تعلیم و تربیت کا لفظ ایک ساتھ استعمال ہوتا ہے، جس سےعموما ان دونوں میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا بلکہ شاید انہیں باہم مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تعلیم اور تربیت، دو الگ الفاظ ہیں اور دونوں الگ الگ معانی رکھتے ہیں، لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم بھی ہیں۔ یعنی تعلیم، تربیت کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی، جبکہ تربیت تعلیم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
جدید تعلیمی نظام میں تربیت کو سرے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ یعنی ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام سے جو سرگرمی سر انجام دی جاتی ہے، اس میں سے تربیت کےعمل کو تقریبا ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔شاید تعلیمی سرگرمی انجام دے کر یہ سمجھاجاتا ہے کہ اس سے تربیت خودبخود حاصل ہوجائے گی۔ اس کے لئے الگ اور باقاعدہ کام کرنے کی ضرورت نہیں، حالانکہ یہ بالکل غلط تصور ہے۔
آج تربیت کے عمل کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے ،کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے نکلنے والے تعلیم یافتہ افراد کو بعد میں الگ سے تربیت کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے موجود تعلیمی اداروں سے ڈگری تو مل جاتی ہے لیکن اخلاق و کردارکا معیار نہایت پست رہ جاتا ہے۔ دونوں میں فرق کو واضح کرنے کے لیےسنیما کی تاریخ کا بڑا مزاحیہ اداکار چارلی چیپلن کا ایک واقعہ جو اُس نے کسی موقع پر بیان کیا تھا نذرِ قائین ہے۔
’’بچپن میں ایک بار میں اپنے والد کے ساتھ سرکس کا شو دیکھنے گیا، ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ہم سے آگے ایک فیملی تھی،جس میں چھ بچے اور ان کے والدین تھے، یہ لوگ دیکھنے میں خستہ حال تھے، ان کے بدن پر پرانے، مگر صاف ستھرے کپڑے تھے، بچے بہت خوش تھے اور سرکس کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، جب ان کا نمبر آیا، تو ان کا باپ ٹکٹ کاؤنٹر کی طرف بڑھا اور ٹکٹ کے دام پوچھے، جب اسے ٹکٹ کے دام بتائے، تو وہ ہکلاتے ہوئے پیچھے کو مڑا اور اپنی بیوی کےکان میں کچھ کہا،اس کے چہرے سے اضطراب عیاں تھا۔ تب ہی میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی جیب سے بیس ڈالر کا نوٹ نکالا، اسے زمین پر پھینکا، پھر جھک کر اسے اٹھایا اور اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،جناب! آپ کے پیسے گر گئے ہیں، لے لیں۔
اشک آلود آنکھوں سےاس شخص نے میرے والد کو دیکھا اور کہا،’’شکریہ محترم!‘‘
جب وہ فیملی اندر داخل ہوگئی، تو میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑ کر قطار سے باہر کھینچ لیا اور ہم واپس ہوگئے، کیوں کہ میرے والد کے پاس وہی بیس ڈالر تھے، جو انھوں نے اس شخص کو دے دیے تھے۔
اس دن سے مجھے اپنے والد پر فخر ہے۔ وہ منظرمیری زندگی کا سب سے خوب صورت شو تھا، اس شو سے بھی زیادہ، جو ہم اس دن سرکس میں نہیں دیکھ سکےاور تب ہی سے میرا یہ ماننا ہے کہ تربیت کا تعلق عملی نمونے سے ہے، محض کتابی نظریات سے نہیں۔