• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

PTI میں توڑ پھوڑ: بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن فائدہ اٹھائے گی

آزاد جموں و کشمیر میں طویل عرصے کے بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پولنگ اور دیگر تمام مراحل مکمل ہونے کے باوجود چونکہ چنانچہ والی بات آگئ ہے۔ آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے لیکر بلدیاتی انتخابات تک امن و امان برقرار رکھنے کیلئے سکیورٹی کےلیے نفری وفاق سے لی جاتی رہی ہے۔ پاک آرمی، ایف سی، اور رینجرز کے اہلکار آزاد کشمیر پولیس کے ساتھ مل کر امن و امان کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، لیکن اس مرتبہ وفاقی وزیر داخلہ نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے باعث بیس ہزار سے زیادہ نفری دینے سے انکار کردیا ہے، وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر آزاد کشمیر حکومت اپنے وسائل سے سکیورٹی کا بندوبست کرسکتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بصورت دیگر بلدیاتی انتخابات کی تاریخ تبدیل کردے۔

اس کے بعد سکیورٹی فورسز مہیا کرسکتے ہیں، اس وقت لانگ مارچ کےباعث اتنی بڑی تعداد میں نفری دستیاب نہیں ہوسکتی، چیف سیکرٹری آزادکشمیر وفاقی حکومت سے رابطے میں ہیں اور پرامید ہیں کہ سکیورٹی کا بندوبست ہوجائے گا، جس کے بعد الیکشن کمیشن کو حکومت کی کچھ تجاویز آئی ہیں کہ تین مراحل میں الیکشن کرائے جائیں ،اس کے لیے اپنی سکیورٹی کافی ہوگی یا کے پی کے یا گلگت بلتستان سے پولیس نفری لی جائے، لیکن اپوزیشن جماعتوں نے حکومتی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کی سکیورٹی میں پاک آرمی کے دستے بھی شامل کیے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے ہر صورت میں انتخابات کروانے کی ٹھان لی ہے۔

 دوسری جانب سکیورٹی کے بغیر انتخابات ناممکن ہیں ،اگر پاکستان میں 20 نومبر تک یہی صورت حال برقرار رہی تو آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات میں اسمبلی انتخابات سے کئی زیادہ سکیورٹی درکار ہوتی ہے، ان انتخابات میں وارڑز کی سطح پر بڑی تعداد میں امیدوار ہوتے ہیں اور بدانتظامی کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا ہوچکاہے، اس وقت اگر تیس ہزار سے زیادہ سکیورٹی اہلکار دستیاب نہیں تو امن و امان برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔ 

صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے وفاقی حکومت سے سکیورٹی کا مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ چند روز میں معاملات طے ہوجائیں گے۔ آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات کا ہونااب لانگ مارچ سے منسلک ہوگیا ہے، اگر لانگ مارچ بیس نومبر تک ختم ہوجاتا ہے تو پھر انتخابات کا ہونا ممکن ہے۔ حکومت اور اپوزیشن بلدیاتی انتخابات کے ملتوی ہونے کے امکانات کا الزام ایک دوسرے پر لگارہے ہیں کہ ہماری کامیابی کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ 

حکومت اپوزیشن اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کررہے ہیں کہ ہم بھاری اکثریت سے جیت رہے ہیں، چند پہلے وزیر اعظم نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بہت سارے لوگ بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں لیکن انتخابات ہرصورت میں کروانے کی یقین دہانی کرائی ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد ہونے والے انتخابات ملتوی نہیں ہونگے، یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ماضی میں وزرائے حکومت بلدیاتی انتخابات کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ پیدا کرتے رہے ہیں، اب کی بار بھی وزرائے حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات نہ کروانے پر پوری کوششیں کی ہیں لیکن عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن نے ساری کوششیں رائیگاں کردی۔

اگست میں جب شیڈول کا اعلان ہوا حکومت آزاد کشمیر عبوری ایکٹ میں پندرویں لاکر الیکشن کمیشن کا بلدیاتی انتخابات کا اختیار ختم کرنے کیلئے بل اسمبلی میں ٹیبل بھی کرچکی تھی ،الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیات کا تقرر کرنے کی پوری تیاری ہوچکی تھی لیکن کچھ لوگوں نے درمیانہ راستہ نکلاتے ہوئے نومبر تک ملتوی کرنے پر سب سٹیک ہولڈرز کو راضی کرلیا تھا ،حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ انتخابات نومبر میں ہو پائیں گے، الیکشن کمیشن کا اچانک شیڈول جاری کرنا سب سیاسی جماعتوں کیلئے حیران کن تھا۔ 

اب الیکشن مہم آخری مراحل میں داخل ہونے کے بعد اگر ملتوی والی صورت حال پیدا ہوتی ہےتو سخت عوامی ردعمل آئے گا ،جوڑ توڑ،طاقت آزمائی، گہما گہمی زور و شور سے جاری ہے۔ اب تک کی انتخابی مہم میں حکمران جماعت کیلئے مشکلات دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ ہیں کیونکہ ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ 

تحریک انصاف کا ہر متحرک کارکن اپنے آپ کو ٹکٹ کا حقدار تصور کرتا تھا، جماعتی ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں تحریک انصاف کے لوگ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں شامل ہوگئے ہیں اور کچھ اپنے امیدوار کو ہرانے کیلئے کمربستہ ہیں جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتوں میں سے پیپلز پارٹی کو زیادہ ہوا ہے۔ مظفر آباد ڈویژن میں پیپلز پارٹی ایک مضبوط جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے ،پونچھ ڈویژن میں ضلع حویلی میںبھی پیپلز پارٹی مضبوط پوزیشن میں ہے جبکہ باقی اضلاع میں ملاجلا روجھان ہے، میرپور ڈویژن میں ایک ضلع میں پیپلز پارٹی مضبوط اور دیگر جماعتوں میں مقابلہ ہے۔ 

اس وقت تحریک انصاف میرپور بھمبر سدھنوتی باغ کے اضلاع میں مضبوط ہے جبکہ ن لیگ کی آزاد کشمیر کے کسی اضلاع میں واضح برتری نظر نہیں آرہی۔ مظفر آباد اور راولا کوٹ میں مقامی سطح پر کچھ علاقوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان غیر اعلانیہ اتحاد بھی دیکھا گیا ہے۔27 نومبر پولنگ کا دن مقرر ہے اس سے پہلے سیاسی صورت حال تبدیل ہوتی رہے گی تاہم بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، آزاد کشمیر میں اچھے امیدوار مقابلے میں اتارے ہیں۔ حکومتِ وقت کے پاس بلدیاتی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے مواقع موجود ہوتے ہیں ۔کیا تحریک انصاف ان بلدیاتی انتخابات میں فائدہ اٹھا پائے گی یا نہیں، اس فیصلے میں ابھی دس دن باقی ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید