میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
چینی سستی دینے کےلیے سیلز ٹیکس ختم کیا جائے، ڈالر، آٹا، دالیں مہنگی ہو چکی ہیں، چینی پرانے ریٹ پر ہی فروخت ہو رہی ہے۔ بھارت پچھلے چار سال سے چینی کی برآمد پر سبسڈی شوگر انڈسٹری کو دے رہا ہے۔ 20اکتوبر کو بھارت نے 6ملین ٹن فاضل چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جس سے وہ زرمبادلہ زیادہ کما رہا ہے۔ وفاقی حکومت بھی دس لاکھ ٹن فاضل چینی برآمد کرکے زرمبادلہ کما سکتی ہے۔ پاکستان کی شوگر انڈسٹری کو سخت قوانین کا سامنا رہا ہے جو کہ آزاد تجارت و کاروبار اور آئینِ پاکستان کے منافی ہے۔ یہ شوگر قوانین اس وقت کے حالات کو مدِنظر رکھ کر بنائے گئے تھے جب حکومت یہ یقین دہانی کروایا کرتی تھی کہ گنے کی مطلوبہ مقدار کی سپلائی شوگر ملوں کو بغیر کسی تعطل کے جاری ہے۔
اس کے بعد حکومت تما م چینی خریدکر راشن ڈپووں کے ذریعے فروخت کیا کرتی تھی۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنے 8 اپریل ، 2021 کے پالیسی نوٹ کے ذریعے یہ تجویز کیا تھا کہ شوگر سیکٹر کو ڈی۔ریگولیٹ کیا جائے تا کہ اس کا براہِ راست فائدہ عوام تک پہنچایا جا سکے۔ حکومت ہر فیصلہ خود کرتی ہے لیکن جب قیمت بڑھتی ہے تو الزام شوگر انڈسٹری پر لگا دیا جاتا ہے۔
چینی کی قیمتوں میں اضا فے کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں گنے کی قیمت، لیبر کی اجرت، مختلف اقسام کے ٹیکسز اور اسٹاف کی تنخواہیں وغیرہ شامل ہیں، چینی کی قیمت میں اضافے کا تعلق براہِ راست گنے کی پیداواری لاگت اور قیمت خرید کے اضافے سے منسلک ہے، گنے کی قیمت بڑھے گی تو چینی کی قیمت بھی بڑھے گی
چوہدری محمدذکا اشرف
قیمتوں کا اتار چڑھاو معمول کی بات ہے ،رسد اور طلب کا اصول یہاں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جب حکومت گنے کی کم از کم قیمت نافذ کرتی ہے تو پھر چینی کی بھی کم سے کم قیمت مقررکرنی چاہیے۔ پاکستان اگر اپنی شوگر انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کرےتو چینی اور ایتھانل کی برآمدات سے چار سے پانچ ارب ڈالر کمائے جاسکتے ہیں، ایوب خان سے لے کرآج تک چینی کی قیمت مسئلہ بنی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی پالیسی بنائی جائیں جس سے بحران نہ پیدا ہوں۔ ملک میں چینی کی قیمت مستحکم رکھنے کے لیے مڈل مین کا کردار ختم کرنا پڑے گا،اس کی وجہ سے گنے کی قیمت حکومت کی مقرر کردہ قیمت سے ڈیڑھ دو گنا تک بڑھ جاتی ہے۔
نقدکی منڈی لگ جاتی ہے اورگھنٹوں کے حساب سے قیمت بڑھتی ہے، تمام ادائیگی بنک کے ذریعے اصل کاشت کار کو کی جائے۔ نقد دینا بند کیا جائے، قیمت قابو میں رکھنے کے لیے کرشنگ سیزن کا آغاز اس وقت کیا جائے جب گنا مکمل تیار ہو، جلدی چلانے سے پیداوار خاصی کم ہوجاتی ہے، شوگر انڈسٹری کے چار اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ کاشت کار،مل مالکان، حکومت اور صارفین سب کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں صرف ایک مرتبہ قومی شوگر پالیسی پیپلزپارٹی کے سابقہ دور میں بنائی گئی جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز بھی متفق تھے۔
سید محمد شفاعت زیدی
