• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زینب فاطمہ

’’آج اتنے زمانے بعد میری دوست کھانے پر آرہی ہے اور ماسی نے چھٹی کرلی ،اب اتنے سارے کام کون کرے گا ؟ سارا موڈ خراب کردیا ‘‘ کنزہ نے اپنے شوہر کو فون پربتایا، اس سال اپنی سالگرہ کے لیےاتنے دل سے میں نے یہ ڈریس بناوایا تھا لیکن درزی نے اتنی خراب سلائی کی ہے کہ اب پہنے کا موڈ ہی نہیں ہو رہا۔ ہما نے اپنی امی سے کہا ، ’’بیگم…کیا بتائوں اچھا بھلا دوستوں کے ساتھ پکنک مناکے خوشی خوشی واپس آرہے تھے کہ ڈرائیور نے بتایا کل وہ اپنے بچے کو ڈاکٹر کے ہاں لے جائے گا اور چھٹی کرے گا، بس پکنک کا سارا موڈ خراب کردیا اس نے۔‘‘ 

ہاشم صاحب نے جلتے کڑھتے ہوئے بیگم کو اطلاع دی۔سوال یہ ہے کہ ہمارا موڈ اس قدر جلدی کیوں خراب ہوجاتا ہے، ہم نے اپنے موڈ کی چابی دوسروں کے ہاتھ میں کیوں دے رکھی ہے؟ ہم خوش ہونے کا موقع اتنی آسانی سے کیوں گنوا دیتے ہیں! ہمارے لئے موڈ خراب ہونا اتنا سہل اور خوش ہونا اور خوش رہنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ اس کا اصل جواب یہ ہے کہ روزبروز ہماری قوت برداشت کم ہوتی جارہی ہے، ہم چیزوں اور واقعات پر بہت جلد جھنجھلا جاتے ہیں، کیا پہلے زمانے میں لوگوں کے ساتھ کوئی انہونی یا ناخوشگوار بات نہیں ہوتی ہوگی؟ کوئی خلاف مزاج واقعہ پیش نہیں آتا ہوگا؟ بالکل ہوتا ہوگا، لیکن لوگوں کے اندر ضبط وتحمل ہم سے زیادہ تھا کہ وہ اپنے موڈ کو خراب نہیں ہونے دیتے تھے، اسے کسی کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، گویا اپنے موڈ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے، لیکن ہماری نسل مسلسل حالات کی خرابی، مہنگائی، ٹریفک جام، بے روزگاری، صحت اور تعلیم کے مسائل سے اس قدر اعصاب شکست ہوچکی ہے کہ معمولی سی بات بھی مزاج برہم کرنے کو کافی ہوجاتی ہے۔

موڈ کی خرابی کا سبب بیرونی نہیں، انسان کے اندر ہوتا ہے، اگر وہ پہلے سے تھکا ہارا، کسی بات پر پریشان اور الجھا ہوا ہے، تو کسی معمولی سی خلاف توقع بات پر اس کے خوشگوار موڈ کی عمارت زمیں بوس ہوسکتی ہے، انسان پہلے سے چڑا بیٹھا ہو تو معمولی سی بات اس کے پھٹ پڑنے کے لیے کافی ہوتی ہے، گویا کسی بہت بڑے غبارے کو پھاڑنے کے لیے ننھی منی سی سوئی بہت ہوجائے۔ضبط کا ’’ظرف‘‘سے بہت ہی گہرا تعلق ہے، جس میں ظرف زیادہ ہوگا اس میں برداشت اور تحمل کا مادّہ زیادہ ہوگا، دوسروں کی باتیں برداشت کرنے کا صبر دوسروں سے بہت بلند درجے پر ہوگا۔

موڈ کی خرابی اکثر اس لئے بھی ہوتی ہے کہ ہم موڈ خراب کرنے کو ذاتی طور پر تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، بس ابھی کوئی آئے اور ہمیں رلا جائے، چڑا جائے، بگاڑ جائے، ہم فوری طور پر اپنی ہنسی کاگلا گھونٹنے، مسکراہٹ روکنے اور خوشی کو ملیا میٹ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ خوشیاں اور مسکراہٹیں بڑی قیمتی چیزیں ہیں اتنی بڑی چیزوں کو قربان کرنے کے لیے اتنی معمولی وجوہات نہیں ہونی چاہیں۔ کچھ لوگوں کا موڈ بہت جلدی آف ہوجاتا ہے، ہنستے مسکراتے آپ کے گھر آئے اور بیٹھے بیٹھے موڈ آف ہوگیا۔ 

موڈ کے ایسے تار چڑھائو رشتوں میں اونچ نیچ پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں، ایسی اونچ نیچ جس کا درمیانی فاصلہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ آج کل موڈی افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کو موڈ میں پہلے پہل استحکام پایا جاتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ ان کے موڈ میں بھی برہمی کے رنگ جھلکنے لگے ہیں، جو وقت اور عمر کاتقاضا ہیں، یا پھر دوسروں کے موڈ کے مدوجزر سہہ سہہ کے وہ بھی موڈ بگاڑنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔

سارے مسئلے کا لب لباب یہی ہے کہ ’’کوئی بھی شخص آپ کی اجازت کے بغیر آپ کو ناخوش نہیں کرسکتا۔‘‘ گویا ہم دوسروں کو موقع اور اجازت دیتے ہیں کہ وہ ہمارا موڈ ناخوش گوار کردے، ہم اپنے آپ پے کنٹرول نہیں رکھ پاتے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرنے لگے ہیں ،زندگی مسکرانے اور خوش رہنے کے لیے بہت مختصر ہے، اسے چڑنے ،روٹھنے اور بگڑنے میں بر باد نہ کریں۔دوسروں پر بگڑ کر اپنے ساتھ ساتھ ان کاموڈ بھی خراب کر دیتے ہیں اور یہی خرابی تعلقات کی خرابی کا باعث بن جاتی ہے۔ 

ہم دوسروں کو معمولی سی بات پہ برا بھلا کہہ کے اپنا دل تو ہلکا کرلیتے ہیں، وقتی غصے سے نجات تو پالیتے ہیں لیکن کسی عزیز سے اپنا تعلق ہمیشہ کے لیے خراب بھی کرلیتے ہیں۔ ’’موڈ پر کنٹرول کرنا بہت بڑا فن ہے، آج کل کے دور میں جب بیرونی مسائل ہمیں ہر وقت جھنجھلانے پر تلے رہتے ہیں ایسے میں خود پہ قابو رکھنا بڑے کمال کی بات ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی بات پر فوری ردعمل سے گریز کیا جائے، زبان پہ زیادہ سے زیادہ قابو کی پریکٹس کی جائے، دل و دماغ کو قابو میں رکھا جائے، ٹھنڈے دل ودماغ سے صورت حال پر سوچا جائے، دوسروں کو موقع دیا جائے کہ اگر ہمارے ساتھ کسی نے برا سلوک کیا تو شاید اس کی وجہ اس کی بیماری، تھکن یا پریشانی ہو، اگر لائٹ غلط وقت چلی گئی یا ٹریفک جام میں پھنس گئے تو غصہ کرنے اور کڑھنے کے بجائے اس وقت کو غنیمت جان کر ذکر ِالہی شروع کردیں۔

آج کل خواتین شکوہ کرتی نظر آتی ہیں کہ عبادت اور ذکر الہی کا وقت ہی نہیں ملتا، جب گھپ اندھیرے میں سارے کام ٹھپ ہوجائیں تواپنے آپ کوورد الہی میں مصروف کرلیں۔ غرض یہ کہ جیسے ہی کسی بات پر موڈ خراب ہونے لگے اپنے دھیان کو کسی اچھے کام پر لگالیں، کوئی اچھی سی خوشگوار بات سوچنے لگیں، ماضی یا مستقبل کا کوئی خوشگوار واقعہ جو پیش آچکا ہو یا مستقبل میں پیش آنے والا ہو، اس کے بارے میں سوچیں تو موڈ خود بخود خوشگوار ہوجائے گا۔‘‘

اسی طرح جب کسی دوسرے پہ شدید غصہ آرہا ہو اور موڈ بگڑنے لگے تو فوراً وہاں سے ہٹ جائیں، اس فرد کی کسی اچھی بات یا احسان یا اچھے سلوک کو یاد کرنے کی کوشش کریں اور ایسا بھی نہ کرسکیں تو اس شخص یا خاتون کو بھلا کر دھیان کہیں اور لگانے کی کوشش کریں۔ اگر اکثر لوگ آپ کے بارے میں شکایت کرتے ہیں کہ آپ بہت موڈی ہیں اور آپ کا موڈ بہت جلدی جلدی بنتا بگڑتا ہے تو اس بات پر مزید بھڑکنے کے بجائے اپنی اس عادت پر غور کریں ۔کہ ایساکیوں ہے۔

اس عادت کوختم کرنے کے لیے آپ اپنے آپ کو مختلف کاموں میں بھی مصروف رکھ سکتی ہیں ۔جیسا کہ کتابیں پڑھنا ،موسیقی سننا ،کچھ وقت اکیلے بیٹھ کے اپنا محاسبہ کرنا ،اپنی غلطی کا جائزہ لینا ،رات کو سونے سے قبل دن بھر کے واقعات دماغ میں دہرانا اور ٹھنڈے دل سے غور کرنا کہ کس واقعے پر ہمارا ردعمل مناسب تھا اور کس پر نامناسب تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ دماغ کو اس بات کے لیے بھی ترتیب دیں کہ وہ ہر بات اور ہر صورت حال کا خوشگوار پہلو تلاش کرے ۔غرض یہ ہے کہ انسان اپنے موڈ کا خود ذمہ دار ہے اور اسے اپنے موڈ کی چابی ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنی چاہیے، دوسروں کو یہ حق نہیں دینا چاہیے کہ وہ آپ کا موڈ چپکے سے آف کرکے چلتے بنیں۔