جرمنی کی ڈائری۔۔۔ سیّد اقبال حیدر
جرمنی کے شہر کولون کے مشہور ’’لوٹا پب‘‘پچھلی 3دہائیوں سے اپنے گاہکوں کو اپنے پب میں فٹ بال دکھانے میں خاص شہرت رکھتا ہے پینے پلانے کے ساتھ شائقین ِفٹ بال وہاں اپنے حلقۂ احباب کے ساتھ خوب شور شرابے کی گونج میں وہاں لگی اسکرین پر فٹ بال دیکھتے ہیں،اسی ’’لوٹا پب‘‘ نے 1930سے شروع ہونے والا قطر میں23واں فیفا فٹ بال ورلڈ کپ یہ کہہ کر دکھانے سے انکار کر دیا کہ وہ اس بائیکاٹ سے قطرکی انسانی حقوق کے خلاف پالیسیوں کے خلاف عملی مثال قائم کر رہے ہیں ،مغربی میڈیا لوٹا پب کے اس اقدام کی پزیرائی کرتے ہوئے اسے مثبت اقدام کے پیرائے میںپیش کر رہا ہے،مزے کی بات یہ ہے کہ بپ کو گرم رکھنے کے لئے’’ قطری گیس‘‘ سے خوب استفادہ ہو رہا ہے مگر قطر میں ہونے والے فٹبال کا بائیکاٹ ہے،یہی کچھ حال کچھ جرمن وزراء کا بھی ہے جنہوں نے قطری حکومت پر یہ کہہ کر کڑی تنقید کہ قطری عالیشان اسٹیڈیم کی دیواریں بے گناہ مزدوروں کی کم قیمت محنت اور خون سے رنگین ہیں بلخصوص جرمن وزیر داخلہ نینسی فائیزر نے قطر میںبنے سٹیڈیم کی تعمیری پالیسیوں پر کڑی نقطہ چینی کی اور مزید کہا کہ جس سرزمین پر ہم جنس پرستی کی اجازت نہیں ہے، وہاں فٹ بال کا ورلڈ کپ نہیں ہونا چاہیے۔قطر میں ہم جنس پرستی پر پابندی سے جرمنی ہی نہیں پورے مغرب کو سخت تکلیف ہوئی جبکہ جرمنی میں جرمن بشپ نے حال ہی میں ہم جنس پرستوں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ وہ چرچ میں ہم جنسی میں مبتلا اپنے چرچ کے ملازموں کو ان کے روزگار کا تحفظ دیں گے اسی پیشِ نظر چند دن پہلے جرمن لیبر قوانین میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ہم اگر جرمنی کے صنعتی نظام کا بغور جائیزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ غیرقانونی سستی مزدوری ہوٹلز، ریسٹورنٹ، تعمیراتی پراجیکٹس ہر جگہ غیر قانونی سستی لیبر کا دستیاب ہے،کرونا کے دنوں میں کھیتوں کے مزدوروں سے لیکر گوشت کے ذبح خانوں میں پولینڈ اور ایسٹ یورپ کے ممالک سے ہزاروں سستے مزدوروں کی غیرقانونی آمد و رفت کا انکشاف ہوا تھا جس سے جرمن حلقوں نے اپنی ہی حکومت پر سخت تنقید کی تھی۔مغرب کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ پوری دنیا ان کے خیالات و عقائید کی پیروی کرے مگردنیا میں ہونے ’’23ویں ورلڈ کپ‘‘ میں قطری حکومت نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والے اس چند روزہ ورلڈ کپ کے لئے اپنی ہزروں سالہ عربی و اسلامی تہذیب تمدن کو قربان نہیں کریں گے وہ اپنے ملک میں آئے مہمانوں کا خلوص ِ دل سے اسلامی روایات کی روشنی میں استقبال کریں گے ان کا ہر طرح خیال رکھیں گے لیکن اپنی ثقافت، کلچر اور دینی اقدار کی بھی حفاظت کریں گے، قطری حکام نے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عربی ثقافت سے دنیا بھر کو متعار ف کرایا ورلڈ کپ کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کر کے اسٹیڈیم میں روح پرور ماحول پیدا کر دیا،جہاں اس ورلڈ کپ کے شرکاء کے لئے جدید طرز کے آرام دہ ہوٹلز کی تعمیر ہوئی،وہاں سنت نبوی اور دینی فریضہ سمجھتے ہوئے دنیا بھر سے آئے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو احسن انداز میں اسلامی اقدار سے روشناسی کا اہتمام کیا، فٹ بال کے شائقین کو دعوت اسلام دینے کے لئے مختلف زبانوں پر عبور رکھنے والے2ہزار با اخلاق پڑھے لکھے افراد کو خصوصی تربیت دی گئی جنہوں نے ورلڈ کپ میں آئے مہمانوں کو دلکش مسکراہٹوں کے ساتھ پیغام حق دیا،اسٹیڈیم،ہوٹلز شاہراہوں پر احادیث نبوی اس خوبصورت انداز میں لکھیں گئیں جو ہر گزرنے والے کی توجہ کا مرکز بن گئیں، قطری وزارت اوقاف نے اسلامی اسکالرز کی مدد سے ’’دعوت اسلام‘‘ کے لئے انگلش،فرینچ،روسی اطالوی،پرتگالی اور جرمن زبان میں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں چھاپیں اور سٹیڈیم میں آنے والے تماشائیوں میں مفت تقسیم کیں۔ قطری حکومت نے اس ورلڈ کپ میں پیسہ پانی کی طرح بہا کر اسے دنیا کا مہنگا ترین مثالی ورلڈ بنانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو دعوت اسلام بھی دی،کاش ہماری دیگر اسلامی حکومتیں بھی اس سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے مذہب ،ثقافت اوراسلامی روایات کو مغربی ممالک کی خوشنودی کے لئے قربان کرنے سے باز رہیں۔