پاکستان کے عوام بلند ترین افراط زر کا شکار ہیں، یہ صورت حال نئی نہیں ہے کئی برسوں سے ہے اور اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، خوراک کی اشیاء میں بلند افراط زر تشویش ناک ہے جو ملک میں غربت میں کی شرح میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے، چینی ہی کو لیجئے گذشتہ برس چینی کی قیمت 135 روپے فی کلو تک پہنچی تھی، چینی کی قلت بھی پیدا ہوئی جس کے سبب چینی درآمد کرنی پڑی، سابقہ حکومت شدید تنقید کا نشانہ بنی، اس وقت بھی چینی 95 روپے فی کلو فروخت کی جا رہی ہے، مہنگی چینی کی وجوہ کیا ہیں، شوگر انڈسٹری کو کیا مسائل درپیش ہیں، گنے اور چینی کی پیداوار اور اس کی لاگت کی صورت حال کیا ہے، آئندہ کیا رہے گی اور اس کے اثرات قیمتوں پر کیا پڑیں گے، پاکستان کو چینی کیوں امپورٹ کرنی پڑی تھی، اس کے منفی اثرات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں کمی کے امکانات کیا ہیں حکومت کا کردار کیا ہونا چاہیے، مستقبل میں چینی کی قیمت کیا رہے گی، کیا حکومت اضافی چینی برآمد کرنے کی اجازت دے گی، حکومت کی شوگر پالیسی کیا ہے یا کیا ہونی چاہیے، یہ سب جاننے کے لئے جنگ فورم نے "چینی، پیداوار، طلب و رسد، قیمت اور پالیسی" کے موضوع پر ٹیلی فونک فورم کا اہتمام کیا، جس میں چوہدری محمدذکا اشرف(چیئرمین ،پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب) اورسید محمد شفاعت زیدی (سابق صدر، پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنولوجسٹ) نے اظہار خیال کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
سید محمد شفاعت زیدی
(سابق صدر، پاکستان سوسائٹی آف شوگر ٹیکنولوجسٹ)
قیام پاکستان کے وقت جوتھوڑی بہت ملکی معیشت تھی وہ مکمل زرعی تھی، ضرورت کی اکثر چیزیں جس میں اشیا خوردو نوش بھی شامل تھی اس کابھی انحصاردرآمدپر تھا۔ ابتدائی دور میں ہمارے یہاں چینی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ملک میں شکرکی صرف دو چھوٹی چھوٹی ملیں تھیں،جن کی 1947-48 میں پیداوارصرف آٹھ ہزارایک سو نوٹن تھی،،آہستہ آہستہ پھر صنعتی منصوبے بننا شروع ہوئے، زراعت میں تیزی آنے لگی،جس کے ساتھ گنے کی کاشت بھی بڑھنے لگی تو ملک میں شکر کے کارخانے قائم ہونا شروع ہوئے،1958 میں شکرکے ملوں کی تعداد چھ اور پیداوار ایک لاکھ 28ہزار ٹن ہوگئی تھی۔1981 اور 1982میں ملوں کی تعداد 35 اور پیداوار13لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ،1994،95 میں ملوں کی تعدا 68ہوگئی تھی ۔دوہزار سات آٹھ میں تعداد 77ہوگئی تھی۔
شوگر انڈسٹری پاکستان کی دوسری سب سے بڑی انڈسٹری ہے، جو لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کررہی ہے۔GDP اور محصولات میں اس کا کردار نمایاں ہے۔500 ارب روپے سے زائد کاشت کاروں کو ادا کرتی ہے۔ ملک کے پس ماندہ اور غیر ترقیاتی یافتہ علاقوں کی ترقی میں اس کا کرداربہت ہ نمایاں ہےجب کہ بینکوں اور کاشت کاروں کی بڑی آمدنی کابھی ذریعہ ہے۔ ہمارے یہاں گوشت، دالیں ،سبزیاں، دودھ ،انڈے گندم ،آٹا ،چاول ،خوردنی تیل،گڑ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گھٹنا بڑھنا لگا رہتا ہے۔پاکستان ایک غریب ملک ہے ،بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔
ہم سب کو مل جل کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی،اور کوویڈ19 نے حالات کو مجموعی طور پر مزید خراب کردیا ہے۔ ہمیں آج کل چینی کی بڑھتی قیمتوں پرمختلف آرا اور تبصرے سننے کو ملتے ہیں، قیمتوں کا اتار چڑھاو معمول کی بات ہے ،رسد اور طلب کا اصول یہاں پر بھی لاگو ہوتاہے۔2010.11 میں چینی کی قیمت 78 روپے تک ہوگئی تھی،سال کی اوسطاً خوردہ قیمت قریبا 73روپے تھی ، اس دوران کمی بیشی بھی ہوتی رہی۔
مقامی اور بین الاقوامی قیمت اور پیداوار بڑھ جائے آپ کے گودام بھرجائیں اور برآمدات کی بروقت اجازت نہیں دی جائے ،جب کہ آپ کوکاشت کاروں کوقیمت ادا کرنے کا دباو ہو تو نقصان میں بھی سودے کرنے پڑتے ہیں ۔ہمیں چینی کی قیمت بڑھنے کی وجوہات پر غور کرنا ہوگا۔ جب حکومت گنے کی کم از کم قیمت نافذ کرتی ہے تو پھر چینی کی بھی کم سے کم قیمت مقررکرنی چاہیے۔
پاکستان میں چینی کا گھریلو استعمال 25سے26فیصد کے لگ بھگ ہے جب کہ 74سے75فیصد تجارتی طور پر استعمال ہوتی ہے ۔چھ افراد پر مشتمل گھرانے میں چینی کا اوسطاً ماہانہ خرچ 4کلو ہے ،اب آپ چارکلو کا اثر دیکھ لیں اور موازنہ کرلیں۔ حکومت ہو یا انڈسٹری یا عوام غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، الزام کی سیاست سے کام نہیں چلے گا۔ سب کو مل کر اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کام کرنا ہوگا۔ گھریلو صارفین کو یوٹیلٹی اسٹورزکے ذریعہ کم قیمت پر چینی فراہم کی جاسکتی ہے۔
کہنے کو توہم زرعی ملک ہیں ،مگر 2004.05 سے کپاس کی پیداوار مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ دوہزار چار میں ہماری تاریخ کی بلند ترین پیداوار 14.265ملین بیلز ہوئی تھیں ۔2016-17 چینی کی پیداوار7ملین ٹن رہی، 2017-18میں6.5 ملین ٹن سے زائدتھی۔ لیکن پھر گرگئی اوراب دوبارہ درآمد کرنا پڑرہی ہے۔ ہم گند م بھی برآمد کررہے تھے اب اپنی ضرورت پورا کرنے کے لیے درآمد کرنا پڑرہی ہے۔ خوردنی تیل تو ہمیشہ سے ہی درآمد کرنا پڑتا ہے۔اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے ،ہمیں اپنی درآمدات کو کم کرنے کےلیے امپورٹ سب سٹی چیو شن انڈسٹریز لگانا ہوگی، برآمدات بڑھانا ہوں گی، برآمدات بڑھانے کے لیے سبسڈی دینا کوئی جرم نہیں ۔مقامی صنعت کو ٹیرف کے ذریعے تحفظ مہیا کیا جاتا ہے۔
درآمدات کی حوصلہ شکنی کےلیے اپنے صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ ان شعبوں میں پیداواری بہتری کے لیے تعمیر ی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ پاکستان اگر اپنی شوگر انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کرے تو چینی اور ایتھانل کی برآمدات سے چار سے پانچ ارب ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔ قیمتوں کا اتار چڑھاو دنیا بھر میں معمول کی بات ہے،بات گھوم پھر کر پھر طلب اور ڈیمانڈ پر آجاتی ہے ،دنیا بھر میں ہوتا ہے کہ کبھی قیمتیں گرتی ہیں تو کبھی ناقابل یقین اضافہ دیکھا جاتا ہے۔
جب بڑھتی ہیں تو صارف چلاتا ہےاور جب قیمت گرتی ہے تویہ صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ پھر وہ اپنی بقا کی ہرممکن کوشش کرتی ہے ۔آپ جائزہ لیں کہ 2007.08 میں چینی کی خوردہ قیمت 28روپے فی کلو سے بھی کم تھی۔ جو اگلے برس 37 سے 45 روپے میں اور دوہزار نو اور دس میں 56 روپے اور دو ہزار دس ،گیارہ میں 72روپے تھی۔ پھر قیمتیں گرنے کا رحجان شروع ہوا۔ پھر اگلے تین سال دوہزار گیارہ سے 2014تک قیمتیں مستحکم رہیں اور دوہزار 14 کے بعد پھر بڑھنے لگیں۔
