• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوج نیب قانون سے باہر کیوں؟ پی ٹی آئی نے بھی اعتراض نہیں کیا، ججز کو بھی استثنیٰ نہیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس د یئے کہ افواج پاکستان کو نیب قانون کی دسترس سے باہر کیوں رکھا گیا ہے.

 ملک میں سارے بڑے کاروبار تو انہی کے ہیں، حیرت ہے تحریک انصاف نے فوج کو نیب قانون کی دسترس سے باہر رکھنے پر اعتراض کیوں نہیں اٹھایا، قانون کے مطابق ججز کو بھی استثنیٰ نہیں، ججز کے حوالے سے کوئی پردہ داری ہو تو علیحدہ بات ہے،احتساب کیلئے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔

 چیف جسٹس عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں بھی توازن ہونا چاہیے، عام شہری کے حقوق ہیں تو دوسری طرف قومی مفاد اور معاشرے کے بھی بنیادی حقوق ہیں، دونوں کے مابین توازن ہونا چاہیے

 اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، ان میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کل کو کوئی عدالت آکر کہے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے،آمدن سے زاہد اثاثہ جات کاجرم آج بھی نیب قانون میں موجود ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب ترامیم کے ذریعے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرائم کو ختم کردیا گیا، کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

بعدازاں عدالت نے نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بنچ نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا مالی فائدہ ثابت کیے بغیر کسی فیصلے کو کیسے غلط کیا جا سکتاہے،بظاہر عوامی عہدیداران کو فیصلہ سازی کی آزادی دی گئی ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایسے فیصلہ سازوں سے ہی ماضی میں آٹھ ارب سے زائد ریکوری ہوئی، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ہر سرکاری فیصلے کا کسی نہ کسی طبقے کو فائدہ ہوتا ہے،کیا ریکوری عوامی عہدیداران سے ہوئی تھی؟

خواجہ حارث نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ عوامی عہدیداروں کیلئے پیسے پکڑنے والوں سے ریکوری ہوئی تھی، جب تک پہنچایا گیا فائدہ غیر قانونی نہ ہو تو کوئی قباحت نہیں،مخصوص افسر کو غیر قانونی فائدہ پہنچانے پر کارروائی نہ ہونا غلط ہے، کسی ریگولیٹری اتھارٹی اور سرکاری کمپنی پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکتا.

 جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ نئی ترامیم کے بعد نیب قانون سے بچ نکلنےوالا دوسرے قانون میں پھنس جائے گا، آپ کے دلائل سے ایسا لگتا ہے احتساب صرف نیب کر سکتا ہے، احتساب کیلئے دیگر ادارے بھی موجود ہیں،خواجہ حارث نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ نیب ترامیم میں نجی افراد کو جرائم سے نکال دیا گیا ہے،آمدن سے زاہد اثاثہ جات پر اس وقت کاروائی ہوگی جب کرپشن ثابت ہو۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے کہا آپ کہہ رہے کہ ترامیم سے کئی جرائم کو ڈی کریمینلائز کردیا گیا ہے،ریمانڈ کتنا ہو ضمانت کیسے ہوگی ان ترامیم پر آپکا اعتراض نہیں،آمدن سے زائد اثاثہ جات سمیت نیب قانون سے جرائم نکالے گئے،کیا ان جرائم کیخلاف دوسرے قوانین موجود ہیں،پاکستان جیسے ملک میں درست ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرائے جاتے، اثاثوں کا آمدن سے محض زائد ہونا کافی نہیں، آمدن سے زاہد اثاثہ جات میں کرپشن یا بے ایمانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ نیب قانون میں آمدن سے زاہد اثاثہ جات کاجرم آج بھی نیب قانون میں موجود ہے، کیا عدالت اب قانون کے ڈیزائین کا جائزہ بھی لے گی،عدالت پارلیمنٹ کیساتھ چالاکی کو کیسے منسوب کر سکتی ہے، کل کو کوئی عدالت آکر کہیں کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات پر پھانسی ہونی چاہیے، جرم ثابت کرنے کا بوجھ کس پر اور کتنا ہوگا، یہ بحث عدالت نہیں پارلیمنٹ میں ہونی چاہیے.

 نیب قانون کے مطابق ججز کو استثنیٰ نہیں،ججز کے حوالے سے کوئی پردہ داری ہو تو علیحدہ بات ہے، حیرت ہے تحریک انصاف نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کو نیب قانون کی دسترس سے باہر رکھنے پر اعتراض کیوں نہیں اٹھایا،خواجہ حارث نے نیب قانون میں ریمانڈ اور ضمانت جیسی کی گئی ترامیم اچھی ہیں ،ہمیں ان پر کوئی اعتراض نہیں.

نئی ترامیم میں آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرائم کو ختم کردیا گیا،پچاس کروڑ روپے کی کرپشن پر نیب کی کارروائی کی حد کم کرکے دس کروڑ بھی ہوسکتی ہے، ہمارا اعتراض نیب قانون کا اطلاق ماضی سے کرنے پر ہے،عدالت کے استفسار پر خواجہ حارث نے بتایا کہ وہ آئندہ چار سماعتوں تک اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے معاملہ کی سماعت آئندہ پیر تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔

اہم خبریں سے مزید