اسلام آباد ( ایجنسیاں )سپریم کورٹ نے حکومتی درخواست مسترد کرتے ہوئے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے خلاف پہلے سے کوئی بھی حکم جاری کرنے سے انکار کردیا جبکہ چیف جسٹس عمرعطاءبندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ وفاقی حکومت لانگ مارچ سے قانون کے مطابق نمٹ سکتی ہے ‘.
ابھی تک تو فی الحال تقریریں ہیں‘ کہاں ہے عوام کا سیلاب ؟پچھلی بار دوتین سولوگ کلوز ایریامیں داخل ہوئے تھے ‘میرے خیال میں وہ بھی مقامی تھے ‘ ہماری مداخلت درکارہوئی تو چھٹی کے روز بھی پہنچیں گے ‘ عدالت کے سامنے ٹھوس مواد لے کر آئیں،ہمارا کام توازن رکھنا ہے.
احتجاج کا حق بھی مشروط ہے،کسی سیاسی لیڈر نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں‘آپ ایڈوانس میں ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئی۔عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ 25مئی کو لانگ مارچ کے موقع پر عمران خان نے عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی ‘یقین دہانی کے باوجود عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک کی کال دی،کارکنان ریڈزون کی طرف آئے‘جھڑپیں ہوئیں،مظاہرین نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا،اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہا کہ میری عدالت سے عبوری حکم کی بھی استدعا ہے،جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا عبوری حکم دیں۔
اٹارنی جنرل نے اس پر بتایا کہ عمران خان اسلام آباد پر چڑھائی کو جہاد قرار دے رہے ہیں،عمران خان تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں جا رہے ہیں،عمران خان اپنی تقریروں سے لوگوں کو اکسا رہے ہیں،ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے.
احتجاج کرنا بنیادی حق ہے،ہم چاہتے ہیں کوئی آکر کہہ دے کہ عمران خان کا لانگ مارچ کا کوئی ارادہ نہیں، عدالت نے اس موقع پر اٹارنی جنرل سے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں ہم دوسری بار ان سے یقین دہانی لیں‘چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عدالت کو دی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ لانگ مارچ اور دھرنے کا پلان ہے، آپ قانون کے مطابق صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں.
شہر کے علاقوں کے تحفظ کے اقدامات اٹھا سکتے ہیں‘ آپ شہری علاقوں میں جہاں تھریٹس ہیں وہاں اقدامات کریں۔جب لوگ ہوں تو آپ کی استدعا ہونی چاہیے کہ ہجوم کو روکیں لیکن ابھی تو کوئی ہجوم ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق اقدامات اٹھانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے‘ انتظامیہ اپنے آپ کو صورتحال کے لیے مکمل تیار کرے، جب کسی بھی طرف سے قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو مداخلت کریں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے رپورٹس کا جائزہ لے لیں،آپ ایڈوانس میں ایسی صورتحال کے احکامات چاہتے ہیں جو ابھی سامنے نہیں آئی،جب کچھ ہو تو آپ عدالت کے پاس آسکتے ہیں۔