میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی
مقررین :
ڈاکٹر ثمینہ خلیل ( رکن ، اکنامک ایڈوائزری کونسل وزیراعظم، پاکستان /سابق ڈائریکٹر، اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر، کراچی یونی ورسٹی)
ڈاکٹر وقار احمد (اسسٹنٹ پروفیسر،انوائر مینٹل اسٹڈیز ، کراچی یونی ورسٹی، ممبر کمیشن ، آئی یوسی این)
ڈاکٹر جنید میمن (انوائر مینٹل اکنامسٹ، آئی بی اے، کراچی)
1997 میں انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ بنا تھا اس زمانے میں منسٹری آف انوائرمنٹ تھی اب وہ تبدیل ہوکر منسٹری آف کلائمٹ چینج ہوگئی ہے،1997 سے آج تک 16پالیسیاں بنیں لیکن آپ اگر کوئی منصوبہ بنالیں اور اس پر عمل درآمد ہی نہ ہو تو اس سے تو آپ کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے، ایسےاداروں کو نہ صرف بنانے کی بلکہ ان اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی بھی بہت ضرورت ہے، جیسے این ڈی ایم اے یا اس جیسے دیگر ادارےلوگوں کو نوکری دے دی جاتی ہے لیکن جوکام کرنا ہے اس کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی تو وہ کام کیسے کریں گے یہ بڑا المیہ ہے ادارےاسی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر ثمینہ خلیل
موسمیاتی تبدیلی میں سب سے بڑا مسئلہ موسم کا غیر یقینی ہونا ہے اس سال بے تحاشا بارشیں ہوئیں لیکن اگلے سال کتنی ہوں گی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتاممکن ہے اگلے تین چار سال بارشیں ہی نہ ہوں، شہروں کا موسم متوازن رہے یعنی شدید سردی یاگرمی کو قابو میں رکھنے کے لیے اربن فاریسٹ کو بڑھایا جائے، موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لیے بڑا مسئلہ ہے لیکن ہمارے لیے ہماری بقا ہے، دوہزار بائیس کا سیلاب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے، دوہزار دس اور گیارہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا، ہمارے سمندر میں ڈیلٹا میں پانی نہیں جارہا تھا لیکن ابھی تازہ پانی گیا اب اس سے مچھلیوں کی افزائش ہوگی مینگروز کے جنگلات میں اضافہ ہوگا۔
ڈاکٹر وقار احمد
موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو چھوڑ دیں اقوام متحدہ عالمی سیکورٹی کے حوالے سے کیا کچھ کرپاتی ہے ان اداروں کے پیچھے بڑی طاقتیں اسے اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں، پاکستان کی ایریگیشن کا نظام دیکھیں پچاس سالوں میں اس کی آج تک کی قیمت 300بلین ڈالرکا سسٹم ہےاور آپ کی واٹر پالیسی دوہزاراٹھارہ میں آئی ہے، تو جب پالیسی نہیں تھی تو آپ نے یہ سسٹم کیسے بنالیا، یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ میں کام کرنے کی نیت ہونی چاہیے، سیلاب آنے پر ڈیم کی بات ہوتی ہے ڈیم کبھی بھی سیلاب روکنے کا اوزار نہیں وہ تو چھوٹے سیلاب ہی روکتے ہیں، پاکستان میں طریقہ یہ ہےکہ پہلے انفرااسٹرکچر بچانا ہے پھر بڑے زمین دار کی زمینیں محفوظ کرنی ہیں۔
ڈاکٹر جنید میمن
موسمیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا شکار پاکستان کو کہا جارہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کیا ہے ،موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کو اور پاکستان کو کیا خطرات لاحق ہیں اس حوالےسے دنیا کی کیا ذمہ داری ہے اسے کیا کرنا چاہیے پاکستان کی کیا ذمہ داری ہے اسے کیا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی لائحہ عمل نہیں بنا ہے تو کیا اقدامات کرنا چاہیے۔ اس موضوع پر بات کریں گے، وزارت ماحولیات کی کارکردگی بھی دیکھیں گے، اس میں کیا بہتری ہوسکتی ہے۔
دنیا میں اور ہمارے یہاں ماحولیات کی قوانین کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہے اس کے کیا اثرات پڑر ہے ہیں۔ برے اثرات کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ان تمام چیزوں کو جاننے کی کوشش کریں گے۔ ڈاکٹر ثمینہ خلیل ( رکن ، اکنامک ایڈوائزری کونسل وزیراعظم / سابق ڈائریکٹر، اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر،کراچی یونی ورسٹی)ڈاکٹر وقار احمد(اسسٹنٹ پروفیسر،انوائر مینٹل اسٹڈیز ،کراچی یونی ورسٹی، ممبر کمیشن ، آئی یوسی این) اورڈاکٹرجنید میمن (انوائر مینٹل اکنامسٹ، آئی بی اے، کراچی) اظہار خیال کریں گے۔
جنگ: موسمیاتی تبدیلی سے دنیا اور پاکستان کو کیا خطرات لاحق ہیں، معاشی اثرات کیا ہیں اس پر دنیا کی کیا ذمہ داری ہے؟
ڈاکٹر ثمینہ خلیل: موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ نیا نہیں پرانا ہے۔ پرانے ان معنوں میں اس کا اثر وقت کے ساتھ ساتھ ہوتارہا ہے۔پاکستان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے دوہزار بائیس کی تباہی کے بعد اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کے ہی اثرات ہیں، ہم جیسے ترقی پذیر ملک کے لیےبہت بڑا مسئلہ ہےاس کے باوجود اس کے ذمہ دارپاکستان یا دیگر ترقی پذیر ممالک نہیں ہیں۔ کلائمٹ چینج کے اثرات یہ ہیں کہ موسم جب کسی انتہاپر چلا جائے۔
یعنی شدید گرمی ہو یا تیز سردی پڑے تو انسانوں پر تو اس کا اثرہوتا ہی ہے اس کا اثر آپ کی معیشت کہ ہر سیکٹر پربھی ہوتا ہے،سب سے زیادہ زراعت متاثر ہوتی ہے، یہ شعبہ پاکستان سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت کا اہم اوربنیادی جزو ہے، وہاں سے ہم خوراک حاصل کرتے ہیں دیگر صنعت کے لیےخام مال ملتا ہے تو موسمیاتی تبدیلی سےاگر اس پر برااثر پڑےگا تو آپ کی دیگر صنعت پر بھی منفی اثرات آئیں گے جو آپ کی پوری معیشت کو متاثر کرے گا۔دوہزاربائیس میں سیلاب کی وجہ ہمارا مون سون کا پانچ گنا زیادہ دورانیہ تھا جو پاکستان کی 70سال سے زائد کی تاریخ میں ناقابل یقین تھا۔
پہلے اتنی بارشیں نہیں ہوئیں ہیں جب کہ ہماری اس حوالے سے کوئی تیاری بھی نہیں ہے۔اب زلزلے آرہے ہیں اس کا تعلق بھی موسمیاتی تبدیلی سے ہوسکتا ہے ،قحط کے حالات ہونا بھی اسی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ صرف بارشوں سے ہی متعدد منفی اثرات ہمارے جیسے ملک پر آسکتے ہیں۔ اور اگر ہم پگھلتےگلیشئر کا ذکر کریں تو اس کی وجہ سے ہمارا دریا سندھ سیلاب زدہ ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ درجہ حرارت کا تیزی سے بڑھنا ہے یہ بھی کلائمنٹ چینج کی وجہ سے ہے۔
ہمارا کراچی اور گوادر کا ساحلی علاقہ جو قریبا ایک ہزار کلومیٹر پر محیط ہے، کراچی سمندر کے ساتھ ہے اور سب جانتے ہیں کراچی سطح سمندر سےنیچے ہے اب خدانخواستہ درجہ حرارت کے بڑھنے سے سطح سمندر بلند ہوگیا تو حالات سنگین ہوسکتے ہیں، وہ پانی کراچی پر چڑھ سکتا ہے۔ ہم بہت زیادہ خطرات میں گھرے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی میں سب سے بڑا مسئلہ انسانی ہے جو موجودہ سیلاب میں سب کو نظر آرہا ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں،1700افراد کے جاں بحق ہونے کے اعداد وشمار بتائے گئے ہیں ،جو میرے خیال میں درست نہیں جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔بزرگ خواتین اور بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، یہ سارے نقصانات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بڑی مصیبت کے لیے تیارہی نہیں تھے۔
دو سےتین ماہ ہوچکے ہیں لیکن حکومت اب تک انہیں ریلیف دینے کا کام کررہی ہے۔ ہمیں اب تازہ ترین صورت حال بھی معلوم نہیں ہورہی ایسا لگتا ہے میڈیا سمیت دیگر باخبر رکھنے والوں نے سیلاب متاثرہ لوگوں کو بھلا دیا ہے۔میرا ابھی ایک کام کے سبب اندرون صوبے جانے کا اتفاق ہوا تومجھے راستے میں گھر پانی میں ڈوبے نظر آئے، جو یقیناً خالی تھےوہاں کے مکین بے چارے کہیں اور ٹھرنے پر مجبور ہوں گے، وہ پوری آبادی دریا کا منظر پیش کررہی تھی،حکومت اب تک ان علاقوں سے پانی نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے کیوں کہ ہم ایسی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھےشاید نہ اب ہیں، مزید کیا کریں گے اس کابھی کچھ نہیں معلوم، جب کہ سرکاری نیم سرکاری نجی غیرملکی ایجنسی یا کوئی بھی ایسے ادارے ہوں جو ایسی ناگہانی آفات کے لیے کام کرتے ہیں وہ اب تک معیاری کام نہیں کر سکے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ایک سیلاب دوہزار دس میں آیا تھا،اس کے ریلیف کا کام جاری تھا کہ دوہزار گیارہ میں پھر بارش زیادہ ہوئی تو دوبارہ سیلاب آگیا، دوہزار پندرہ میں بھی بڑا سیلا ب آیا، لوگ مستقل متاثر ہورہے ہیں، مون سون کی بارشیں زیادہ سے زیادہ ریکارڈ ہورہی ہیں، خدانخواستہ اگر درجہ حرارت بڑھا تو قحط کی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے، ہوسکتا ہے اس سال سردیاں زیادہ پڑجائیں پھر اگلے سال گرمیاں بھی زیادہ پڑیں تو ہمیں قحط کی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس سےنمٹنے کی تیاری کررہے ہیں۔ بین الاقوامی طور پر اس سے نمٹنے کے لیے دو اصطلاحیں استعمال ہورہی ہیں،اڈپ ٹیشن اور میٹی کیشن،لیکن آپ نے اسے کرنا کیسے ہےاس کے لیے آپ کو پالیسی بنانی ہے۔
میرے خیال میں حکومت کا سارا زور ہےاس بات پر ہے ابھی مصر میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام موسمیاتی تبدیلی (کوپ 27)کانفرنس ہوئی جس میں وزیراعظم کے زیرقیادت ہمارا حکومتی وفد شریک ہوا ان سب کامحور صرف مالی امداد تھا، ہمیں مالی امدادکی بہت ضرورت ہے لیکن جب تک آ پ ایڈپشن اور میٹی کیشن کی پالیسی پر منصوبے نہیں بنائیں گے جو قابل عمل بھی ہو توجب تک آپ کو پیسے نہیں ملیں گےوہ آپ کو خیرات کے نام پر پیسے نہیں دیں گے اگرچہ ہم ماحول میں کاربن میں اضافے کے ذمہ دار نہیں ہیں اور یہ سب مریکا، چین یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے ہورہا ہے، لیکن وہ اس کے باوجود آپ کو پیسے اس طرح نہیں دیں گے،جب ہمارے یہاں زلزلہ آیا، سیلاب آیا تو اس کے بعد ہم نے مستقبل میں ایسے حالات سےنمٹنے کے لیے اگر کچھ کیا تو وہ بتائیں، یہاں مستقبل میں ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوا،تو اگر ہم صرف یہ کہیں موسمیاتی تبدیلی سے آنے والی تباہی کےآپ ذمہ دار ہیں لہذا ہمیں پیسے چاہیے تو وہ یہ بات اب ماننے والے نہیں ہیں۔
