• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارشد شریف قتل کیس، پولیس کی تحقیقاتی ٹیم مسترد، خصوصی JIT تشکیل دی جائے، سپریم کورٹ کا حکم

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس کے حوالے سے حکومتی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے (آج) جمعراتق تک نئی اسپیشل جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی ، پولیس،آئی بی اور ایف آئی اے نمائندے شامل کریں، تفتیش سینئر اور آزاد افسران سے کرائی جائے، جے آئی ٹی ارکان معاملہ فہم، شواہد لانے کے ماہر ہوں، باہر سے معاونت کیلئے وزارت خارجہ مدد کرے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے، مقتول کے اہل خانہ سے تمام معلومات شیئر کی جائیں، بہیمانہ قتل کے اصل شواہد کینیا میں ملیں گے، انکے حکام کے سامنے معاملہ اٹھانا ہوگا۔ سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ارشد شریف کی والدہ کا مؤقف بھی سنیں گے، جس پر صحافی حسن ایوب روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ سپریم کورٹ میں ارشد شریف کی والدہ کو لانے کیلئے لفٹ نہیں تھی، پولیس نے ارشد شریف کے اہلخانہ سے درست رویہ نہیں اپنایا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ عدالت کو پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ رپورٹ ارشد شریف کے اہلخانہ کو بھی فراہم کر دی گئی ہے، دفتر خارجہ ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے ہر حد تک معاونت کر رہا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ مبینہ شوٹر کینین پولیس کا رکن ہے یا نہیں؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کینین پولیس کے 3 اہلکاروں کے انٹرویو رپورٹ میں شامل کیوں نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کینیا کے حکام سے تحقیقاتی ٹیم نے معلومات حاصل کیں، فائرنگ کرنے والے 3 اہلکاروں سے ٹیم کی ملاقات کرائی گئی، چوتھے اہلکارکے زخمی ہونے کے باعث ملاقات نہیں کرائی گئی۔عامر رحمان نے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ مبینہ طور پر فائرنگ کرنے والے کون ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے کینیا پولیس کے اہلکار ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ رات ایک بجے عدالت کو رپورٹ فراہم کی گئی ہے، ارشد شریف کا بہیمانہ قتل ہوا، ارشد شریف کے قتل کا وقوعہ کینیا میں ہے، ان سے تعاون لیا جائے، کیا رپورٹ تحریرکرنے والے افسران عدالت میں موجود ہیں؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں موجود ہیں۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ رپورٹ میں ذمہ داروں کا نام لکھا ہے تو ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی؟ سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے ارشد شریف قتل کی تحقیقات کیلئے قائم اسپیشل جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو فوری طور پر نئی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ عدالت چاہتی ہے آزادانہ ٹیم قتل کی تحقیقات کرے، رپورٹ میں ہے کہ دو بھائیوں میں سے ایک نے ارشد شریف کو ویزا بھیجا، ان بھائیوں میں سے ایک نے بہت عام انداز میں دوسرے کو کال پر بتایا کہ ارشدشریف کا قتل ہو گیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا کام قابل ستائش ہے جبکہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہاکہ فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کے نام تک رپورٹ میں نہیں لکھے گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ مقدمے میں کس بنیاد پر تین لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے؟

اہم خبریں سے مزید