جو انگریزی فلموں میں شائقین پسند کرتے تھے۔
یہ وہ دور تھا، جب مسرت نذیر اور درپن کی جوڑی فلم ’’گلفام‘‘ سے مقبول ہوگئی تھی۔ رضوی صاحب ان ہی دونوں کو اپنی اس فلم میں کاسٹ کرنا چاہتے تھے، مگر ان دونوں کے پاس تاریخیں نہ تھیں ، جس کی بناء پر انہیں اداکارہ نیلو اور علائو الدین کو کاسٹ کرنا پڑا۔ نیلو اُس وقت ایک ابھرتی ہوئی ہیروئن تھیں، جس کی فلم ’’ناگن‘‘ کام یاب ہو چکی تھی۔ کراچی میں اس فلم نے اپنے مرکزی سینما قیصر میں 10ہفتے کام یابی سے مکمل کیے، جب کہ مجموعی طور پر اس فلم کو 21ہفتوں کا بزنس ملا۔
اس فلم کی کام یابی کے بعد باقر رضوی پر اس طرح کی فلموں کی چھاپ لگ گئی تھی۔ دوسری فلم ’’شیک ہینڈ‘‘ بھی اسی ٹائپ کی تھی۔ مرحوم نے پیار نہ کر نادان، سی آئی ڈی، دور کی آواز، نشانہ، ایجنٹ 009 اور انتقام ہم لیں گے، جیسی ناکام فلموں کی ڈائریکشن بھی دی۔، جب کہ ان کی ایک فلم ’’بلیک کیٹ‘‘ اپنے دور کی کام یاب پیش کش تھی، یہ فلم ’’لیڈی باس‘‘ کے نام سے بھی ریلیز کی گئی۔ فلم ساز و ہدایت کار جرار رضوی ان ہی باقر رضوی کے صاحب زادے ہیں۔
فلم ’’بارہ بجے‘‘ کے فوٹو گرافر ایم حسین اور آفتاب تھے، جنہوں نے اِن ڈور اور آئوٹ ڈور عکس بندی کو بہت ہی معیاری انداز میں سرانجام دی۔ تمام اداکاروں کے کلوزاَپ اور لونگ شارٹس بھی بہت اچھے تھے، خاص طور پر نیلو کو بہت ہی خُوب صورت انداز میں ایکسپوز کیا گیا۔ جو فلم کی ہائی لائٹ ثابت ہوا۔ تدوین کار حسنین رضوی نے اس ایکشن فلم کے ٹیمپو کو ایک خاص رفتار میں رکھا اور فلم بینوں کو بور نہ ہونے دیا۔
گانوں کی صدابندی کے فرائض ایس جیلانی اور اقبال شہزاد نے بہت اچھے انداز میں کی، جب کہ مکالموں کی واضح اور صاف صدابندی ایس جیلانی اور عثمانی کی مرہون منت تھی، فلم کے بلیک اینڈ وائٹ پروسیسنگ کے فرائض رحمن محمود اور شہزاد نے انجام دیے۔ انگریزی طرز کی اس فلم میں آرٹ ڈائریکٹر این ایم کٹپال اور مادیر کے ساتھ سیٹ ڈیزائنر فخروالدین نے قابل تعریف کام کیا۔ ویسٹرن ایکشن کائو بوائے قسم کی اس فلم میں اداکاروں کے میک اَپ کو بھی اسی انداز میں دکھانے کے لیے میک اَپ مین اختر علی شاہ نے بہت محنت کی اور ان کی اس محنت میں ہیئراسٹائل ڈولی، متین اور ذوالفقار کی بھی اعانت رہی۔ فلم کی ہیروئن نیلو اور اداکارہ رخشی کو جاذب نظر بنانے میں ان لوگوں نے بہترین میک اَپ کیا۔
فلم کی موسیقی میں لعل محمد اور اقبال کی جوڑی نے زیادہ تر کہانی کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مغربی سازوں کا استعمال بہت خُوب صورت انداز میں کیا۔ فلم میں کل9 عدد گانے تھے۔ اُن میں گلوکارہ نشی کماری کی آواز میں گایا ہوا یہ گانا ؎ ’’ہارگئی ہار گئی تجھ سے دل لگا کر‘‘ جسے یزدانی جالندھری نے لکھا تھا اور اداکارہ نیلو پر فلم بند ہوا تھا۔ اس فلم کا سب سے مقبول ترین گیت ثابت ہوا۔ اس مشہور گانے کو نہ صرف پاکستان میں مقبولیت ملی، بلکہ سرحد پار بھارت میں بے حد پسند کیا گیا۔
اس سدا بہار گیت کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ فلم کا ایک اور نغمہ جو اداکار دلجیت مرزا اور اداکارہ مینا پر فلم بند ہوا، وہ بھی اپنے دور میں بہت مقبول ہوا، جس کے بول یہ تھے ’’کیا ہنستی ہے تو کھڑی کھڑی میرے دل کو مت سمجھ جھونپڑی‘‘ اس نغمے کو گلوکار احمد رشدی نے اپنی آوازوں میں ریکارڈ کروایا تھا۔
فلم کی مختصرکہانی کا خلاصہ کچھ یُوں تھا، ایک کلب کا منظر فلم کے ٹائٹل کے بعد دکھایا جاتا ہے، جس میں ڈیوڈ (سکندر) اپنے ساتھیوں کے ساتھ شراب پی رہا ہوتا ہے، ایک شخص ڈیوڈ سے آکر کہتا ہے کہ شیرا (علائو الدین) آیا ہے۔ ڈیوڈ، شیرا سے کہتا ہے کہ روبی (نیلو) کی منگنی شنیئل (جسونت) سے ہوگئی ہے۔ یہ سن کر شیرا، روبی کے پاس جاتا ہے ۔ وہ روبی سے منگنی کے بارے میں پوچھتا ہے۔ روبی اسے یقین دلاتی ہے کہ وہ شنیئل کو صرف اپنا بھائی سمجھتی ہے، ان دونوں کو ملتے ہوئے شنیئل دیکھ لیتا ہے۔ شیٹل، روبی کے باپ مارشل (آغا طالش) کو بلاکر لاتا ہے۔
شیرا، مارشل سے روبی کا رشتہ مانگتا ہے ، وہ انکار کردیتا ہے، یہ سن کر شیرا روبی کو اغوا کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ شیٹل، شیرا پر فائرنگ کرتا ہے۔ شیرا بھی جواباً فائر کرتا ہے اور روبی کو گھوڑے پر بٹھا کر فرار ہو جاتا ہے۔ شیٹل اور اس کے آدمی اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ ایک جگہ پر خوب فائرنگ ہوتی ہے، بالآخر شیرا کو وہ لوگ قابو کر لیتے ہیں اور پکڑ کر مارشل کے پاس لاتے ہیں۔ مارشل اسے اپنے قبیلے کے مطابق پھانسی کی سزا سُناتا ہے۔ روبی، شیرا کو فرار کروانے کے لیے مردانہ لباس میں آتی ہے، اپنے والد کے نام ایک خط لکھ کر وہ شیرے کو لے کر فرار ہو جاتی ہے۔
رستم ڈاکو (ساقی) قصبے میں شیرے کے نام سے لُوٹ مار کرتا ہے۔ کلب میں لڑکیوں کا نیلام ہو رہا ہوتا ہے۔ سونو (دلجیت مرزا) وہاں آتا ہے، اُس کے ساتھ کلب کی ڈانسر ڈارلنگ (رومی) بھی ہوتی ہے۔ مارشل، شیرے کو مفرور ڈاکو اشتہاری قرار دیتا ہے اور اس کی گرفتاری پر 50ہزار انعام رکھتا ہے ۔ روبی اور شیرا جنگل میں پناہ لیتے ہیں۔ شیرے کا دوست سونو آتا ہے، وہ ان دونوں کو گھرلے آتا ہے اور وہ اشتہار دکھاتا ہے، جو مارشل نے جاری کیا تھا۔ شیرا، رستم کی ساری چال سمجھ جاتا ہے اور وہ اس کی تلاش میں نکلتا ہے۔ رستم اور اس کے ساتھ ایک مسافر ٹرین پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
