• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہروزہ وحید

بیش تر نوجوان زندگی کے بے شمار کام سوچے سمجھے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ان کی محنت رائیگاں چلی گئی۔ وہ کسی حال میں خوش نہیں رہتے۔ یہ زندگی آپ کی اپنی ہے، اور معیار زندگی کو بہترین بنانا آپ کے فرائض میں شامل ہے۔ اپنے حالات کے ذمہ داری قبول کریں۔ جب آپ ذمہ داری قبول کرتے ہیں، تو آپ کی سوچ کا رْخ بدل جاتا ہے۔اور جب سوچ بدل جاتی ہے، تو چیزوں کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ وقت اور حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہتے۔

خود بخود ٹوٹ کے گرتی نہیں زنجیر کبھی

بدلی جاتی ہے بدلتی نہیں تقدیر کبھی

یاد رکھیں! بلند خواب، واضح مقاصد، مضبوط حوصلہ اور مسلسل جدوجہد جیسے عوامل آپ کے اندر موجود ہیں، تو آپ ایک بہتر سے بہترین انسان بننے سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ لہذا اپنا معیار زندگی بہتر بنائیں۔ بہتر سے بہترین بننے کے سفر پر روانہ ہوں اور مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کریں۔

مشہور و معروف مغربی مصنفہ ہیلن کیلر کا کہنا ہے کہ، ’’قدرت نے مجھے بہت کچھ عطا کیا ہے اور میرے پاس یہ سوچنے کے لیے وقت نہیں ہے، کہ مجھے کیا کچھ نہیں ملا!‘‘ آپ اپنی صلاحیتوں کو پہچان کر لوگوں کے لیے مفید اور دنیا میں تبدیلی کا باعث بنیں۔ کسی بھی کام کو کامیابی کے ساتھ کرنے کے لیے پر اعتماد ہونا اہم اور طاقتور محرک ہے۔ ناکامی کی ایک اہم وجہ عدم خود اعتمادی ہے، جو کامیابی اور ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہے۔ عدم خود اعتمادی میں فرد کو یقین نہیں ہوتا، کہ وہ کوئی کام کرسکے گا۔ ایسے نوجوان اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ہوتا اور وہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ عدم خود اعتمادی کی بہت سی وجوہات ہیں جیسا کہ، احساس کمتری۔ اکثر اوقات، ماضی کے ناخوشگوار واقعات احساس کمتری آپ کی ناکامیوں کا سب سے بڑا سبب منفی خیالات ہیں۔ اگر آپ مستقل شکوہ گو رہیں گے، تو آپ کی زندگی میں مزید ایسے واقعات رونما ہوں گے، جن پر آپ کو مزید رنجیدہ ہونا پڑے گا۔ 

کسی بھی کام کو ذمہ داری سے کرنا ایک اہم کارنامہ ہے، مگر یہ اس صورت میں انجام تک پہنچ سکتا ہے، جب نوجوانوں میں ذمہ داری کا احساس ہو۔ اپنے حالات کی ذمہ داری قبول کریں، پھر انہیں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ذاتی نشوونما خود کار عمل نہیں ہے، بلکہ اس کی تکمیل کے لیے محنت لازم و ملزوم ہے۔ اگر آپ وہی کچھ کریں گے جو اب تک کرتے آئے ہیں؛ تو آپ کو وہی کچھ ملے گا جو اب تک ملتا آیا ہے۔

دوسروں کو تبدیل کرنا، دوسروں کو بہتر سے بہترین بنانا، آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ لیکن خود کو بدل دینا، اپنا ظاہر اور باطن خوبصورت بنانا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس دنیا میں نہ کچھ اچھا ہے اور نہ برا۔ یہ فقط آپ کے سوچنے کا انداز ہے۔ لوگ اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں، لیکن سوچ بدلنےکےلئے تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے اُن کی زندگی بھی کامیاب نہیں ہوتی۔

آپ کے حالات آپ کاانتخاب نہیں، لیکن اپنے خیالات کو ضرور منتخب کرسکتے ہیں۔ اپنے خیالات کو بدل کر اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔ بے شمارنوجوان اپنی ناکامیوں کی وجہ حالات اور قسمت کو قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک ناکامی کی وجہ پاکستان میں وسائل کی عدم دستیابی ہے۔ لیکن اصل وجہ اپنی ذمہ داریوں سے دستبرداری ہے۔

شکوہ شکایت کو اپنی عادت نہ بنائیں، جب لوگوں میں بیٹھیں تو مایوسی کی باتوں کے بجائے امید کی روشنی پھیلائیں۔ صرف اپنے شعبے میں محدود ہو کر نہ رہ جائیں۔ دوسرے شعبوں کے لوگوں سے بھی ملیں۔ سماجی بھلائی کے کاموں میں شرکت کریں۔ رضاکارانہ کام کا موقع ملے، تو اسے بھی قبول کریں۔ اس سے نیٹ ورکنگ میں اضافہ ہو گا اور آگے بڑھنے کے مواقع ملیں گے۔

بہتر سے بہترین بننے کے لیے ذاتی مطالعہ (self study) کو روزمرہ عادات کا حصہ بنائیں۔ وقتاً فوقتاً اپنے علم میں اضافہ کریں۔ اخبارات اور رسائل کا مطالعہ بھی علم میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ علم سے شعور اور ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ کتابیں زندگی کے ہر خاص و عام مواقعوں پر رہبر بن کر رہنمائی کرتی ہیں۔ 

کامیاب لوگوں کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں۔ تحریکی لٹریچر پڑھیں۔ رویے میں تبدیلی لائیں۔ پرانی عادات کو نئی اور متاثر کن عادات میں بدلیں، اور اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھاریں۔ جو مل گیا ہے اس کے لیے شکر ادا کریں اور جو نہیں ملا، اس کے لیے جدو جہد کریں۔