جنگ: موجودہ قدرتی آفت سے ہماری زراعت متاثر ہوئی، ہمیں قحط کے خدشے کا سامنا ہےآپ کا ادارہ اے آر سی جو ماضی میں کافی اچھا کام کرچکا ہے کیا اس پرکوئی تحقیق یا نمٹنے کےلیے کوئی کام کیا جارہا ہے ؟
ڈاکٹر ثمینہ خلیل: میں کل زرعی یونی ورسٹی ٹنڈوجام گئی تھی ہم نے وہاں کی فیکلٹی سے کہا ہے کہ ہم اس پرتفصیلی اسٹڈی کرنا چاہتے ہیں وہ تیار ہیں ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
جنگ: موسمیاتی تبدیلی سے کیا مراد ہے،اس کے کیا خطرات ہیں اور اس کے کیا اثرات پڑیں گے؟
ڈاکٹر جنیدمیمن: موسمیاتی تبدیلی اتنا زیادہ شورتب ہوا جب اقتصادی ماہرین نے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا سوچا ہے، وہ معیشت کی بات کرتے ہیں، دنیا کی پوری عمر یا سولر سسٹم کی عمر ساڑھے چار بلین سال ہے،ان ساڑھے چار بلین سال میں انسانی تاریخ پچاس لاکھ سال کے برابر بھی نہیں ہے۔ جب یہ سارا نظام وجود میں آرہا تھا تو وہ آگ کا گولہ تھااس دوران آئس ایج بھی آئی ہے اس پر فاسفورس بھی زیادہ رہا ہے۔
اگر آج کی تاریخ میں آ پ زمین میں کاربن کنسرٹریشن کاجائزہ لیں تو ابھی ہمارے پاس جتنا کاربن ہے انسانی تاریخ کے پچھلے پچاس ملین سالوں میں اتنے اضافے کی کوئی مثال نہیں ملتی، اگر زمین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسے بہت سے دور گزرے ہیں، یہ زمین کا ایک سائیکل ہےجو چل رہا ہے،اب اگر یہ سب تبدیلیوں کا ایک سلسلہ ہے تو پھر موسمیاتی تبدیلی مسئلہ کیوں ہے، مسئلہ ہماری انسان کی نسل کا ہے،اس کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے، ماحول میں یہ تبدیلی ہورہی ہے اس میں ہماراجو بھی حصہ ہے، لیکن انسانی بقا کا مسئلہ ہے کیا ہم اس تبدیلی سے نکل سکیں گے یا نہیں، اس میں اسٹرکچرل مسائل کافی ہیں۔
مثال کے طور پر ان پچاس ملین سال میں بڑی تبدیلیاں آئیں جس میں انسان زندہ رہا ہےشاید اب بھی اپنی بقاقائم رکھے،لیکن پچھلے پچاس ملین سال کے انسان کوجو آزادی حاصل تھی وہ اب نہیں ہے، جس کی ایک مثال مالدیپ کی لیتے ہیں، یہ ایسا ملک ہے اگر آپ گلوب اٹھا کر ڈھونڈو گےیہ دنیا کے نقشے پر نظر بھی نہیں آئےگا ان کی صورت حال سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
1974 میں گیرٹ ہارڈن نے ایک بہت دلچسپ مضمون لائف بوٹ ایتھکس لکھا تھا ،اس کا خلاصہ یوں سمجھیں کہ ایک کشتی میں 50لوگ موجود ہیں، کشتی کی مثال دنیا کی ہے۔اس میں چالیس لوگ بیٹھے ہیں جب کہ صرف دس کے سوار ہونے کی گنجائش ہے، جب کہ 100لوگ سمندر میں ڈوب رہے ہیں اگر آپ ان سو افراد کو کشتی میں سوار کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ لازمی ڈوب جائے گی۔ اور اگر دس لوگ کو سوار کریں گے تو اخلاقی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کس کو لوگے۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ سب کوبچانے کی کوشش کریں گے تو کوئی بھی نہیں بچے گا۔