برِصغیر کے نامور شاعر قمر جمیل نے اپنے ایک شعر میں بہت خوب صورت بات کہی ہے کہ’’خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، اس کا دکھانا مشکل ہے‘‘ لیکن نئی نسل کے سب سے مختلف اور الگ فلم ڈائریکٹر بلال لاشاری نے اسے آسان کر دکھایا۔ انہوں نے کم عرصے میں وہ کارنامے انجام دیے کہ سب دیکھتے رہ گئے۔ بلال لاشاری نے اپنی فنی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیےبیرون سے فلم میکنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر لالی وڈ کی فلموں کو نیا رنگ دیا۔
وہ جو بھی فلم بناتے ہیں، دنیا بھر میں اس کے چرچے ہونے لگتے ہیں۔ ان کا تخلیقی سفر برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انہیں اب اس سفر میں شہرت کی بلندیوں کو چُھونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کا ہنر کو بلال لاشاری سے سیکھے۔ ان کے ذہن میں جب کوئی فلم کا منفرد آئیڈیا آتا ہے، تو وہ اسے عملی شکل دینے کے لیے میدان میں اتر جاتے ہیں۔ انہوں نے شوبزنس کی رنگین دُنیا میں اپنے کیریئر کی ابتدا معروف گلوکاروں کی گانوں کی شاندار وڈیوز بنا کر کی، لیکن ان منزل عالمی سطح کی فلموں کے ڈائریکٹر بننا تھا۔ وہ فلموں کی ڈائریکشن پُوری لگن اور جنون سے کرتے ہیں۔ اس سفر میں ان کو جلد ہی غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔
سب سے پہلے انہوں نے اس سلسلے میں شعیب منصور جیسے منجھے ہوئے فلم ڈائریکٹر سے رہنمائی حاصل کی اور پھر جیو کی سپر فلم ’’خدا کے لیے‘‘ میں بہ طور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کیا، بعد ازاں جلد ہی ایک ایسی فلم بنادی، جس نے دُنیا بھر میں تاریخ رقم کردی اور باکس آفس پر خُوب بزنس کیا۔اس فلم کا نام’’وار‘‘ تھا۔ اس فلم کی شان دار کام یابی نے بلال لاشاری کو صفِ اول کا فلم ڈائریکٹر بنادیا تھا۔ ہر طرف اُن کی فلم ڈائریکشن کے چرچے ہونے لگے۔اسی دوران ان کے ذہن میں ایک اور بڑی فلم بنانے کا خیال آیا۔ بلال لاشاری کو فلم انڈسٹری میں بڑے کارنامے انجام دینے کی عادت سی ہوگئی ہے۔
اس لیے پاکستان فلم انڈسٹری کی سب سے مہنگی اور بڑی فلم بنانے کا فیصلہ کیا،لیکن اس بارے میں سوچا بھی نہیں کہ اتنی بڑی فلم کے لیے سرمایہ کاری کون کرے گا۔ان کو اپنے کام پر کمال حاصل تھا اور خوش قسمتی سے انہیں عمارہ حکمت کے روپ میں پروڈیوسرمل گئیں۔ اس طرح بلال لاشاری نے لالی وڈ کی سب سے منفرد اور دِل چُھولینے والی فلم ’’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘‘ بنانےکا سپنا حقیقت میں بدل دیا۔ فلم ’’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘‘ کئی برس سے مشکلات کا سامنے کرتے ہوئے مکمل ہوئی اوراب13 اکتوبر 2022 کو جیو فلمز اور لاشاری فلمز کے اشتراک سے سنیما گھروں کی زینت بن رہی ہے۔
ایک جانب ان کی فلم کو لالی وڈ کی ’’ٹائی ٹینک‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، تو دوسری جانب بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’’ شعلے‘‘ سے ملایا جارہا ہے۔ گزشتہ دِنوں نئی نسل کے نامور ہدایت کار بلال لاشاری فلم کے پروموشن کے لیے لاہور سے کراچی آئے، تو ہم نے ان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ان سے فلم ’’دی لیجنڈ آف مولاجٹ‘‘ کی کہانی، فن کاروں اور کہانی کے بارے میں دل چسپ گفتگو کی۔
’’مولا جٹ‘‘ بنانے کا خیال کیسےذہن میں آیا؟
