اسلام آباد(جنگ رپورٹر)عدالت عظمیٰ نے ریکوڈک جوائنٹ وینچر کے نئے معاہدے سے متعلق حکومت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس کی سماعت کے دوران ریکوڈک منصوبہ کے ماحول دوست ہونے سے متعلق جواب طلب کر لیا ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ معدنیات پائپ لائن میں پانی کے ذریعے بندرگاہ پہنچیں گی جس سے بلوچستان میں واٹر سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ثمر مبارک مند نے اپنے تجربوں میں 690 ارب ضائع کیے ،قوم اب مزید تجربوں کی متحمل نہیں ہو سکتی ،عدالت کو بتایا گیاہے کہ ریکوڈک سے نکلنے والی معدنیات پائپ لائن میں پانی کے ذریعے بندرگاہ پہنچیں گی، بلوچستان میں پانی کی سہولت محدود ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ ریکوڈک پراجیکٹ کے لیے بلوچستان میں پانی کہاں سے آئے گا؟ ، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام پر وافر مقدار میں پانی کے ذخائر موجود ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بلوچستان میں بارشیں کم ہوتی ہیں،اس لئے واٹر سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریکوڈک منصوبے میں لیبر رائٹس کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟دوران سماعت بلوچستان ہائیکورٹ بار کے نمائندہ امان اللہ کنرانی نے موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے 2010 میں کان کنی کے قوانین تیار کیے تھے، ان کو لاگو کرایا جائے۔