وہاں شیرا آجاتا ہے اور ان کا مقابلہ کرتا ہے۔ رستم کا ایک ساتھی شیرے پر فائر کرنے لگتا ہے، رستم اُسے روکتا ہے، یہ زندہ رہے گا، تو ہمارا کام چلے گا، یہ مر گیا تو ہم مر جائیں گے۔ قصبے کا زمیندار (بٹ کاشر) اپنی الٹرا موڈرن بیوی (رخشی) کےساتھ اپنی شاہی بگھی میں سیرکو روانہ ہوتا ہے۔ رستم اور اس کے ساتھی اس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ شیرا آکر ان کا مقابلہ کرتا ہے۔ اور وہ بھاگ جاتے ہیں۔ شیرا جب زمیندار کو اپنا تعارف کرواتا ہے، تو وہ اُسے شیرا ڈاکو سمجھتا ہے۔ شیرا اس کی غلط فہمی دُور کرتا ہے۔
رخشی، شیرا کی بہادری سے متاثر ہو کر اُسے اپنی حویلی آنے کی دعوت دیتی ہے اور جب شیرا حویلی پہنچتا ہے، تو رخشی اُسے اپنی خواب گاہ میں لاتی ہے اور اسیر عاشق ہو کر ڈانس کرتے ہوئے گاتی ہے ’’میرے صنم بہکے قدم‘‘ شیرا وہاں سے سونو کے گھر آکر زمیندار کی دعوت کا بتاتا ہے، زمیندار کی حویلی میں شان دار دعوت ہوتی ہے ، جہاں سونو اور اُس کی محبوبہ مینا ایک گانا گاتے ہیں ’’ کیا ہنستی ہے تو کھڑی کھڑی میرے دل کو سمجھ مت جھونپڑی، اس دل نے بنایا تیرے لیے بنگلہ پورا آٹھ لاکھ کا‘‘ رستم جہاں حملہ کرتا ہے۔ شیرا اور سونو ان کو بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ شیٹل یہاں شیرے کو گرفتار کرنے آتا ہے۔ اسے گولی لگتی ہے، اس سین پر فلم کا انٹرویل ہوتا ہے۔ انٹرویل کے بعد مارشل شیرے کو گرفتار کرنے کی تیاری کرتا ہے۔
علائوالدین کہتا ہے کہ بیگم میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ جاسوسی ناولز مت پڑھا کرو، دیور (جسونت)، والد (طالش) جیٹھ (ساقی) اور بھتیجا (دلجیت مرزا) یہ سب میں جمیلہ کے کمرے میں آجاتے ہیں۔ ’’بارہ بجے‘‘ کی پوری کہانی، رات بارہ بجے جب جمیلہ ناول پڑھتے ہوئے سو جاتی ہے، تو خواب میں پردئہ سیمیں پر چلتی ہے۔اس ویسٹرن فلم کی زیادہ تر آئوٹ ڈور شوٹنگ سوات کے میدانی اور پُرکش مقامات پر ہوئی ، جہاں فلم کا پُورا یونٹ کئی روز تک قیام پذیر رہا اور باقر رضوی کے دوست نے پورے یونٹ کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی، یہاں تک کہ اپنے ذاتی اسلحے خانے سے فلم کے لیے اصلی گنیں تک مہیا کیں، جو فلم کے گن فائٹ میں استعمال ہوئیں!!
فائرنگ کی اصل آوازوں کے ساؤنڈ الفیکٹ بالکل انگریزی فلموں کی طرح سے تھے، یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں کو اس پاکستانی اردو فلم میں انگریزی ویسٹرن فلم کا مزا آیا اور جو فلم کی کام یابی کا باعث بنا۔ فلم کی مکمل کاسٹ میں نیلو، علائو الدین، جسونت، رخشی، روحی، ساقی، دلجیت مرزا، گرج بابو، نینا، بٹ کاشر، سکندر، خاقان، نواب، غلام ، عشرت نگاہ ، کامران اور آغا طالش کے نام شامل تھے۔ یہ فلم جمعہ 29دسمبر1961ء قیصر سینما کراچی اور ریوالی سینما لاہور میں ریلیز ہوئی۔