پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت ”حقیقی آزادی مارچ“ جمعہ سے لاہور سے شروع ہوچکا ہے۔ حکمت عملی کے تحت جی ٹی روڈ پرعمران خان کے خطاب پر ختم کیا جاتا ہے۔ یہ لانگ مارچ ماضی میں ہونے والے ہر لانگ مارچ سے اِس لحاظ سے منفرد ہے کیونکہ اِس مارچ کے شرکا سڑکوں پر قیام کرنے کی بجائے روزانہ گھر چلے جاتے ہیں اور اگلے دن تازہ دم ہوکر پھر لانگ مارچ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے اہل خانہ کے ساتھ لانگ مارچ میں شامل کرکے عمران خان کا خطاب سنتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔
یوں ملک کاسب سے بڑا صوبہ پنجاب ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ، چند ماہ پہلے تک پنجاب میں قائد ایوان کے معاملے پر سیاسی صورتحال اور کھینچاتانی نے پورے ملک بلکہ دنیا بھرکی توجہ حاصل کی ہوئی تھی لیکن وہ معاملہ چودھری پرویز الٰہی کی پنجاب میں حکومت قائم ہونے کے نتیجے میں ختم ہوا تو اب عمران خان کے ”حقیقی آزادی مارچ“ نے پھر پوری دنیا کی توجہ پنجاب کی جانب مرکوز کررکھی ہے۔ عمران خان آٹھ سال کے بعد ایک بار پھر لاہور سے مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہیں لیکن اِس بار اِن کے مطالبات پہلے سے یکسر مختلف ہیں اور انہیں اِس بار ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ میسر نہیں۔
لانگ مارچ کا اعلان کر کے بنیادی طور پر عمران خان نفسیاتی اور اعصابی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس میں وہ خاصے مطمئن جبکہ اتحادی جماعتوں کی حکومت لانگ مارچ سے پریشانی لاحق ہے اور وہ لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے لیکن چودھری پرویز الٰہی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر نہ صرف صوبے کے انتظامی امور انتہائی تیزی اور دانش و تدبیر کے ساتھ چلارہے ہیں بلکہ وہ ڈیلیور کرنے کے لیے کم وقت کا ادراک کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ایسے منصوبے سامنے لارہے ہیں جن کو نون لیگ کے دور حکومت میں نظر انداز کیاگیا لیکن وہ عوامی مفاد کے منصوبے تھے۔
پس وہ تمام خدشات اور دعوے فقط قیاس آرائیاں ثابت ہورہے ہیں جن میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کا چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے بعد ساتھ طویل نہیں رہے گا بلکہ زمینی حقائق اب اِس کے برعکس ظاہر کررہے ہیں ۔ عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی دونوں مشترکہ حکمت عملی کے تحت اتحادی حکومت کے لیے درد ِ سر اس لیے بھی بنے ہوئے ہیں کہ وکٹ کے ایک طرف عمران خان جارحانہ اننگ کھیل رہے ہیں تووکٹ کی دوسری جانب چودھری پرویز الٰہی وکٹ بچاکر مناسب وقت پر درست شارٹ کھیلنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں اور اس کی واضح مثال چودھری پرویز الٰہی کا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے کم کرانے اور موجودہ سیاسی عدم استحکام ختم کرانے کے لیے روایتی بیک ڈور کردار ہے اوربلاشبہ چودھری پرویز الٰہی مطمئن ہیں کہ جلد قوم کو خوشخبری ملے گی اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہوگا۔
چودھری پرویز الٰہی کی پس پردہ مقتدر قوتوں کو معاملہ افہام و تفہیم کے ساتھ نمٹانے کی کوشش بار آور ثابت ہورہی ہے چوہدری پرویز الٰہی ایک منجھے ہوئے تجربہ کا سیاست دان ہیں ماضی میں بھی وہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بڑے بڑے دھرنوں کو پر امن ختم کرانے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں چوہدری پرویز الٰہی اور خاندان ملک سے وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اس لیے وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے مقتدر حلقوں سے رابطے میں ہیں وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ لانگ مارچ سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کی صورت میں معاشی عدم استحکام سے ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے اسی لیے وہ مقتدر اور سیاسی جماعتوں سے بیک ڈور رابطوں سے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو اسلام آباد پہنچنے سے قبل فریقین کے درمیان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
دوسری طرف حکومت کو بھی اِسی وجہ سے بند گلی سے باہر نکلنا کا موقعہ مل رہا ہے کیونکہ ملک کے معاشی حالات قابو میں ہیں اور نہ ہی سیاسی اور عوام میں مہنگائی اور بے روزگاری سے پیدا ہونے والی بے چینی اور اضطراب الگ، پس وفاقی حکومت بھی ایسی راہ چاہتی ہے جس میں اِسے Face Savingملے اور وہ اسی صورت ممکن ہے اگر مقتدر قوتیں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور درمیانی راہ نکالیں جو بلاشبہ جلد انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہے جس پر پہلے وفاقی حکومت متفق نہیں تھی لیکن جس طرح عمران خان آرمی چیف کی تقرری سے متعلق اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹٹے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
اسی طرح وفاقی حکومت بھی جلد انتخابات کے انعقاد یعنی انتخابات کی تاریخ دینے پر بظاہر رضا مند نظر آرہی ہے لیکن چودھری پرویز الٰہی اور صدر مملکت دونوں کی الگ الگ اور مشترکہ کوششوں سے سیاسی بحران خاتمے کے قریب پہنچ رہا ہے اور قوی یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان کو اسلام آباد پہنچنا ہی نہ پڑے اور قوم کو سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی خوشخبری مل جائے۔پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے اتحاد کے امیدواروں نے مسلم لیگ نون کی دو نشستوں پرکامیابی حاصل کرکے چودھری پرویز الٰہی کی پنجاب کے تخت پر مزید گرفت مضبوط کردی ہے جس کے بعد اب پہلے کی طرح اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور کایہ پلٹ منصوبے کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔
ایک طرف چودھری پرویز الٰہی کم مدت میں زیادہ سے زیادہ منصوبوں کے ذریعے عوام کے لیے اپنا حالیہ دور ایک بار پھر یادگار بنانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف چودھری مونس الٰہی سیاسی و انتظامی معاملات میں اُن کی مکمل معاونت کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کم و بیش تمام انتظامی اجلاسوں اور مشاورتی عمل میں نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ حتمی فیصلہ کرنے میں بھی معاونت کرتے ہیں۔ قوی امکان ہے کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے اور قوم کو سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی خوشخبری ملے جو یقیناً جلد عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ ہی ہوگی۔