• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم ہر سال سائنس سے لے کر ادب سے تعلق رکھنے والی نئی اختراعات، معلومات اور اسالیب پر انعام کیوں نہیں دیتے؟ اگر دنیا نیوٹن اور آئن اسٹائن کے نظریات کے ساتھ رُک گئی ہوتی تو نئی تاویلات کی ضرورت نہیں تھی۔ انڈیا میں یہ مانا گیا ہے کہ مہاتما گاندھی نے آزادی لے کر دی اور کہا کہ ملک میں بننے والا کھدر پہنو۔ قائداعظم نے بھی مسلمانوں کو آزادی لے کر دی۔ سال بھر زندہ رہے اور اسی دوران معاشی، سیاسی اور تمدنی موضوعات کوجتنا زیر بحث لاسکتے تھے، لائے اور پھر آخر منزل تک پہنچانے والوں نے ایسی گاڑی بھیجی جس کا پیٹرول آدھے رستے میں ہی ختم ہوگیا۔ بھٹو صاحب نے بھی روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ دیا اور قوم نے لبیک کہا مگر بڑے اداروں اور چھوٹے اسکولوں تک کو قومیانے کے باعث، ایک طرف زمینداروں اور وڈیروں نے اور خود بھٹو صاحب نے ملک کی معیشت کو وسعت دینے کیلئےکوئی قابل ذکر منصوبہ نہ بنایا۔ اس پر طرہ یہ کہ الیکشن میں ان کی پارٹی کے امیدواروں نے اور خود انہوں نے بھی اپنے مقابل لاڑکانہ کے امیدوار کو جیسے مطعون کیا، اس نے ملک میں اس طرح عدالتی سے لے کر معاشی اور سیاسی خلفشار پیدا کیا کہ آج تک کوئی بھی من موہن سنگھ جیسا معاشی ماہر سامنے نہ آیا، یوں ڈاکٹر مبشر سے لے کر ڈاکٹر محبوب الحق کا لفظی جادو چلا نہیں۔ اس وقت تک ہر حکومت کے معاشی افلاطون قیمتوں کے مقامی مدوجزر سے ہی نہیں نکلتے، وہ بین الاقوامی سطح پر کسی لائحہ عمل کو سامنے لانے میں کامیاب اس لئے بھی نہیں ہوسکے کہ ہم نے آزاد کشمیر کو بھی کوئی صنعتی منصوبہ نہیں دیا بس کشمیریوں اور مسلمانوں پر انڈیا کےجبر اور ظلم پر دبی دبی آواز نکالتے رہتے ہیں۔ اب سب دیکھ رہے ہیں کہ روس نے یوکرین کے چار صوبوں کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ عملدرآمدبھی شروع کردیا ہے۔ مشرقی تیمور، انڈونیشیا سے آئر لینڈ، برطانیہ سے کیسے الگ ہوا ؟تاریخ کے صفحات میں پاکستان بھی شامل ہے جس کی سیاسی بربادی، مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان سے الگ ملک بنانے پر یہ بھی کہتی نظر آئی تھی، ’’اچھا ہوا الگ ہوگئے، ہم پربوجھ تھے‘‘۔میں ان سیاسی المیوں کو کیوں لے بیٹھی۔ اپنا کالا منہ دیکھ کر، دل بھر آیا۔ آخر ہم کب تک شعبدہ بازی، دھرنوں اور ہر ذمہ داری کو عدالت پر ڈال کر، سیلاب میں پھنسے لگ بھگ 4کروڑ لوگوں کو تنبوئوں میں رکھ کر اور ملکوں ملکوں معاشی فنڈز مانگ کر، اپنی زمین جو سونا اُگلتی تھی اس کی روئیدگی کو زندہ کرنے کی تحریک کے بجائے کوئی حقیقی جمہوریت کی بات کریں گے؟ غیر ممالک میں بھی اپنی خواتین کی عزت نہ کرکے، بڑے جی دار بنتے رہیں گے۔دنیا کے نقشے اور میڈیا پر بلاول کی انگریزی اچھی لگتی ہے مگر دیکھیں آخر آپ کی سفارتی کامیابیاں کیاہیں؟ وہ جو کمرشل سیکرٹری تعینات ہوتے ہیں وہ اپنا گھر بھرتے ہیں یا ملک کے لئے بھی کچھ کرتے ہیں۔ اس وقت بھی سرکار میں ایسے افسر ہیں جو اپنی غیر ملکی شہریت پکی کئے ہوئے ہیں۔انہیں کیا اگر دادو میں اب بھی پانی کھڑا ہے۔ ہم چین سے ہی کچھ سیکھ لیں۔ اس قدرتی آفت کے بعد قحط سالی کا سامنا کیسے کریں گے ؟ عید میلاد النبی ؐپر چراغاں کرنے والو!اپنی کچھ بچت کو سیلاب زدہ لوگوں پربھی خرچ کرو۔ تبھی رسول کریمؐ ہمارے گناہوں کو بخشنے کی اللّٰہ سےسفارش کریں گے۔ ہم نے تو چھ ماہ میں ڈالر کو بینکوں کی ملی بھگت سے یورو اور پائونڈ سے بھی آگے نکال دیا تھا۔ کس کس کو روئیں۔