بِلال لاشاری نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میری فلم ’’وار‘‘کی زبردست کام یابی کے بعد میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ میں اب اس سے بھی زیادہ بڑا کام کرکے دکھائوں گا۔ ’’وار‘‘ سے اور زیادہ مشکل کوئی پروجیکٹ کروں گا، کیوں کہ ’’وار‘‘ کے لیے کہا گیا تھا کہ یہ پاکستان کی ماضی کی روایتی فلموں سے بالکل الگ اور مختلف تھی۔ اس موقع پر فلم بینوں نے کہا کہ شکر ہے کہ ہم’’ گنڈاسا کلچر‘‘سے تو نِکلے۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ میں گنڈاسا کلچرکے حوالے سے ایک پنجابی فلم بنائوں گا، جس کے بعد ہم واپسی گنڈاسا فلموں کی جانب آجائیں گے۔
میں نئے انداز سے گنڈاسا فلموں کو دیکھ رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ وہ دور تو بہت کام یاب تھا، جب ’’وحشی جٹ‘‘ اور ’’مولا جٹ‘‘ فلمیں سینما گھروں کی زینت بنی تھیں۔ پھر میں نے ریسرچ کی تو یہ بات سامنے آئی کہ پہلی ‘‘ فلم سے آخری فلم بننے تک ان میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آیا۔ سب ایک جیسی لگ رہی تھیں۔ آج کی نسل کو پنجابی گنڈا سا کلچر فلمیں مزاحیہ لگتی ہیں۔ شروع میں ہم نے ایک گنڈاسا والی پنجابی فلم بنانے کا سوچا تھا، بعد ازاں ہم نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ’’مولاجٹ‘‘ کو ذہن میں رکھ کر ایک نئے انداز کی فلم بنائیں۔
پھر سوچا ، مولاجٹ تو بہت بڑی فلم تھی!! ’’مولاجٹ‘‘ فلم انڈسٹری میں بڑی علامت بن گئی تھی۔ اس کے کردار بھی مقبولیت کے ساتھ ہی آسمان کو چُھونے لگے تھے۔’’ہم نے جو نئی مولاجٹ بنائی، تو پُرانی والی مولاجٹ کا ری میک نہیں بنایا۔ صرف اس کے کرداروں کو ٹریبوٹ دیا۔ اس کے کرداروں کو نیا رنگ دیا،کہانی اور ڈائیلاگز اپنے انداز سےاستعمال کیے، جو پُرانی مولاجٹ کے مداح ہیں۔ وہ بھی ہماری نئی مولاجٹ کو دیکھیں گے، تو انجوائے کریں گے۔‘‘
اس کی کہانی ناصر ادیب کے ساتھ مل کر کس طرح لکھی؟ اس سوال کے جواب میں بلال لاشاری نے کہا کہ’’ شروع میں اس کا اسکرپٹ میں نے انگلش میں لکھا تھا۔ اس میں کافی وقت لگ گیا تھا، جس طرح ہالی وڈ فلموں کا اسٹرکچر ہوتا ہے، میں اس اندازکی فلم بنانا چاہتا تھا۔ مجھے بالی وڈ کی طرح آئٹم سونگ فلم بنانا پسند نہیں ہے۔، جب کہ ہم نے ہمیشہ بالی وڈ فلموں کو نقل کیا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ میں نے فلم میکنگ بیرون ملک سے پڑھی ہے۔ اس لیے مغربی انداز میں فلم بنانا سیکھا۔ ’’مولاجٹ‘‘ کے بارے میں سکون سے سوچا، تو پھر فیصلہ کیا کہ اسے پنجابی زبان ہی میں بنائیں گے۔ بعدازاں ناصرادیب اور میں اکٹھے بیٹھ گئے۔
اس پر کافی عرصے کام کیا۔ ناصر ادیب نے نئی مولاجٹ کے مکالمے بہت دل چسپ لکھے ہیں۔ شروع میں سوچا تھا کہ فلم میں زیادہ مکالمے نہیں رکھیں گے، کیوں کہ میرے ذہن میں پُرانی مولاجٹ تھی، جس کے ڈائیلاگز بہت مقبول ہوئے تھے۔ فلم کی غیر معمولی کام یابی میں اس کے مکالموں نے نمایاں کردار اداکیا۔ پھر ہم نے بھی نئی فلم میں زیادہ مکالمے شامل کیے۔
ناصر ادیب کے لیے بھی پُرانے مکالمے نئے انداز سے لکھنا کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ وہ کافی دبائو میں بھی تھے، کیوں کہ پُرانی مولاجٹ کے ڈائیلاگز وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ مقبول ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے جس طرح کے مکالمے ہمیں لکھ کر دیے، ہم سب کے دل خوش ہوگئے، اُمید ہے یہ مکالمے فلم شائقین کے بھی دِل جیت لیں گے۔ ہم نے فلم میں آسان پنجابی استعمال کی ہے اُردو بولنے والے بھی اسے آسانی سے سمجھ لیں گے۔‘‘
فلم کی ریلیز میں اتنا وقت کیوں لگا؟
