روبینہ ناز
پرانے زمانے کی بات ہے ایک گاؤں میں ایک بہت کنجوس آدمی رہتا تھا۔ ایک بار وہ جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے کھجور کا درخت دیکھا جو پکی ہوئی کھجوروں سے لدا تھا، پھر کیا تھا؟،کنجوس آدمی کو تو کھجور مفت میں مل گئی۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے جلدی جلدی درخت پر چڑھنا شروع کر دیا ۔وہ جب کافی اونچائی تک چڑھ گیا تو اچانک ایک شہد کی مکھی نے اسے ڈنگ مار دیا۔
اس نے دیکھا کہ درخت پر شہد کی مکھیوں کا ایک بڑا سا چھتا لگا ہوا ہے۔ وہ گھبرا اٹھا اور اس نے نیچے چھلانگ لگانے کے بارے میں سوچا ،لیکن یہ کیا ؟ نیچے ایک کنواں تھا۔ وہ بری طرح ڈر گیا اور خدا سے دعا مانگنے لگا کہ ’’اے خدا مجھے بچا لے میں سو فقیروں کو کھانا کھلائوں گا، پھر اس نے دھیرے دھیرے نیچے اترنے کی کوشش کی، تھوڑا نیچے آنے کے بعد اس نے کہا ’سو کو نہیں تو پچھترکو تو کھلا ہی دوں گا۔ تھوڑا اور نیچے آنے پر اس نے کہا ’’ چلو پچھتر کونہیں تو پچاس کو تو ضرور کھلائوں گا۔‘‘
ایسا کرتے کرتے وہ نیچے پہنچ گیا اور فقیر ایک بچا۔ وہ سلامتی کے ساتھ اپنے گھر چلا گیا۔ اس نے سارا حال اپنی بیوی کو کہہ سنایا۔ وہ بھی بےحد کنجوس تھی، دوسرے روز بیوی نے ایک ایسا بیمار فقیر بلایا،جس کا پیٹ خراب تھا، ڈھنگ سے کھانا نہیں کھا سکتا تھا، یہ فقیر بھی اتفاق سے کنجوس اور چالاک آدمی تھا، اس نے 20 روٹیاں دہی، کھیرا اور دودھ پیک کرنے کو کہا کہ میں گھر جا کر کھا لوں گا۔ کنجوس کی بیوی مرتی کیا نہ کرتی ،اتنا ڈھیر سا کھانا فقیر کو دینا ہی پڑا۔
شام کو جب کنجوس آدمی گھر واپس آیا تو اس نے فقیر کے بارے میں پوچھا، بیوی نے اسے سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ کنجوس آدمی کو بہت غصہ آیا۔ وہ لاٹھی لے کر فقیر کے گھر پہنچا۔ فقیر کی بیوی بہت چالاک تھی۔ اس نے جب کنجوس آدمی کو غصے کی حالت میں اپنے گھر کی طرف بڑھتے دیکھا تو وہ دروازے کے باہر آ کر زور زور سے چلانے لگی کہ ’’پتہ نہیں کس نے میرے بیمار شوہر کو کیا کھلا دیا ہے ؟ ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے ہائے ! میں کیا کروں ؟ ایسا لگتا ہے یہ اب زندہ نہیں بچیں گے ارے کوئی ہے جو میری خبر گیری کرے۔ ‘‘
کنجوس آدمی یہ سن کر بری طرح سہم گیا اس نے فقیر کی بیوی سے کہا ’’ چلاؤ مت، میں تمہارے شوہر کے علاج کےلئے ابھی رقم کا بندوبست کرتا ہوں ’’چالاک فقیر گھر کے اندر بیٹھا مزے لے لے کر خوب ہنس رہا تھا۔ اس طرح ایک کنجوس نے ایک بڑے کنجوس کو پھنسا لیا، ایسے موقع کے لئے یہ کہاوت بولی جاتی ہے کہ’ چور کو پڑ گئے مور‘۔