نوسا دعا(اے ایف پی،نیوز ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات میں تائیوان کے معاملے پر تلخی ہوئی تاہم دونوں ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان تین سال میں پہلی ملاقات کے دوران کئی مشترکہ مفادات میں تعاون پر اتفا ق کیا گیا ،رہنماؤں نے مشترکہ طور پر روس کو یوکرین میں جوہری ہتھیار استعمال کرنے سے خبردار کیا ،رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ یوکرین سمیت کہیں بھی جوہری ہتھیار استعمال نہیں ہونے چاہئیں، صدر شی اور ان کے امریکی ہم منصب کے درمیان انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر دو گھنٹوں تک ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے کہا کہ وہ کشیدگی کو بڑھانے اور کسی تنازع کی صورت پھیلنے سے روکنا چاہتے ہیں ،چینی صدر کا کہنا تھا کہ تائیوان کا سوال چین کے بنیادی مفادات کا مرکز ہے،انہوں نے مزید کہا کہ تائیوان پہلی سُرخ لکیر ہے جو امریکا، چین تعلقات میں عبور نہیں ہونی چاہیے، کسی کا تائیوان کو چین سے علیحدہ دیکھنا، چینی قوم کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگا،انہوں نے کہا کہ تائیوان کا مسئلہ حل کرنا چین کا اندرونی معاملہ ہے، اُمید ہے امریکا ون چائنا پالیسی کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنائے گا، وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے ملاقات کے دوران چین کی جانب سے تائیوان کے خلاف ’بڑھتے ہونے جارحانہ اقدامات‘ پر اعتراض اٹھایا ، امریکی صدر نے کہا کہ چین سے مقابلہ جاری رہے گا تاہم یہ مقابلہ تنازع میں نہیں بدلنا چاہئے ، وائٹ ہاؤس کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ صدر بائیڈن اور صدر شی نے اس اتفاق کا اعادہ کیا کہ ایٹمی جنگ کبھی بھی نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی جیتا جانا چاہیے۔ملاقات کے شروع میں دونوں صدور نے ہاتھ ملایا جس کے دوران صڈر بائیڈن نے کہا کہ سپرپاورز کی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو دکھائیں کہ وہ اپنے اختللافات کو سنبھال سکتے ہیں اور آپس کے مقابلے کو تنازع میں تبدیل ہونے سے روک سکتے ہیں۔امریکی صدر نے اپنے ہم منصب کو بتایا کہ دنیا کو شمالی کوریا کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے کہ وہ ’ذمہ درانہ طرف عمل‘ اپنائیں۔دوسری جانب چین کا کہنا ہے کہ ملاقات میں صدر شی نے اپنے امریکی ہم منصب کو بتایا کہ ان کے ملک کو یوکرین کے حالات پر’سخت تشویش‘ ہے۔چین کے وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ’صدر شی نے نشاندہی کی کہ چین کو یوکرین کے موجودہ صورتحال کے بارے میں بہت زیادہ تشویش ہے۔‘بیان کے مطابق صدر شی نے کہا کہ چینی حکام یوکرین اور روس کے درمیان بات چیت کی بحالی کے نہ صرف منتظر ہیں بلکہ اس کی حمایت بھی کرتے ہیں۔خبر ایجنسی کے مطابق ملاقات کا مقصد امریکا، چین مسابقت کو تنازعات کی نذر ہونے سے روکنا تھا۔ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی اختلافات کم کرنے کی اُمید کا اظہار کیا۔ چینی صدرشی جن پنگ نے کہا کہ چین اور امریکا میں مقابلہ ایک دوسرے سے سیکھنے کے بارے میں ہونا چاہیے۔ مقابلے میں خود کو بہتر بنا کر ساتھ ترقی کی جائے، مقابلہ دوسرے فریق کو زیر کرنے کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کورونا کے بعد عالمی بحالی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا باہمی مفاد میں ہے۔ چینی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا چین تعاون کے ذریعے علاقائی مسائل حل کرنا بھی ہمارے باہمی مفاد میں ہے، تجارتی اور معاشی تعلقات کو سیاست اور ہتھیاروں کی نذر کرنے کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ روس یوکرین بات چیت دوبارہ شروع ہونے کے حمایتی اور منتظر ہیں۔چینی صدر کا کہنا تھا کہ کسی بھی فریق کو دوسرے کو یا اس کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، چین کے پاس خود کو بہتر بنانے کی شاندار روایت موجود ہے۔ سفارتخانہ چین کی پولیٹیکل سیکرٹری نے اپنی وزارت خارجہ کا جو بیان جنگ کو بھیجا اس میں کہا گیا ہے کہ چین اور امریکا کو تاریخی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ اس سے پوری دنیا اور دنیا بھر کے عوام اسی کے خواہاں ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کو درست سمت رکھنا انتہائی ضروری ہے اور اسے دوبارہ صحت مندانہ اور مستحکم بنانا دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں ہے۔ باؤ ژونگ نے چینی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی بیسویں نیشنل کانگرس میں یہ بات طے کی گئی کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی داخلی اور خارجی پالیسیاں عالمی برادری کے مفاد میں ہونگی۔ چینی حکومت خطے میں شفاف اور واضح حکمت عملی کی علمبردار ہے اور وہ امریکا کے ساتھ بھی شفاف سٹرٹیجک تعلقات اور استحکام کو فروغ دینے کی خواہاں ہے۔ چین خطےمیں امن کی آزاد خارجہ پالیسی کا علمبردار ہے اورمعاملات کو ہمیشہ میرٹ پر دیکھتا رہے گا۔ صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین تنازعات کو پرامن اور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی وکالت جاری رکھے گا۔