• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد جموں کشمیر حکومت کا یوم تاسیس

بولٹن کی ڈائری۔۔۔۔۔ ابرار حسین
ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت کے قیام کا 76واں یوم تاسیس آزاد کشمیر سمیت دینا بھر میں بسنے والے کشمیریوں نے 24 اکتوبر کو شایان شان طریقے سے منایا 24اکتوبر کو نیشنل ایونٹس آرگنائزنگ کمیٹی کے زیراہتمام مختلف سیاسی، سماجی اور عوامی نمائندہ تنظیموں نے آزاد جموں و کشمیر حکومت کے یوم تاسیس کے حوالے سے خصوصی تقریبات کا اہتمام بھی کیا پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے قومی پرچم لہرانے کی بڑی تقریب میونسپل کارپوریشن میرپور کے لان میں منعقد کی گئی اور روایات کو زندہ کیا گیا۔ یہ تاریخی دن کشمیر کی جدوجہد آزادی کو مکمل کامیابی تک جاری رکھنے کے تجدیدعہد کے ساتھ منایا گیا ۔ اس لیے آج کی ڈائری آزاد جموں کشمیر حکومت کے یوم تاسیس کے نام ہے۔ یہ یوم ہر سال 24اکتوبر منایا جاتا ہے 1947 کواسی دن آزاد جموں کشمیر کے بہادر اور عظیم سپوتوں نے اپنی سرزمین کو غاصب ڈوگرہ راج کے چنگل سے آزاد کرایا تھا۔ برطانیہ میں پیدا اور پروان چڑھنے والی ہماری نوجوان نسل کو ہمارے اہل قلم اور سیاسی کارکنوں کو چاہیے کہ انہیں ان تاریخی واقعات سے آگاہ کریں جو تحریک آزادی کشمیر کے قیام کا باعث بنے جبکہ آزاد کشمیر کے حکمران طبقے کو بھی اس خطے کے قیام کے مقاصد یاد دلائے جائیں کہ آزاد کشمیر کا اصل مقصد مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے ایک بیس کیمپ کا کردار ادا کرنا تھا ۔ آج جب ہم آزاد جموں کشمیر کے تمام 10اضلاع اور برطانیہ سمیت دینا بھر میں بسنے والے کشمیریوں کو چا ہئے کہ وہ یہاں کی مختلف کونسلوں میں بھی اس دن کی مناسبت سے خصوصی تقریبات کا اہتمام کریں۔ رہنماؤں کو یوم تاسیس کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی بتانا چاہیے کہ آزادکشمیر کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان، خورشید ملت کے ایچ خورشید، عظیم کشمیری لیڈر چوہدری نور حسین مجاید اوّل سردار عبدالقیوم اور دیگر اکابرین نے اس خطے کے لیے عظیم قربانیاں دیں اور بعض ایسی شخصیات جن میں مرحومین کرنل محمود غازی الہٰیبخش اور سالار محمد دین کا تحریک آزادی میں اپنا ایک کردار بھی موجود ہے اور ساتھ ہی ان چہروں کو بھی ایکسپوز کیا جائے جنہوں نے بیس کیمپ کو اقتدار کے کیمپ میں بدل دیا ان لوگوں کو بے نقاب کیا جائے جو آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق کو دبائے رکھنا چاہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ڈوگروں کے ظالمانہ دور کی آزاد کشمیر کے عوام کو یاد تازہ کرا دیتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آزاد کشمیر کے عوام کو جمہوری نظام دینے کے حق میں نہیں تھا اور اس طبقہ کے خلاف سردار محمد ابراہیم خان، کے ایچ خورشید ، چوہدری نور حسین، چوہدری مظہر حسین اور اب موجودہ صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے بھی طویل جنگ لڑی ہے اور مقبوضہ کشمیر جانے والے واحد کشمیری ر ہنماہیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر جا کر وہاں کی ماوں بہنوں کے سروں پر ہاتھ رکھا اور کشمیری قوم کو تسلی دی کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جا ئیں گی۔ کشمیر آزاد ہو کر رہے گا اس لیےکشمیری شہدا ء کے لیے فاتحہ خوانی کے علاوہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی جلد کامیابی اور آزاد جموں و کشمیر کی ترقی و خوشحالی کے لیے خصوصی دعا ئیں بھی کی جائیں لیکن اس خطے کو طویل عرصہ تک محرومیوں کا شکار کرنے والے ان عناصر کے چہروں کو بھی کشمیری عوام کے سامنے لایا جاے خواہ وہ آزاد کشمیر میں ہوں یا دینا کے کسی بھی خطے میں اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو بے نقاب کیا جا ئے ۔ خیال رہے کہ آزاد کشمیر کی جدوجہد آزادی کا آغاز، قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوا، جب ریاست کشمیر پر ہندوستان نے تقسیم ہند معاہدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے حملہ کر دیا اور کشمیریوں کی مرضی کے خلاف فوج کشی کرکےایک جعلی معاہدے کی آڑ میں ریاست کشمیر کا اپنے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اس صورت احوال میں غیور کشمیریوں نے ہندوستان کے خلاف مسلح جد و جہد کی، جس کے نتیجے میں وہ ریاست کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کا نام ریاست آزاد جموں و کشمیر رکھا گیا۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ تقسیم ہند کے وقت تقریباً 560 آزاد ریاستیں تھیں۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت ان آزاد ریاستوں کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ یا،اگر وہ چاہیں تو خود مختار ریاست کی حیثیت بھی برقرار رکھ سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم ریاست جموں و کشمیر تھی۔ اس ریاست کی غالب آبادی مسلم تھی یہ سب سے بڑی ریاست تھی جس کا رقبہ 84471مربع میل تھا۔ یہ ریاست آئینی اعتبار سے سب ریاستوں پر برتری رکھتی تھی۔ یہ واحد ریاست تھی، جس کی اپنی آئین ساز اسمبلی بھی تھی، اور 1947ء سے پہلے یہاں تین بار انتخابات ہو چکے تھے ریاست جموں کشمیر رقبے کے لحاظ سے کرہء ارض کے ایک سو تیرہ آزاد ممالک سے زیادہ ہے اور ریاست کشمیر انسانی نفوس کے لحاظ سے لگ بھگ ایک سو چھتیس آزاد ممالک سے بڑی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر پر جب نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1947ء میں تقسیم کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف ریاست کے مختلف حصوں میں جدوجہد کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے مغربی حصے پر ڈوگرہ مہاراجہ کا کنٹرول عملی طور پر ختم ہو گیا اور 24 اکتوبر،1947ء کو ان علاقوں میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے نام سے ایک عبوری ’’انقلابی‘‘حکومت قائم کی گئی۔ آزاد کشمیر کے پہلے صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان بنائے گئے تھے اس حکومت نے پونچھ(موجودہ ضلع سدھنوتی) کے علاقے تراڑ کھل کے گاؤں جنجال ہل کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر یہاں سے امور ریاست چلانا شروع کر دیے تھے۔ آزادکشمیرکی پہلی حکومت کی کابینہ میں صرف 6 وزرا تھے ۔ 1949ء کے اوائل میں دارالحکومت جنجال ہل سے مظفر آباد منتقل کردیا گیا۔ یہ حکومت بہت کسمپرسی کا منظر پیش کرتی تھی یعنی مالی طور پر اس وقت کے ہمارے حکمران بہت کمزور تھے لیکن ملی جذبوں سے سرشار تھے ۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان ایک درویش صفت انسان تھے انہوں نے بعد کے کئی حکمران طبقے کی طرح کوئی جائیداد نہیں بنائی بلکہ ان کا طرز حکمرانی ان کے برعکس تھا اور یہی وجہ ہے کہ مرحوم آج تک لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اس لیے 24اکتوبر کا تاریخی دن مناتے وقت غازی ملت کے کارناموں کو بھی خراج تحسین پیش کیا جائے اور یہ بھی یاد دلایا جائے کہ آزادکشمیر کا جو چھوٹا سے خطہ حاصل کیا گیا تھا یہ آزادی ابھی ادھوری ہے کیونکہ ریاست جموں و کشمیرکے غالب حصے پر ابھی تک بھارت کا کاجابرانہ قبضہ ہے اور 10 لاکھ سے زیادہ بھارتی افواج قابض ہے۔ کشمیری عوام گذشتہ 74 برسوں سے بھارت سے آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں ۔مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، مہاجرین مقیم پاکستان کے علاوہ خود برطانیہ میں لاکھوں کی تعداد میں آزاد کشمیر کے باشندے اپنی آزادی کی تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں بھارت کے ہر طرح کے جابرانہ اقدامات کے باوجود کشمیر کی جدوجہد آزادی جاری ہے اور یہ جنگ سیاسی ، اور سفارتی سب محاذوں پر لڑی جارہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کشمیر ی مسلمان تحریک آزادی کو اپنے لہو سے سیراب کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں بھارت مقبوضہ کشمیرکے عوام کے جذبہ حریت کو دبا نہیں سکا اور نہ ہی برطانیہ کے اندر کشمیری کمیونٹی کی خارجہ سطح پر سرگرمیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکا ہے ہمیں یقین ہے کہ کشمیریوں کو اپنے مقصد میں ضرور کامیابی ملے گی جلد یا بدیر وہ بھارت سے آزادی لے کر رہیں گے اور پوری ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر کے غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان، اور دیگر اکابرین کے مشن کی تکمیل کریں گے۔
یورپ سے سے مزید