سید علی مجتبی
میں ایک کتاب ہوں۔ مجھے میرے مصنف نے بڑی محنت کے ساتھ لکھا اور پھر پبلشر نے مجھے کافی ہی خوبصورتی سے چھاپا اور مجھے کسی بک شاپ والے نے خرید لیا۔ مجھے جس بک شاپ والے نے خریدا اس بک شاپ کے بلکل سامنے ایک کھلونے اور ویڈیو گیمز کی دکان تھی۔ ایک ہفتہ ہوگیا تھا مجھے کسی نے خریدا ہی نہیں تھا۔ لیکن سامنے والی دکان (جس میں کھلونے اور ویڈیو گیمز ملتے تھے) میں روز بہت ہی زیادہ رش ہوتا تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ بچے کتابوں کو چھوڑ کر ویڈیو گیمز اور کھلونے خرید رہے ہیں۔
وہ چیزیں خرید رہے ہیں جو ان کو تفریح کے علاوہ کچھ نہیں دے گی۔ویڈیو گیمز صرف تفریح دیتی ہیں اور آنکھیں بھی لے لیتی ہیں۔ ایک سال ہوگیا تھا مجھے بک شاپ میں۔ لیکن مجھے کسی نے نہیں خریدا تھا۔ مجھ پر مٹی پڑ گئی تھی۔میں بہت پریشان تھی کہ لوگ علم سے دور کیوں ہورہے ہیں۔
ابھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ اچانک مجھے ایک چھوٹے بچے کی آواز آئی جو میری طرف اشارہ کرکے کہے رہا تھا۔ میں نے یہ کتاب لینی ہے۔میں نے جب یہ سنا تو میں خوشی کے مارے رونے لگی۔ میں۔ سوچنے لگی کہ شکر ہے کہ کچھ بچے اب بھی ہیں جنہیں کتاب سے محبت ہے۔ اس بچے نے مجھے خریدا اور گھر لے گیا۔
میرے اوپر پڑی ہوئی مٹی کو اس نے صاف کیا۔ اس نے مجھے پڑھا اور مجھ سے حاصل ہونے والے سبق پر عمل کیا۔ وہ جب بھی پریشان ہوتا مجھے پڑھتا اور مجھے اپنے بک شیلف میں رکھ دیتا۔ تقریبا بیس سال گزر گئے ہیں میں اب بھی اس بک شیلف میں ہوں۔ اور وہ بچہ اب ماشااللہ ڈاکٹر بن گیا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میں اس کے کام آئی۔