• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی 8 نشستوں پر ضمنی انتخابات نے پچھلے کئی ہفتوں سے سیاسی ماحول میں ایک ارتعاش پیدا کیا ہوا تھا، کئی بار ایسا موقع بھی آیا کہ جب ان کے انعقاد پر شکوک و شبہات کے سائے منڈلانے لگے ، لیکن بالآخر یہ انتخابات ہوئے اور ان کے نتائج نے یہ بات ثابت کر دی کہ تحریک انصاف کا ووٹ بنک موجود ہے اور اقتدار سے باہر آنے کے باوجود اس میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑا، البتہ ملتان کی وہ نشست جس پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی تھیں ، خاصے اپ سیٹ نتیجہ کا باعث بنی ہے ، یہاں دو روایتی خاندانوں کے درمیان مقابلہ تھا، گیلانی اور قریشی خاندان کی نئی نسل آمنے سامنے تھی۔ 

ایک عام خیال یہ تھا کہ جو لہر تحریک انصاف کے حق میں عمران خان کی مہم کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہے، اس کا فائدہ تحریک انصاف کی امیدوار اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو قریشی کو بھی ہوگا اور وہ یہ انتخاب آسانی کے ساتھ جیت جائیں گی ، مگر جن سیاسی مبصرین کی اس حلقہ کی صورتحال پر گہری نظر تھی، وہ پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ شاہ محمود قریشی کا مہربانو قریشی کو اس حلقہ میں امیدوار بنانا، ان کا ایک بہت بڑا جوا ہے، اس کی کئی وجوہات تھیں، سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ خود تحریک انصاف کے اندر اس فیصلے کے لئے حمایت موجود نہیں تھی۔ 

تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے کھل کر یہ بات کی کہ عمران خان کا بیانیہ چونکہ موروثی سیاست کے خلاف ہے، اس لیے شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو ٹکٹ دینا، اس بیانیہ کی نفی ہو گا ، پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ مہربانو قریشی کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا ،وہ اچانک اس ضمنی انتخاب کے لئے نمودار ہوئیں اور انہیں امیدوار بنادیا گیا ،دوسری طرف گیلانی خاندان کے بیٹے علی موسی گیلانی تھے جو ملتان کے حلقوں کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں ،وہ پہلے بھی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں ان کا عوام کے ساتھ رابطہ بھی رہتا ہے اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم بھی ضمنی انتخاب کے اعلان سے پہلے ہی شروع کر رکھی تھی۔

شاہ محمود قریشی چونکہ یہ سمجھتے تھے کہ حلقہ 157 ان کا آبائی حلقہ ہے، جہاں سے وہ اور ان کے بیٹے کئی انتخابات جیت چکے ہیں، اس لئے انہوں نے پارٹی مفاد میں فیصلہ کرنے کی بجائے ذاتی مفاد میں فیصلہ کرتے ہوئے اپنی اس بیٹی کو امیدوار بنادیا جو سیاسی حلقوں میں ایک غیر معروف اور اجنبی شخصیت کے طور پر سامنے آ ئیں ، شاہ محمود قریشی نے مہر بانو قریشی کو امیدوار تو بنا دیا، مگر انہیں اتنی اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے ساتھ انتخابی مہم چلا سکیں، انہیں خواتین کے جلسوں اور کارنر میٹنگز تک محدود رکھا اور خود اپنے بیٹے زین قریشی کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلاتے رہے۔ 

اس کا ووٹرز پر انتہائی منفی اثر ہوا، سید یوسف رضا گیلانی نے اس بات کو بھی بڑی مہارت سے اجاگر کیا کہ تحریک انصاف تو قومی اسمبلی میں موجود ہی نہیں ہے، مہربانو قریشی بھی اگر منتخب ہوئیں ،تو وہ رکنیت سے استعفی دے دیں گی ، جس سے ایک بار پھر یہ حلقہ عوامی نمائندگی سے محروم رہ جائے گا، دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاہ محمود قریشی نے اپنے دور اقتدار میں ملتان کے لیے کچھ نہیں کیا، کوئی ایک میگا پراجیکٹ بھی وہ اپنی ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں ملتان کو نہیں دلوا سکے، خود ان کے حلقے میں یہ تاثر موجود رہا کہ وہ خاص لوگوں کو نوازتے ہیں اور تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ 

جبکہ سید یوسف رضا گیلانی کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ انہوں نے اپنے دور وزارت عظمی میں ملتان کو بے شمار فنڈز دئیے، کئی میگا پراجیکٹ بنے، کئی میگا پراجیکٹس پر کام شروع ہوا اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ گیلانی ہاؤس کے دروازے کارکنوں پر ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، لیکن شاہ محمود قریشی نے خود کو ایک ایسے بڑے سیاسی رہنما کے طور پر کارکنوں سے دور کر رکھا ہے، جو عظمت کے خبط میں مبتلا ہوجاتا ہے، علی موسی گیلانی کی جیت سے جہاں گیلانی خاندان کی سیاست کو ایک نئی زندگی ملی ہے، وہاں شاہ محمود قریشی کے لئے یہ شکست مستقبل میں ان کی ناکامیوں کا ایک بڑا سبب بن سکتی ہے، سید یوسف رضا گیلانی کی سیاسی بصیرت نے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو اس ضمنی انتخاب کے لیے متحرک کیا رکھا۔

خاص طور پر مسلم لیگ ن جس کا اس حلقہ میں بڑا سیاسی اثر رسوخ ہے، اس کے رہنما پوری شدومد کے ساتھ علی موسی گیلانی کی انتخابی مہم میں شامل رہے ، اس کامیاب انتخابی مہم کے نتیجہ میں نہ صرف مسلم لیگ ن کا ووٹر متحرک ہوا، بلکہ خود پیپلز پارٹی کے ووٹرز میں بھی ایک واضح تحرک نظر آیا، یہ واحد حلقہ ہے، جہاں ضمنی انتخاب  میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ بہت اچھا رہا ، عام انتخابات میں سید علی موسی گیلانی نے یہاں سے 70 ہزار ووٹ لئے تھے اور دوسرے نمبر پر رہے تھے، جبکہ اس بار انہیں ایک لاکھ سات ہزار سے زائد ووٹ ملے۔  

دوسری طرف تحریک انصاف کی امیدوار مہربانو قریشی 82 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کر سکیں ، سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹر گھر وں سے کیوں نہیں نکلا اور سیاسی حلقوں کا جواب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ووٹر نے جانتے بوجھتے اپنی پارٹی میں موروثی سیاست کو دفن کر دیا ہے ، عمران خان جن سات حلقوں سے انتخابات میں بطور امیدوار سامنے آئے، ان میں سے چھ میں انہیں فتح حاصل ہوئی ، ملیر کراچی میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اگر وہ ملتان میں بطور امیدوار ضمنی انتخاب میں حصہ لیتے، تو شاید یہ سیٹ بھی تحریک انصاف جیت جاتی ، مگر غالبا شاہ محمود قریشی کی ضد کے آگے انہوں نے اپنی موروثی سیاست کی پالیسی کو تبدیل کیا ، جس کا تحریک انصاف کو بالآخر یہ نقصان ہوا کہ اسے عام انتخابات میں اپنی ہی جیتی ہوئی سیٹ سے محروم ہونا پڑا، یہ ضمنی انتخابات پیپلز پارٹی کے لئے بہت سود مند ثابت ہوئے، اسے قومی اسمبلی کی دو نشستیں مل گئیں، جن کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ 

جیت کے بعد پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ملتان کی عوام نے عمران خان کے جھوٹ کے بیانیہ کو مسترد کیا ہے ، یہ شکست درحقیقت عمران خان کی شکست ہے ، اسے مقامی سیاست کے تناظر میں نہ دیکھا جائے، یہ بات انہوں نے شاید پیپلزپارٹی کو ایک بڑے تناظر میں مقبول جماعت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کی ، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ گیلانی خاندان کو یہ نشست مقامی سیاست اور تحریک انصاف میں موجود موروثی سیاست کے خلاف رد عمل کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے ، بہرحال گیلانی خاندان کا اب ملتان ایک بار پھر مضبوط ہو گیا ہے اور حلقہ 157 کے ضمنی انتخاب میں اس کی فتح، آنے والے عام انتخابات میں ایک بڑا کلیدی کردار ادا کرے گی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید