اسد اللہ خان
گذشتہ دنوں میں اپنے دوست فزیو کی دعوت پر ٹوکیو گیا۔ وہ ایک کمپنی کا منیجر ہے ایک دن ہم دونوں سڑک پار کرنے کے لیےٹوکیو کے ڈائچی ہوٹل کے بالکل سامنے والے اشارے پر سبز بتی روشن ہونے کے انتظار میں کھڑے تھے۔ میں نے فزیو سے کہا، نہ تو یہاں کیمرے نصب ہیں اور نہ ہی خلاف ورزی پر کوئی جرمانہ کا بورڈ ہے اورسڑک بھی بالکل ویران ہے تو ہم سڑک پار کیوں نہیں کر لیتے؟ فزیو خوب ہنسا، کہا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پرائمری سطح پر کچھ پڑھایا نہیں جاتا بلکہ معاشرے کے آداب و اخلاق سکھائے جاتے ہیں، لہذا ہمارا ضمیر یہ اجازت نہیں دیتا کہ ہم آداب کے خلاف کام کریں، نہ صرف یہ بلکہ ہمیں تو دسویں جماعت تک انگریزی مضمون بھی پڑھایا نہیں جاتا۔
اپنی زبان، ثقافت اور رسم و رواج سے ہمیں روشناس کرایا جاتا ہے، لہذا ہماری تعلیم پر کم تربیت پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ تمہیں جاپان کی سڑکوں پر ایک کاغذ تک نہیں ملے گا، ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیشے پر چل رہے ہیں۔ ہر جگہ صفائی، قانون کی پاسداری، امن پسند معاشرہ اور وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
فزیو کی بات سن کر میں شرمندہ ہوگیا اور سوچنے لگا، کہ میرے دیس میں تو نرسری میں ہی بھاری بھر کم بستے معصوم کندھوں پر لاد دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں بچے اخلاقیات سیکھیں یا کتابوں کا بوجھ برداشت کریں، پھراعلی تعلیم تک بھی کو ادب و آداب اور اخلاق کا کوئی سبق نہیں سِکھایا جاتا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں تو صرف نمبر لینے والی مشینیں ہیں۔ ہماری اخلاقی اور ذہنی پسماندگی کا حال یہ ہے کہ، ہمیں۔
اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگریاں لینے والے، طلباء، مزدور سب کو بتانا پڑتا ہے کہ کرنا کیا ہے۔ بتانا پڑتا ہے کہ سڑک کے کنارے گاڑی پارک کرنا منع ہے لیکن ہم پارک کریں گے، ہمیں بتانا پڑتا ہے تیز رفتاری اور اوورٹیکنگ سے جان لیوا حادثات ہوتے ہیں لیکن ہم سنی ان سنی کر دیتے ہیں، ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ والدین کو گھروں سے نکالا نہیں جاتا لیکن ہم انہیں فلاحی اداروں کے حوالے کردیتے ہیں، ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ سڑک کے کنارے اور فٹ پاتھ پر کچرا نہیں ڈالتے لیکن ہم ڈالتے ہیں، ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ مسجدوں، لائبریریوں اور جنازوں میں موبائل فون بند کر دیں لیکن ایسا نہیں ہوتا ، ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ، استاد کو ہتھکڑیاں نہیں لگاتے لیکن ایسا بھی دیکھا۔ ہمیں بتانا پڑتا ہے کہ کرپشن، چوری اور بدعنوانی معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے لیکن ہم ایسا کرتے ہیں۔ ان سب مسائل کی جڑ یہ ہے کہ ہم تعلیم یافتہ تو ہیں مگر تربیت یافتہ نہیں ہیں۔
یہ سب اخلاق کے سبق اور ذہن سازی کے درس ہیں جو کسی تعلیم یا ذہانت سے مشروط نہیں۔ جاپان اس لئے ترقی کر گیا کہ اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ نسل پیدا کی اور ہم نے کسی سطح پر بھی بنیادی تربیت کا انتظام نہیں کیا۔ درجنوں ڈگریاں ہوں، مگر اخلاق و کردار ، انداز و اطوار، عادات و خصائل اور دیگر معاملات زندگی درست نہیں تو علم و فن کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنا بھی لاحاصل ہے۔
علم و ہنر کے باوجود محرومیوں کے اندھے کنویں میں غوطے لگا نا ہے۔ چشمِ حقیقت سے دیکھاجائے تو ہمارے اطوار ہی نرالے ہیں۔ ہم تو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنے ہوئے ہیں، کیونکہ نہ ہم روایات پسند ہیں اور نہ ہی جدیدیت کی طرف مائل ، اسی لئے ہم نہ تو ترقی کی طرف جا رہے ہیں اور نہ ہی اپنی اخلاقی روایات کا پاس رکھا ہوا ہے۔ یہ کیسی تعلیم دی جارہی ہے جو، اتنا شعور بھی نہ پیدا کر سکی کہ سوچیں وطنِ عزیز کا ہر ایک کونہ ہمارا گھر ہے اور بحیثیت پاکستانی اس کی تزئین و آرائش کا خیال رکھنا سب کا فرض ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو ٹھیک کریں ۔ والدین اور اساتذہ تربیت یافتہ نسل تیار کریں۔ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے، مگرہم نے اسے جی پی اےاور گریڈ تک محدود کر دیا، اس میں اداروں کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور والدین بھی شامل ہیں۔ ہر سال ہمارے ہاں اتنی وافر مقدار سے طلبا کالجوں اور یونیورسیٹیوں سے ڈگریاں لے رہے ہیں ،مگر عملی زندگی میں کوئی بھی ملکی ترقی کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا کیونکہ انہوں نے رٹال گانا سکھایا، انہیں حقیقی معنوں میں تعلیم و شعور نہیں دیا۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ تعلیمی ادارے جی پی اےکی فیکٹریاں بنانے کی بجائے اصل معنوں میں علم و شعور کی درسگاہیں ہوں، تا کہ نوجوان نسل اس قوم کی ترقی کا باعث بنے نہ کہ شرمندگی کا۔ ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی اور فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں ایک ترقی یافتہ قوم بننا ہے یا پھر دنیا کے سامنے ایک غیر مہذب قوم بن کر جینا ، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنے آپ کو دنیا کے سامنے کیسا پیش کرنا چاہتے ہیں۔