پاکستان تحریک انصاف اس وقت اپنے فیصلہ کن لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہے ،اس سے قبل 25مئی کو بھی تحریک انصا ف کی جانب سے ایک لانگ مارچ کیا گیا تھا جو اگرچہ اسلام آباد تو پہنچ گیا تھا مگر اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہا اور سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ پنجاب کے قافلے اسلام آباد نہ پہنچ سکے، خود تحریک انصاف نے بعد میں تسلیم کیا کہ لانگ مارچ کیلئے جس طرح کی تیاریوں کی ضرورت تھی اس طرح کی تیاریاں نہیں کی گئی تھیں، گویا دوسرے الفاظ میں تحریک انصاف نے خود بھی اپنے25مئی کے لانگ مارچ کو ناکام تسلیم کرلیا تھا۔
اس دوران پی ٹی آئی کی یہی کوشش رہی کہ حکومت پر مسلسل دباؤ رکھتے ہوئے نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کروایا جائے اس مقصد کیلئے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ملک گیر جلسوں کا سلسلہ جاری رکھا اس دوران پی ٹی آئی کو جو بڑی کامیابی حاصل ہوئی وہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں 15نشستوں پر فتح اور بعدازاں پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کا خاتمہ تھا، اس کے بعد جب استعفوں کے معاملہ پر عدالت نے تحریک انصاف کی رٹ مسترد کرتے ہوئے سپیکر کے دائرہ کار کو چیلنج کرنے سے انکار کردیا تو پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کا فیصلہ کرلیا اور اس کیلئے بھر پور تیاریوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، گزشتہ لانگ مارچ کے دوران خیبر پختونخوا سے کارکنوں کی ایک بڑ ی تعداد تو اسلام آباد پہنچ گئی تھی لیکن پی ٹی آئی کے بہت سے صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے تھے بلکہ بعض نے تو اپنے قائد کو دھوکہ دینے کیلئے صرف اپنی شکل دکھا کر پھر خیبر پختونخوا ہاؤس کا رخ کرلیا تھا۔
ایسے ممبران اور صوبائی وزرا کی فہرستیں بھی بنیں اور ان کی خوب کلاس بھی لی گئی تاہم اس مرتبہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کسی کے زبانی کلامی دعوؤں پر اعتماد کرتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب وہ خود ہی کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے میدان میں نکلے ہوئے ہیں چنانچہ گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ ہاؤس پشاور میں جو خصوصی تقریب ہوئی اس کی سب اہم بات یہ رہی کہ وہاں موجود پارٹی کے منتخب ارکان اور کارکنوں سے باقاعدہ حلف لیا گیا جس پر اگرچہ بہت سے حلقوں کی جانب سے تنقید بھی ہورہی ہے اور اس کو فسطائیت سے تعبیر کیا جارہا ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ عمران خان اپنے صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی سے اچھے خاصے بدظن ہوچکے ہیں اس لئے نوبت حلف تک پہنچ گئی ہے یہی نہیں بلکہ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ پارٹی کے ہر منتخب رکن اسمبلی کو کم سے کم 3ہزار کارکن لانے کا پابند بنایا ہے جس کیلئے ان سے پہلے سے ہی ان کارکنوں کی فہرستیں طلب کی گئی ہیں جو ان کے ساتھ اسلام آباد لانگ مارچ میں شریک ہوں گے۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خیبر پختونخوا سے تین لاکھ کارکنوں کو لے جانے کا ہدف رکھا گیا ہے ظاہر پاکستان تحریک انصاف گزشتہ 9سال سے صوبہ میں برسر اقتدار ہے اس لئے اس کی امیدوں کا مرکز بھی خیبر پختونخوا ہی ہے چونکہ لاہور اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں کی نسبت خیبر پختونخوا کے بڑے شہر اسلام آباد سے قریب تر ہیں اس لئےزیادہ توجہ خیبر پختونخوا پر مرکوز کی گئی ہے، پارٹی کے قائد بار بار یہی دوہراتے چلے آرہے ہیں کہ یہ ہمارا آخری اور فیصلہ کن مارچ ہوگا اور اس کے بعد کسی اور مارچ کی نوبت نہیں آئے گی۔
اس مرتبہ پی ٹی آئی کو یہ سہولت حاصل ہے کہ پنجاب میں اس کی اپنی حکومت ہے اس لئے پنجاب بھر کے قافلوں کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں ہوگا ،وفاقی حکومت نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی صورت لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل نہیں ہونے دیا جائیگا اس سلسلے میں سندھ پولیس، اسلام آباد پولیس ، ایف سی اور رینجرز کے دستے منگوائے جارہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے تو ایک مرتبہ پھر دھمکی دی ہے کہ اس مرتبہ ڈرون سے شیل مارے جائیں گے تاہم اصل سوال یہ ہے کہ اگر لانگ مارچ کے شرکا کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روک بھی دیا گیا اور اس کے بعد پنجاب اور خیبر پختونخوا سے آنے والے قافلے اسلام آباد کا گھیراؤ کرکے بیٹھ گئے تو وفاقی حکومت کیا کرے گی؟
ظاہر ہے کہ اگر چند روز کیلئے بھی اسلام آباد کا محاصرہ کرلیا جاتا ہے تو نہ صرف عالمی سطح پر وفاقی حکومت کی ساکھ پر سوال اٹھیں گے بلکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متذلذل ہو جائیگا جس سے ملکی معیشت کی بنیادیں مزید کمزور ہونے کا خدشہ ہے چنانچہ کوشش یہی ہونی چاہیے کہ لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آئے فریقین کو مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے ہوں گے بصورت دیگر سیاستدانوں کے ہاتھوں سے کھیل نکل بھی سکتا ہے،لانگ مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں عمران خان گزشتہ ہفتے پشاور کے تاریخی درسگاہ ایڈورڈ کالج میں طلبا کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرچکے ہیں۔
تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ اس خطاب کی دعوت کالج کی انتظامیہ کی جانب سے دی گئی تھی، ایڈورڈ کالج میں اپنے خطاب میں عمران خان نے حسب معمول اپنے سیاسی مخالفین کےخلاف ایک مرتبہ پھر انتہائی نا زیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے مخالف سیاسی جماعتوں میں کافی اشتعال پھیل گیا تھا اور ان کی طرف سے بھی ایڈورڈ کالج میں اجتماع کے انعقاد کا اعلان سامنے آیا تھا جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے تو تاریخ بھی طے کرلی گئی تھی تاہم کالج انتظامیہ نے کسی قسم کی بد مزگی سے بچنے کیلئے کالج اساتدہ کے ایک جرگہ کے ذریعے ایمل ولی خان کو اپنا پروگرام منسوخ کرنے پر آمادہ کیا۔
اسی صورت حال پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اشارہ کرتے ہوئے ایک کیس میں ریمارکس کے ذریعے واضح کیا کہ سیاسی جماعتوں کو تعلیمی اداروں میں سیاسی اجتماعات کے انعقاد سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ وہاں طلبا کے ذہنوں کو سیاسی کشیدگی کی آلودگی سے پاک رکھنا ضروری ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی معاملات یا تو پارلیمنٹ میں طے کرنے چاہیے یا پھر ان کیلئے جلسوںکا میدان موجود ہے اس مقصد کیلئے اگر تعلیمی اداروں کا رخ کرنے کی روایت مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تو یقیناً تعلیمی اداروں اور وہاں پڑھنے والے طلبا کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
تحریک انصاف نے ایک اور بڑا یوٹرن لیتے ہوئے اپنے استعفوں کی منظوری کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا جس سے اس تاثر کوبھی تقویت ملنے لگی ہے کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپسی کیلئے پر تول رہی ہے، خود عدالت عظمیٰ مختلف کیسوں کے دوران ریمارکس کے ذریعے تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں واپسی کا مشورہ دیتی رہی ہے، کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ عمران خان کو استعفوں کے غلط فیصلے کا احساس ہونے لگا ہے اور اب وہ واپسی کیلئے باعزت راستے کی تلاش میں ہے اور اس کیلئے عدلیہ سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ ممکن نہیں ،یہ بھی طے ہے کہ اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس جاتی ہے تو موجودہ وفاقی حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ پی ٹی آئی کے جن باغی ارکان کی کھلی حمایت حکومت کو حاصل ہے وہ ختم ہوجائے گی ۔