سندھ میں مقدمات میں شہادت اور تفتیش کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے، جب کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے حقیقی مجرموں کو بے نقاب اور قانون کے مطابق سزا دلوائی جا سکتی ہے ۔ ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ نیاز احمد صدیقی نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس شہید بینظیر آباد رینج محمد یونس چانڈیو کی زیر صدارت ڈی آئی جی رینج آفس میں ضلع شہید بینظیر ،نوشیروفیروز، سانگھڑ کے تفتیشی افسران کے ساتھ تفتیش اور ایویڈنس( آگاہی) سیمینار سے خطاب کے موقع پر کیا۔ سیمینار میں سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر شاہدہ جمیل ،کنسلٹنٹ فارنسک فوزیہ طارق نے بھی خطاب کیا۔ سیمینار میں تفتیش کو بہتر بنانے ،جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایویڈنس تفتیش فارنسک اور جائے وقوعہ کے متعلق آگاھی دی گئی۔
سیمینار سے خطاب میں ریٹائرڈ آئی جی سندھ نیاز احمد صدیقی نے مزید کہا کہ دور جدید میں سائنس کی ترقی سے پولیس کو جدید ٹیکنالوجی میسر آئی ہے اور اس کے بہتر استعمال سے جرائم کا خاتمہ اور مجرموں کی سرکوبی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جُرم کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مجرموں کی سرکوبی کی جائے اور پولیس کا شعبہ تفتیش اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا ایف آئی أر کے اندراج کے بعد جائے وقوعہ کا معائنہ اور وہاں سے شہادتیں اکٹھی کرنے کا عمل مقدمہ کا اہم جز ہوتا ہے ۔ اس پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایک تو ہمارے معاشرے میں جرم کی ایف آئی آر درج کرانے کا عوام میں نہ تو شعور ہے اور دوسری جانب پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے کے لیے نت نئے بہانے گھڑے جاتے ہیں اور رشوت طلب کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں ایف آئی آر درج ہی نہیں کراتے اور جب ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، تو ظاہر ہے کہ پھر وہ علاقہ کرائم فری قرار دیا جاتا ہے، جب کہ اس علاقے میں جُرم کی شرح دوسرے علاقوں سے کم نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ معاشرے میں اس بات کا شعور اور آگہی پیدا کی جائے کہ لوگ جُرم چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اس کی ایف آئی آر ضرور درج کرائیں۔
جرم کی ایف آئی آر درج نہ ہو تو اس علاقے میں پولیس اہل کاروں کی مطلوبہ تعداد بڑھائی نہیں جا سکتی ہے۔ اس لیے ایسے علاقے جرم میں آگے ہونے کے باوجود یہاں پولیس نفری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھا یہ گیا ہے کہ پولیس کے شعبے تفتیش میں غیر ذمے داری قابلیت کی کمی کے باعث کمزورکیس بنائے جانے سے مجرم کو فائدہ ہوتا ہے اور وہ باآسانی قانون کی گرفت سے نکل جاتا ہے، اس سلسلے میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بڑے جرائم جیسے قتل اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کی وارداتوں کے مجرم صرف اس وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں کہ پولیس کا شعبہ تفتیش ان کے کیس میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے بغیر کیس کو چالان کر دیتا ہے اور پھر مجرم کی جانب سے بھاری معاوضے کے عوض حاصل کیے گئے، وکیل کی خدمات سے مجرم قانونی موشگافیوں کا فائدہ حاصل کرتے ہوئے آزاد ہو جاتا ہے۔
ریٹائرڈ آئی جی پولیس سندھ نیاز احمد صدیقی کا کہنا تھا کہ سندھ کے اکثر اضلاع میں مقدمہ کے نتیجے میں مجرموں کو سزا کی شرح پانچ سے دس فی صد ہے، جب کہ 90فی صد مجرم قانون کے شکنجے سے اس لیے نکل جاتے ہیں کہ ان کے مقدمات میں قانونی سقم پایا جاتا ہے اور اس کمزوری کا فائدہ فریق مخالف یعنی مجرم کے وکیل کو مل جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت محکمہ پولیس کے شعبہ تفتیش کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے جو محنت کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ آئی جی پولیس سندھ غلام نبی میمن کی جانب سے محکمہ پولیس میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہے۔ وہ قابل ستائش ہیں۔
سیمینار سے خطاب میں سابق وفاقی وزیر قانون بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہا کہ معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے مجرموں کا احتساب ضروری ہے، اس سلسلے میں قانون سازی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جب کہ مقدمات کی تیاری میں شعبہ تفتیش کو خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں جدت پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دور جدید میں جب جرائم پیشہ افراد جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں، تو پولیس کے شعبہ تفتیش کو بھی ایسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں محکمہ قانون کی ذمے داری دو چند ہو جاتی ہے۔
قانون کو سخت سے سخت بنانے کے لئیے محکمہ قانون میں دن رات محنت اور مشاورت جاری رہتی ہے، لیکن اس کے باوجود ابھی کام کرنے کے لیے بہت کچھ باقی ہے، بیرسٹر شاہدہ جمیل نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ قانون کی آراء پر مبنی ماہرین قانون کے آڈیو ویڈیو پیغامات اسی طرح کے سیمینار منعقد کرکے اس میں پولیس کے شعبہ تفتیش کے افسران اورحکام کو دکھا کر پہلے مقدمات کی تیاری کے لیے تربیت فراہم کی جائے۔
فارنسک کنسلٹنٹ فوزیہ طارق نے کہا کہ محکمہ پولیس میں تفتیش کا شعبہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی آجانے سے پولیس کے شعبہ تفتیش کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے، سیمینار کے آخر میں کام یاب تفتیش اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران انسپکٹر غلام سرور سولنگی کیس ایف آئی آر نمبر 43/2022 سیکشن 302پی پی سی پولیس اسٹیشن بھریا سٹی ڈسٹرکٹ نوشہرو فیروز، سب انسپکٹر اسلم بلو کیس ایف آئی آر نمبر 178/2021 سیکشن 302 پی پی سی،پولیس اسٹیشن کھپرو ڈسٹرکٹ سانگھڑ، اسسٹنٹ سب انسپکٹر کریم بخش کیس ایف آئی آر نمبر 251/2021 سیکشن 489f اور کیس ایف آئی آر نمبر 22/2022 سیکشن 489f پی پی سی پولیس اسٹیشن قاضی احمد ڈسٹرکٹ شہید بینظیر آباد کے ملزمان کو سزا دلوانے پر ڈی آئی جی محمد یونس چانڈیو کی جانب سے کیش اور تعریفی سرٹیفیکیٹ تقسیم کیے گیے۔