• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احسن اقبال

فاصلاتی نظام تعلیم کا تصور دنیا میں نیا نہیں۔ کئی دہائیوں سے دنیا کے مختلف ممالک میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے جو معاشی یا سماجی مسائل کی وجہ سے مروجہ نظام میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مالی مسائل کی وجہ سے کالج اور یونیورسٹی نہیں جا سکتے اور ملازمت یا کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں۔

’’فاصلاتی تعلیم (DE) ایک اصطلاح ہے جو درس و تدریس کے تمام امورکی وضاحت کرتی ہے ۔ تعلیم کی فراہمی کا ایک طریقہ ہے جو کلاس روم کی روایتی ترتیب میں جسمانی طور پر موجود نہیں ہوتاہے، ابتدا میں یہ طریقہ خط وکتابت کے ذریعہ عمل میں لایا جاتا تھا ،لیکن ٹیکنالوجی اور نئے نئے ایجادات کے انقلاب نے اسے مزید آسان اور مروج کردیا ہے۔ اس طرز تعلیم میں لائحہ عمل، درسی مواد(آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ)، تفویضات اور دیگر امدادی اشیاء بذریعہ ڈاک یارجسٹرڈ،ای۔میل کے ذریعہ طلبا تک پہنچا ئی جاتی ہیں۔

فاصلاتی تعلیم میں سب سے اہم ترقی الیکٹرانک ماس میڈیا کے میدان میں ہونے والی پیشرفت ہے۔ جومواصلات کے نئے مواقع فراہم کرتی ہے جو زبانی رابطےکی جگہ لےرہی ہے۔ ویب سائٹ یا پورٹل پر موجو د آڈیو ، ویڈیو اور ٹیسکٹ مواد طالب علم کے لیے وہ سارے مواقع فراہم کرتی ہیں، جس سےطالب علم کو علمی تشنگی دور کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔اب تعلیم کے شعبوں سے منسلک کم و بیش تما م افراد انفارمیشن ٹیکنالوجی یا آئی ٹی کی اصطلاح سے پوری طرح واقف ہو چکے ہیں۔

فاصلاتی نظام تعلیم دنیا بھر میں مقبولیت اختیار کر رہا ہے۔ دنیا کی پہلی اوپن یونیورسٹی بر طانیہ کی تھی، جبکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو دنیا کی دوسری اوپن یونیورسٹی ہونے کا اعزاحاصل ہے۔یہ 1974ء میں قائم ہو ئی۔ بلا شبہ یہ فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینے میں اپنا بھر پورکردار ادا کر رہی ہے۔ ابتداء میں علامہ اقبال یونی ورسٹی میں چند مضامین کے ساتھ تعلیم آغاز ہوا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی پروگراموں میں وقتاً فوقتاََ اضافہ ہوتا گیا۔ 

یونیورسٹی کے طلبہ آزاد کشمیر، گلگت و بلتستان، چترال، مالاکنڈ اور بلوچستان جیسے قدرتی حسن سے مالامال شہری اور دور دراز دیہی علاقوں سے لے کر پنجاب و سندھ کے دیہی و شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی کے 45 علاقائی دفاتر ہیں ،جبکہ بیرونِ ملک بھی طلبہ کی کثیر تعدا د فاصلاتی نظام تعلیم سے مستفید ہو رہی ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کامیابی کی جانب بڑھتے قدم دیکھ کر پاکستان کی مزید یونیورسٹیاں بھی اس نظامِ تعلیم کی جانب آرہی ہیں۔

لائبریری کی کتب الیکٹرانک لائبریری کی صورت میں ویب سائٹ پر ہیں، جبکہ طلباء داخلہ سے لے کر نتائج اور دیگر یونیورسٹی کی خبروں سے متعلقہ معلومات کے لئے ویب سائٹ سے مستفید ہوتے ہیں۔ فاصلاتی نظامِ تعلیم کی ترویج کے لئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ایک جامع اورکامیاب پلیٹ فارم ہے،جو تعلیم کی روز افزوں بڑھتی جدت پسندی کواپنے طلباء تک پہنچانے میں مصروفِ عمل ہے۔ ملک بھر میں 35 سے زائد مقامی کیمپس کا نیٹ ورک ہے۔سیاچین سے لے کر کراچی اور گوادر تک کے لوگوں کو تعلیمی پروگراموں سے مستفید کر رہی ہے۔

فاصلاتی تعلیم کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے ملک کا غریب اور متوسط طبقہ بغیر کسی امتیاز کے میٹرک، ایف اے،بی اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ آج کے دور میں جبکہ یورنیورسٹیوں کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اچھی یونیورسٹی میں داخلہ بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے وہاں یہ یونیورسٹی قبلِ تحسین ہےجو آسان اور سستی ترین معیاری تعلیم کا موقع عام آدمی کو فراہم کر رہی ہے۔ علم کے لاکھوں متلاشی اس مادر علمی سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