جواب میں انہوں نے کہا کہ’’ اس فلم کو شروع کرنے میں تھوڑا زیادہ وقت لگ گیاتھا، جب فلم کی شوٹنگ مکمل ہوئی، تو کورونا نے تباہ کاریاں شروع کردیں۔ اس طرح فلم کی ریلیز میں مشکلات آتی چلی گئیں۔ ایسا دنیا بھر میں ہو جاتا ہے۔ فلم اوور بجٹ بھی ہو جاتی ہے ۔ مجھے عمارہ حکمت اور اسد خان جیسے پروڈیوسر مل گئے، تو انہوں نے پروجیکٹ کو دل و جان سے سپورٹ کیا۔ ڈائریکٹراور پروڈیوسر کا تعلق ایک اچھی فلم بنانے کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر اور پروڈیوسر، فلم کو ایک ویژن سامنے رکھ کر بنائے، تو شاہ کار فلم بن جاتی ہے۔ پروڈیوسر نے کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔ مجھ پر کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں آیا۔ میں خوش قسمت تھا کہ مجھے ٹیم اچھی مل گئی تھی۔ پروڈیوسر نے اپنی پہلی ہی فلم پراتنا کثیرسرمایہ لگایا اور مجھ پر بھروسا کیا۔ مجھے اُمید ہے کہ ان کی انویسٹمنٹ فائدے کے ساتھ واپس ہوگی۔ ابتداء میں لوگوں نے ہمارے بارے میں کہا کہ اتنے بڑے بجٹ کی فلم کیسے بنائیں گے۔ کچھ نے کہاکہ یہ تو نہ ممکن ہے!! چار دہائیوں پُرانی فلم نئے انداز سے کیسے بنے گی۔ اب تو زمانہ بالکل بدل گیا ہے، جو کردار سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی نے ادا کر دیے، اب آج کے بچے کس طر ح کریں گے۔
ہمیں ہر قسم کی باتیں سُننے کو ملیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ باتیں کرنے والے جب ہماری نئی مولاجٹ دیکھیں گے، تو خوش گوار حیرت میں مبتلا ہو جائیں گے۔ ان کو مزا آجائے گا، وہ فخر کریں گے کہ پاکستان میں ایسی مثالی فلم بنی ہے۔ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ فلم کی کہانی مولاجٹ اور نوری نت کے کرداروں کے گردگھومتی ہے۔ فلم کے مرکزی کردار کے لیے میں کسی ایک فن کار کے بارے میں نہیں سوچتا تھا، میں دونوں مرکزی کرداروں کو ایک ساتھ لے کر سوچتا تھا۔ یہ جوڑی بہت ضروری تھی، جس طرح فلم میں ہیرو اور ہیروئن کی جوڑی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ان کی آپس میں کیمسٹری کو دیکھا جاتا ہے۔ پُرانی مولاجٹ کو دیکھیں گے، تو دونوں مرکزی کردار مولا اور نوری کی کیمسٹری بہت شان دار تھی اور ان کی ڈائیلاگز ڈلیوری لاجواب تھی۔ ان خوبیوں نے پُرانی مولاجٹ فلم کو غیر معمولی بنایا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ کون سی فن کار جوڑی کو کاسٹ کیا جائے۔ ایکٹر تو بہت تھے، لیکن مجھے جوڑی کی شکل میں فواد خان، حمزہ علی عباسی سے بہتر کوئی نہیں لگا، جس طرح اپنے دور میں سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی باکمال فن کار تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ آج کے دور کے حساب سے یہ فواد اور حمزہ دُھوم مچادیں گے، خوش گوار حیرت کی بات ہے کہ جب میں نے ان کو فلم کے لیے کاسٹ کیا تھا، تو یہ اتنے مقبول نہیں تھے۔ ہماری فلم کی ریلیز تاخیر کے دوران یہ سپراسٹار بن گئے۔ اس سے ہماری فلم کو بہت فائدہ پہنچے گا۔‘‘
ہم نے سُنا ہے کہ فلم میں گیت شامل نہیں کیے گئے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟
بلال لاشاری نے بتایا کہ’’ سب کو حیرت ہوگی کہ اس فلم میں روایتی فلموں کی طرح کوئی گیت شامل نہیں کیا گیا، ایک پورشن میں تھوڑا سا گیت کا رنگ ملے گا، جس طرح انگلش فلموں میں گانے نہیں ہوتے، اسی طرح ہماری نئی فلم ’’مولا جٹ‘‘ کا اسٹائل بھی تھوڑا مختلف ہے، میں نے اس لیے گانے شامل نہیں کیے، کیوں کہ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ گانوں سے فلم کی ردھم مثاثر ہوگی، اس کا بیک گرائونڈ میوزک (اسکور) پر بہت محنت کی گئی ہے، خصوصی کام ہوا ہے، ایک الگ میوزک کا امپیکٹ شامل کیا ہے، دیسی ٹچ بھی رکھا ہے، گانے تو نہیں سُننے کو ملیں نہیں گے، لیکن زبرست ایکشن اور دبنگ موسیقی سننے کو ملے گی، سب کچھ ماضی کی فلموں سے الگ ملے گا۔‘‘