عدالتیں 1952ء سے آئین میں موجود شقوں کو چھوڑ کر ذرا سنجیدگی سے قراردادِ مقاصد اور ضیاء الحق کے زمانے کی آٹھویں ترمیم کو ختم کرکے ہمارے مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے کی سند دینا بند کردیں۔ بارہ ربیع الاول کوبین الاقوامی کانفرنس میں عالمی علما بھی تشریف لائے۔ کیا کسی نے ایران اور افغانستان میں عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف دو حرف بھی کہے۔ کیا کسی نے یمن میں ہر دوسرے دن بم گرانے اور فلسطین میں یہودیوں کے مظالم پر آواز اٹھائی۔مسلمان ملکوں میں عورتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور انڈیا میں ہندو توا کا مسلمانوں اور کشمیر یوں پر ظلم کسی کو نظر نہیں آتا ۔ ہمارے ملک میں تو نواز شریف اور عمران ملاکھڑا چل رہا ہے۔ عید میلاد کے دن ہم نے علما کے علاوہ ایک گھنٹہ اپنے تین سال سے بچھڑے ہوئے رہنما کی دردناک بپتا سنی۔ یوں لگا کہ وہ سیاست دان نہیں بلکہ کوئی نوحہ خواں ہیں، جنہیں اپنی صعوبتیں یاد ہیں دشمنوں کی بدتہذیبی اور آٹے دال کا بھائو پتہ ہے۔ باقی سیاسی طور پر دنیا اور پاکستان کی سرحدوں پر کیا ہورہا ہے اور ابھی تک روزانہ میر علی میں دہشت گرد پکڑے جارہے ہیں، ہماری فوج کے سربراہ رخصتی سے پہلے بڑے ملکوں کا دورہ کر رہے ہیں۔

میں نے شروع کیا تھا ہر سال کے نوبل پرائز کے حوالے سے۔ مجھے کیا بلکہ غازی صلاح الدین نے بھی لکھا ہےکہ ہماری حکومت نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ قرۃ العین حیدر اور فیض صاحب تو ہمارے دماغ کو آکسیجن فراہم کرتے رہتے ہیں۔ کیا فرانسیسی اینا 82برس کی عمر میں نوبل انعام حاصل کرسکتی ہے تو پاکستانی ادیبوں کی تحریروں کو سوئیڈش اکیڈمی تک کون پہنچائے گا؟ معاف کیجئے یہاں تو آپا دھاپی پڑی ہوئی ہے۔ ہم لوگ یہ سن کر خوش ہیں کہ اگلے ماہ سے بجلی کا بل اتنا زیادہ نہیں آئے گا۔

تازہ ترین