2014.15 سے2016.17 میں چینی کو قیمتوں میں پھر اضافہ دیکھا گیا،ان برسوں میں قیمتیں 57.14 سے بڑھ کر اور 64.95 روپے تک فروخت ہورہی تھی پھر گنے کی کاشت میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور دوسری طرف عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی ،جس کے بعد دوہزار سترہ اٹھارہ میں چینی کی قیمت53.70 رہی۔2018 سے 2020میں گنے کے زیرکاشت رقبے میں شدید کمی کے باعث چینی کی پیداوار میں خاصی کمی ہوگئی گئی تھی۔
تو پھرچینی کی قیمت بڑھ کر 59.84 سے 75.89 فی کلو ہوگئی تھی۔ اگر چہ دوہزار بیس اکیس میں گنے کے زیرکاشت رقبے میں اضافہ دیکھنے میں آیا مگر گنے کی قیمت میں مڈل مین کی مہربانی سے بے تحاشا اضافہ ہوگیا اور چینی فی کلو 95روپے ہوگئی جس کے بعد سے قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ دوہزار دس اور دوہزار گیارہ کی مقامی اور عالمی اور پڑوسی ملکوں بھارت بنگلہ دیش سری لنکا اور افغانستان کا سرسری جائزہ لیں توآپ کو اندازہ ہوجائے گا قیمتوں کے اتار چڑھاو کا شوگرملز اور پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن پرمسابقتی کمیشن اور پاکستان کا فیصلہ حیران کن ہے۔ اس فیصلے سے شوگر انڈسٹری میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔
مارکیٹ میں جب کبھی چینی کی قیمتوں میں اتارچڑھاو آتا ہے۔ تو اسے مافیا کی کارروائی قرار دیتا ہے ،یہ لفظ اب بہت زیادہ استعمال ہورہا ہے۔ یہ الزام ان لوگوں کے لیے بہت تکلیف دہ ہے جن کا قیمتوں کے گھٹنے بڑھنے میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے سب کو برا بھلا کہنا مناسب نہیں۔ ہماری یہاں قوانین اور عدالتیں اپنا کام کررہی ہیں جس پر ناجائز کام کرنے کا شبہ ہے اسے قانون کے حوالے کریں اور سزائیں دیں،مگر سب کو ایک لاٹھی سے نہ ہانکیں۔
چینی کا بحران اگرکبھی دوبارہ سامنے آیاتو وہ کوئی نیا نہیں ہوگا۔ ایوب خان سے لے کرآج تک چینی کی قیمت مسئلہ بنی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی پالیسی بنائی جائیں جس سے بحران نہ پیدا ہوں۔ اس وقت شوگر انڈسٹری کی پیداواری لاگت سے کم پر چینی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔2ملین ٹن سرپلس ہونے کے باوجودبرآمد کی اجازت نہ دینا ناانصافی ہے۔جب کہ کوئی سبسڈی دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت مناسب ہے۔
ملک میں چینی کی قیمت مستحکم رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر کئی اقدامات میں سے پہلے مڈل مین کا کردار ختم کرنا پڑے گا،اسے فارغ کریں۔کئی دفعہ قیمتوں کے بے تحاشا اضافے میں بنیادی کردار اس کا ہی ہوتا ہےاس کی وجہ سے گنے کی قیمت حکومت کی مقررکردہ قیمت سے ڈیڑھ دو گنا تک بڑھ جاتی ہے ۔نقد کی منڈی لگ جاتی ہے اور گھنٹوں کے حساب سے قیمت بڑھتی ہے۔ غریب کاشت کارفوری ادائی پر خوش ہوتا ہے۔ اسے غرض نہیں ہوتی کہ مڈل مین نے کتنا منافع رکھا۔اس لیے حکومت مڈل مین کو پوری قوت سے ختم کرے اورگنا صرف زمین کے اصل مالک کے نام پر یا جس نے گنے کی کاشت کی اس کے نام پر شوگر ملز کو براہ راست فراہم کیا جائے۔
تمام ادائیگی بنک کے ذریعے اصل کاشت کار کو کی جائے۔ نقد دینا بند کیاجائے کیوں کہ مڈل مین قیمت بڑھانے کے لیے مل بند کرانے کی دھمکی بھی دیتا ہے۔آج کل شوگر ملز کے سیزن کی مدت 100سے120دن ہے ،چینی اسی دوران تیار ہوئی ہے اور سا ل کے بارہ مہینے فروخت ہوتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ گنے کی قیمت بذریعہ بنک کی جائے ،بینک شوگرملز کو مناسب حدجاری کریں کیوں کہ بوجھ آخر کار صارفین کو ہی اداکرنا ہے۔ یہ ادائیگی ہفتے دو ہفتے میں کی جاسکتی ہیں جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے۔
قیمت قابو میں رکھنے کے لیے کرشنگ سیزن کا آغاز اس وقت کیا جائے جب گنا مکمل تیار ہو، جلدی چلانے سے پیداوار خاصی کم ہوجاتی ہے جو بڑا نقصان ہے اور قیمت میں اضافے کا باعث بھی ہے۔جب آپ بلند شرح منافع پر ورکنگ کیپٹل لیں گےغیر مناسب سیلزٹیکس ادا کریں گے تو لامحالہ اس کابھی اثر چینی کی قیمت پر پڑے گا،اور وہ تمام بوجھ صارف پر ہی پڑے گا۔
گنا جب کھیت سے براہ راست مل میں آتا ہے تو مارکیٹ کمیٹی فیس سمجھ نہیں آتی ،یہ بلاوجہ کا غنڈہ ٹیکس ہےاس کے خاتمہ کیا جائے، اس بچت کا فائدہ صارف کو ملے گا۔ گنے کی قیمت اس کے معیار پر طے کی جائے ،موجودہ نظام میں وزن کے مطابق ہر زمین دار کو گنے کی یکساں قیمت ملتی ہے۔لہذا بہتر گنے کی پیداوار میں کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی۔ اگر اچھی گنے کی بنیاد پر پیسے دیے جائیں گے تو غیر معیاری مال دینے والے سپلائر کو کم پیسے ملیں گے ۔جس سے خراب یا غیر معیاری گنا خود بہ خود ختم ہوجائےگا۔اور چینی کی فی ایکٹر پیداوار میں بہتر اضافہ دیکھنے میں آئے گا جو قیمت میں کمی کا باعث ہوگا۔
شوگر انڈسٹری کے چار اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ کاشت کار،مل مالکان،حکومت اور صارفین سب کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے ،ایک مثالی معاشرے میں انصاف کو اہمیت دینی پڑتی ہے ،کسی ایک کو ناجائزفائدہ دینے کا مقصد دیگر تین کی حق تلفی ہے۔جب سے ڈی زوننگ ہوئی ہے انڈسٹری اور زمین دار کے درمیان عدم اعتماد کی کیفیت ہے۔زوننگ میں ہر مل اپنے نزدیک ترین علاقے سے گنا اٹھاتی تھی جس سے ٹرانسپورٹ اخراجات کم رہتے تھے۔
زمین دار خود مل میں گنا پہنچاتا تھا، اب دور دور سے گنا مل میں آتا ہے، ٹرانسپورٹ کے اخراجات سےگنا مل کو مہنگا پڑرہا ہے جو بلاوجہ کااضافی خرچ ہے، سفری اخراجات اپنی جگہ لیکن ایندھن کا بلاوجہ استعمال بھی ہورہا ہے ،ہمارا زرمبادلہ ضائع ہورہا ہے ۔کم فاصلے سے ملنے والا گنا تازہ ہوتا ہے جس سے چینی زیادہ حاصل ہوتی ہے جس کا سب کوفائدہ ہے۔
اگر ہم شوگر انڈسٹری کی تاریخ اور اس پر کسی سرکاری پالیسی کے حوالے سے جائزہ لیں تو آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں صرف ایک مرتبہ قومی شوگر پالیسی 2008.09 میں بنائی گئی جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز بھی متفق تھے۔ پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں وفاقی وزیرپیداوارمیر ہزار خان بجارانی (مرحوم) نے اس پر بہت محنت کی تھی لیکن افسوس اس پر آج تک عمل نہیں ہوا ہے۔ شاید اس کی وجہ اٹھارویں ترمیم ہو۔
دسمبر2021 میں حماد اظہر کی سربراہی میں شوگر ریفارمز کمیٹی رپورٹ بنی تھی، اس میں مذکورہ بالا رپورٹ کو شامل کیا گیا تھا،دونوں رپورٹ بہت اچھی ہیں مگر عمل کون کرائے یہ ایک بڑا سوال ہے۔ویسے تو 2001 میں بھی گنے کی ادائی کے حوالے سےPSST نے لوزیانہ کی طرز پرایک آسان فارمولا حکومت کو دیا تھا جس پر معمولی ردو بدل سے بااسانی عمل کیا جاسکتا تھا۔ مذکورہ بالارونوں رپورٹیں اور لوزیانہ والا فارمولا شوگر انڈسٹری اور کاشت کاروں کے مسائل کا حل ہے۔
ایک دوسرے کو الزام دینے سے کام نہیں چلے گا انڈسٹری اور زمین دار کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جوباہمی اعتماد کی فضا قائم کرے۔ اس وقت ہمیں چاروں اسٹیک ہولڈرزیعنی کاشت کاروں، شوگر انڈسٹری،حکومت اور کنزیومرز کے مفادات کا پوری طرح تحفظ کرنا ہوگا۔ کسی ایک کے ساتھ زیادتی سب کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہذا ہم سب کو اپنے فرائض ایمان داری سے ادا کرنا ہوں گے اس طرح ملک اور انڈسٹری سکون کے ساتھ خوش حالی کی راہ پرگامزن ہوسکتی ہے اور بلاوجہ کے جھنجھٹ سے حکومت کی جان بھی چھوٹ جائےگی ۔
چوہدری محمدذکا اشرف
(چیئرمین ،پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب)
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ جب تک 10 لاکھ ٹن چینی کی برآمد کی اجازت نہیں ملتی شوگر ملیں نہیں چلائیں گے، چینی برآمد ہونے سے کوئی مشکل ہوئی تو حکومت سے تعاون کریں گے۔ ہمیں توقع ہے حکومت اس شرط پر چینی برآمد کرنے اجازت دے دیگی کہ ملک میں چینی کی قلت پیدا نہ ہو۔30 نومبر تک کرشنگ سیزن شروع کرنا لازم ہے لیکن شوگر ملز کے پاس پہلے ہی چینی کا فاضل اسٹاک 10 لاکھ ٹن سے زائد موجود ہے جو 15 جنوری تک چینی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ہم نے شوگر ملز چیرٹی کے لئے نہیں لگائیں، کاروبار کر رہے ہیں۔ چینی سستی دینے کےلیے سیلز ٹیکس ختم کیا جائے۔
ڈالر، آٹا، دالیں مہنگی ہو چکی ہیں، چینی پرانے ریٹ پر ہی فروخت ہو رہی ہے۔گزشتہ برسوں سے حکومت پنجاب نے بلاشبہ گنے کی امدادی قیمت میں 75روپے فی من اضافہ کیا ہے مگر پنجاب میں شوگر ملز مالکان کی حکومت سے درخواست ہے کہ ملک میں چینی کا دس لاکھ ٹن فاضل سٹاک برآمد کرنے کی اجازت دے تاکہ اس برآمد سے وہ کاشتکاروں سے نئی فصل کا گنا خریدنے کے قابل ہو سکیں۔ اگر دس لاکھ ٹن چینی برآمد ہو جائے تو سب کو فائدہ ہو گا۔بینکوں میں رہن رکھی گئی چینی کی یک دم فروخت میں شوگر مارکیٹ کریش کر جائے گی۔
پنجاب شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن نے بتایا ہے کہ ہمارا ہمسایہ بھارت پچھلے چار سال سے چینی کی برآمد پر سبسڈی شوگر انڈسٹری کو دے رہا ہے۔ 20اکتوبر کو بھارت نے 6ملین ٹن فاضل چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جس سے وہ زرمبادلہ زیادہ کما رہا ہے۔ وفاقی حکومت بھی دس لاکھ ٹن فاضل چینی برآمد کرکے زرمبادلہ کما سکتی ہے۔ حکومت ملکی چینی کی ضروریات کا بغور جائزہ لے کر برآمد کی جتنی جلدی اجازت دے گی اتنا ہی شوگر ملز مالکان اپنے منافع کم کرکے کرشنگ سیزن شروع کر سکتے ہیں‘ اس سے کسان کو ادائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔
شوگر انڈسٹری کوکوئی مسائل درپیش ہیں، پاکستان کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے چینی بنانے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ ملکی سطح پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بعد شوگر سیکڑ کاشمار دوسری بڑی زرعی صنعت کے طور پر ہوتا ہے جو کہ مجموعی داخلی پیداوارمیں 1.1 فیصد کے حساب سے اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ شوگر انڈسٹری 15 لاکھ لوگوں کو براہ راست اور 90 لاکھ لوگوں کو بلاواسطہ نوکریاں فراہم کر رہی ہے۔ شوگر انڈسٹری کی بدولت اس سے جڑے مختلف سیکٹرز زراعت، ٹرانسپورٹ، ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹس 800 سے 1000 اَرب روپے تک کا روبار کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ شوگر انڈسٹری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو 125 اَرب روپے تک کے براہ راست اور بلاواسطہ ریوونیو ادا کرتی ہے۔ ملکی سطح پر بنائی گئی چینی پاکستان بھر کی ضروریات پوری کرتی ہے اور ملک کو 8 ارب ڈالر تک کی درآمدات کی مد میں بچت بھی ہوتی ہے۔ شوگر انڈسٹری ملکی ضروریات کے بعد اضافی چینی اور اس کی ذیلی مصنوعات کو برآمد کر کے ملکی خزانے میں کثیر غیر ملکی زرِمبادلہ جمع کرواتی ہے۔
مگر اس سب کے باوجود پاکستان کی شوگر انڈسٹری کو سخت قوانین کا سامنا رہا ہے جو کہ آزاد تجارت وکاروباراور آئینِ پاکستان کے منافی ہے۔ یہ شوگر قوانین اس وقت کے حالات کو مدِنظر رکھ کر بنائے گئے تھے جب حکومت یہ یقین دہانی کروایا کرتی تھی کہ گنے کی مطلوبہ مقدار کی سپلائی شوگر ملوں کو بغیر کسی تعطل کے جاری ہے۔ اس کے بعد حکومت تما م چینی خریدکر راشن ڈپووں کے ذریعے فروخت کیا کرتی تھی۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنے 8 اپریل ، 2021 کے پالیسی نوٹ کے ذریعے یہ تجویز کیا تھا کہ شوگر سیکٹر کو ڈی۔ ریگولیٹ کیا جائے تا کہ اس کا براہِ راست فائدہ عوام تک پہنچایا جا سکے۔
گنے کی پیداواری صورتحال کا اگر جائزہ لیں تو پاکستان اقتصادی سروے22-2021 کے مطابق کماد کی بمپر فصل 88.651 ملین میٹرک ٹن کا ٹارگٹ حاصل کیا گیا جو کہ پچھلے سال سے تقریباََ 8.2 فیصد زیادہ تھا۔ جبکہ 23-2022 میں گنا 23 لاکھ، 18 ہزار ایکٹر رقبے پر کاشت کیا گیا جو کہ پچھلے سال سے تقریباََ 8.0 فیصد زیادہ ہے۔
چینی کی پیداوار اور اسکی لاگت کی صورتحال کو دیکھیں توپاکستان اقتصادی سروے22-2021 کے مطابق8 ملین میٹرک ٹن چینی بنائی گئی جس کی تصدیق ایف۔بی ۔آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے بھی کی گئی۔ جبکہ پاکستان میں چینی کا گھریلو سطح پر استعمال 23-2022 کے دوران 6.8 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔ اس فرق کو نکال کر 1.2 ملین میٹرک ٹن کا سرپلس اسٹاک اگلے کرشنگ سیزن (2022) کے آغاز سے قبل ملک بھر میں موجود ہو گا۔
گزشتہ برسوں سےچینی کی قیمتوں میں اضافہ کی کئی وجوہ تھیں اور ہیں۔حکومت شوگر انڈسٹری کو آزادانہ طور پر کاروبار نہیں کرنے دیتی اور ہر فیصلہ خود کرتی ہے لیکن جب قیمت بڑھتی ہے تو الزام شوگر انڈسٹری پر لگا دیا جاتا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اضا فے کے پیچھے مختلف عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں گنے کی قیمت، لیبر کی اجرت، مختلف اقسام کے ٹیکسز اور اسٹاف کی تنخواہیں وغیرہ شامل ہیں۔ چینی کی قیمت میں اضافے کا تعلق براہِ راست گنے کی پیداواری لاگت اور قیمت خرید کے اضافے سے منسلک ہے۔ گنے کی قیمت بڑھے گی تو چینی کی قیمت بھی بڑھے گی۔
پاکستان میں چینی درآمدکرنا پڑ رہی ہے۔جس کے متعدد منفی اثرات ہیں ،ہم اس سے بچ سکتے ہیں۔پاکستان اقتصادی سروے22-2021 کے مطابق8 ملین میٹرک ٹن چینی بنائی گئی جس کی تصدیق ایف۔بی ۔آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے بھی کی گئی۔ جبکہ پاکستان میں چینی کا استعمال 23-2022 کے دوران 6.8 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا ہے۔ اس فرق کو نکال کر 1.2 ملین میٹرک ٹن کا سرپلس اسٹاک اگلے کرشنگ سیزن (2022) کے آغاز سے قبل ملک بھر میں موجود ہو گا۔ اگر اس سرپلس اسٹاک کو برآمد نہ کیا گیا تو یہ شوگر انڈسٹری کےلیے سنگین مالی بحران پیدا کر دے گا۔
بھارت نے 60 لاکھ ٹن چینی برآمد کی ہے اور باقی چینی بنانے والے ممالک بھی اپنی ضروریات کے بعد اضافی برآمد کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں آزاد تجارت کو فروغ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اس کی حوصلہ اٖفزائی کی جاتی ہے۔ جب حکومت بروقت اضافی چینی کو برآمد کرنے کی اجازت نہیں دیتی تو اس کا اثر کرشنگ سیزن پر پڑتا ہے اور پھر تاخیر ہوتی ہے جس سے دل برداشتہ ہو کر کسان دوسری فصلوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے اور گنے کی فصل بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ جب گنا مطلوبہ مقدار میں شوگر ملوں کے پاس نہیں پہنچ پائے گا تو وہ ملکی ضروریات کے مطابق چینی بنانے سے قاصر ہوں گے حکومت کو مجبوراََ چینی درآمد کرنی پڑے اور اس کی لاگت 8 ارب ڈالر ہو گی۔
پاکستان میں چینی کی قیمت قابو میں رہیں اس کے کافی امکانات ہیں۔ لیکن حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا،جب حکومت شوگر انڈسٹری کو آزادانہ طور پر کاروبار کرنے دے گی اور کوئی قدغن نہیں لگائے گی تو مارکیٹ میں مقابلے کی فضا قائم بنے گی جس سے چینی کی قیمتیں کم ہوں گی۔ وفاقی حکومت نے بارہا سینئر لیول کے اجلاسوں میں اس نکتہ پر اتفاق کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اور چار دیگر متعلقہ وفاقی وزرا نے 9 نومبر، 2021 کی میٹنگ میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ساتھ اتفاق کیا کہ شوگر سیکٹر کو حکومتی پابندیوں سے آزاد کیا جائے گا۔
مستقبل میں چینی کی قیمت کیسے قابو میں رہے اس کے لیے یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہےچینی کی قیمت کا دارومدار براہِ راست گنے کی قیمت سے جڑا ہو تا ہے۔ چینی کی پیداواری لاگت کا 80 فیصد گنے کی قیمت پر مشتمل ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے چینی کے ایکس مل ریٹ کا تعین کرنا شروع کیا ہے لیکن کسان اور شوگر انڈسٹری اپنی لاگت جو کہ 90 روپے ہے سے کم پر چینی بیچنے پر مجبور ہے۔ اس طرح انڈسٹری مخالف پالیسیوں کی وجہ سے دونوں کو اپنی پیداوار کے انٹرنیشنل ریٹ نہیں ملتے۔
جبکہ دوسری فصلات مثلاََ چاول، کپاس، اور مکئی کیلئے ایسا نہیں ہے۔ پچھلے سال میں ملکی ضروریات کے مقابلے میں کسانوں اور شوگر انڈسٹری نے دو ملین میٹرک ٹن اضافی چینی پیدا کی لیکن حکومت برآمد کی اجازت نہ دے کر ایک بلین ڈالر کا ملکی اور زرعی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اگلے کرشنگ سیزن میں پھر اتنی ہی اضافی چینی پیدا ہوگی۔ شوگر انڈسٹری کے پاس پہلے سے اضافی چینی ہونے کی وجہ سے انڈسٹری نیا کرشنگ سیزن شروع نہ کر سکے گی۔