اب اس مثال کو ہم کلائمٹ چینج پر دیکھتے ہیں، آبادی بڑھ رہی ہے اب اگر مہاجرین بڑھ رہے ہیں تو ہم کیا کریں۔کیا ہم مسئلے کی جڑ کو ختم کریں جومیرے خیال میں نہیں ختم ہوسکتی۔ میٹی کیشن نہیں ہوسکتی اور اپڈکشن میں بھی کئی اسٹرکچرل مسائل ہیں ،مثال کے طور پچاس ملین سال سےانسان اپنی بقا میں مصروف ہے۔لیکن درحقیقت انسان اتنے عرصے سے وجود نہیں رکھتا۔ ابھی حالیہ دنوں میں ایک کتاب سیفینز کا مطالعہ کیا ہو گا۔جس میں بتایاگیا ہے کہ انسانون کی آٹھ اسپیشیز ہے۔ہم بندر سے انسان بننے کا ذکر تو سنتے ہی ہیں۔
انسانوں کے بہت اسپیشیز تھے کچھ ہم سے چھوٹے تھے تو کچھ بڑے۔جو ہم سے زیادہ بڑے اور طاقتور اسپیشز تھے لیکن وہ چالاک نہیں تھے تو ہم نےانہیں ناک آوٹ کیا یا وہ کسی او ر وجہ سے ناک آوٹ ہوئے ہیں۔ آپ آپ دو سو سال کا مطالعہ کریں تو بہت سے علاقوں میں خوراک یا پانی کے مسائل پیدا ہوئے تو انسان وہاں سے ہجرت کرجاتے تھےلیکن اب آپ کو دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے پاسپورٹ چاہیے،ابھی شام کے متاثرہ لوگوں کی تصاویر دیکھیں،جو کسی بھی وجہ سے یورپ جانا چاہتے تھے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے آ پ ہی نمٹیں وہ بعض دفعہ تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن کیا انہوں نے اپنے وعدے مالی امداد کے وعدے پورے کئے ہیں۔
اب تو اقوام متحدہ نے بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ گورنمنٹ سے بھی یہ نہیں ہونے والا ڈونر سے بھی نہیں ہونے والا، اب وہ نجی سیکٹر کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کیا ہم اتنے پرافٹ والی اسکیم بناسکتے ہیں ایسے میں آپ دنیا سے کیا امید رکھیں گے ، ہم تو دنیا سے مدد بھیک کی طرح مانگ رہے ہیں حالانکہ ہمارا مدد مانگنا انصاف کے مطابق اوراصولی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام آپ کہاں سے شروع کرو گے، ہمارا پانی کا سسٹم دیکھ لیں وہ کالونیل دور میں کیا تھا وہ منصوبہ بندی کیا تھی جو انہوں نے اپنے مقاصد کے کےلیے کی تھی کیاوہاں سے انصاف مانگو گے۔
آپ گوگل پر سرچ کریں اس کے آٹھ دس پیراگراف بتاتے ہیں دنیا میں بڑی تبدیلیاں 50سالوں میں آئی ہیں، لیکن اگر آپ ایکو سسٹم میں دیکھو تو ہوسکتا ہے جو آج ہوا اس کا بیج دس ہزار سال پہلے بویا گیا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں یہ پاکستان کے لیے مسئلہ ہے لیکن میرا خیال ہے اب تبدیلیاں بہت تیزی سے ہونے والی ہیں جو اپنے آپ کو آج محفوظ سمجھ رہے ہیں وہ بھی شایداتنے محفوظ نہ ہوں،تو اس قسم کے کافی اسٹرکچرل مسائل ہیں، پہلے پاسپورٹ نہیں تھا ہجرت کرنا آسان تھا اب بڑی تعداد میں ایسا نہیں کرسکتے۔
فرض کریں کہ پاکستان میں کلائمٹ چینج میں اسے دو سینٹی گریڈ تک رکھنا ہےپہلے یہ ڈیڑھ تھا،ہم سمجھتے ہیں اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا،آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈیڑھ سینٹی گریڈ سے دو سینٹی گریڈ کا اثر ڈیڑھ سو ملین زندگیوں کا متاثر ہونا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ نہیں ہوگا ،بلکہ عالمی رہنما اتنی بڑی تباہی کو سیاسی حکمت عملی سے برداشت کرلیں گے، پاکستان کیلئےیہ شدت پانچ سینٹی گریڈ تک ہے دوہزار پچاس تک آپ کا درجہ حرارت اتنا بڑھے گا تو صرف اعشاریہ پانچ درجہ حرارت اضافے کا مطلب ڈیرھ سو ملین زندگیاں متاثر ہوں گی ،تو پاکستان رہے گا ہی نہیں کیوں کہ دوسو ملین تو آپ کے لوگ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ چیلنج بہت بڑا ہے، آج بھی ہم ایک سے دوسری جگہ معاشی صورت حال کےلئے منتقل ہوتے ہیں ،معیشت لوگوں کےلئے ہوتی ہے اگر لوگ نہیں رہیں گے تو کاہے کی معیشت ،کہاں کی حکمرانی کہاں کی سیاست۔
جنگ: آپ کو اس حوالے سے دنیا میں کوئی سنجیدگی نظر آرہی ہےـ؟
ڈاکٹر جنید میمن: مجھے کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی، ہم کسی بھی چیز کو روکنے کے موڈ میں نہیں ہیں، مجھے خدشہ ہے انسان کی پچھلی نسل کے ساتھ جو ہوا اب وہ اب ہمارے ساتھ ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ یہ تبدیلی بہت بڑی ہیں،آپ اگر دنیا سے کاربن کم بھی کرلی ،توفائدہ کچھ نہیں کاربن کو تو سینکڑوں سال تک ختم ہی نہیں کرسکتے۔اور آپ نےبہت زیادہ کردیا ہے۔
اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ عمل قدرتی ہے۔لیکن آپ کسی کو دوسری جگہ منتقل بھی نہیں ہونے دے رہےتو شاید کچھ لوگ بہت سے زیادہ متاثر ہوں گےپاکستان کی مثال سامنے ہے ہم زیادہ متاثر ہورہے ہیں،ہمارے پاس اس سے نمٹنے کا کوئی حل بھی نہیں۔ اب اگر میں یہ سوچوں یہاں طوفان کا ڈر ہے امریکا چلاجاتا ہوں تو میں کیا جاسکتا ہوں یہ ناممکن ہے، شاید چار پانچ سو سال پہلے موسم کے اثرات کے سبب لوگ منتقل ہوگئے تھے۔
ابھی تو ہم سب اپنے ہونے والے نقصانات سے متعلق چھوٹی چھوٹی باتیں کررہے ہیں،اصل صورت حال یہ ہے ہمارے مال مویشی کےلیے بھی تو پانی کے مسلسل کھڑے ہونے سے خوراک کی قلت ہے، گھاس ختم ہوچکی ہےان کے لیے خوراک ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے،اس دور میں شاید جانور تو بہتری کےلیے منتقل ہوجائیں گے ،ہم انسانوں کے لیے مشکل ہوگا۔
جنگ: موسمیاتی تبدیلی ہمیں خوف زدہ کررہی ہے یہ بڑا سنگین مسئلہ بن گیا ہےتو کیا ہم اس سے نمٹنے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں؟
ڈاکٹر وقار احمد: بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلی سے مراد زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہونا ہے،اور یہ اضافہ ایک قدرتی عمل ہے جسے ہم کہتے ہیں گرین ہاوس افیکٹ، اس سے مراد سورج کی روشنی یاتوانائی زمین پرآتی ہے زمین اسےا پنے میں سمولیتی ہے اورپھراسے دوبارہ انفراریڈکی شکل میں ظاہر کرتی ہے، فضا میں کچھ گیسز ہیں جسے ہم گرین ہاوس گیسز کہتے ہیں گرین ہاوس گیسز فضا میں پائی جانے والی چار قدرتی گیس ہیں، کاربن ڈائی آکسائیڈ ،واٹر ویپر ،متھین اور نائٹرو آکسائیڈ ہیں یہ چاروں قدرتی گیس ہوا میں موجود ہیں، یہ واپس جانے والی انرجی کو ٹریپ کرتی ہیں اور زمین کے درجہ حرارت کو توازن میں رکھتی ہیںاگر یہ نہ ہو تو زمین کا درجہ حرارت منفی اٹھارہ سینٹی گریڈ ہوگا ، اتنا سرد موسم ہماری زندگی کے لیے مناسب نہیں،اللہ تعالیٰ نے زندگی کے لیے یہ میکنزم بنایا ہے۔ہماری زمین کا اوسطاً درجہ حرارت پندرہ ڈگر ی سینٹی گریڈ گرین ہاوس افیکٹ کی وجہ سے ہے۔
گرین ہاوس افیکٹ ہمارے ماحول میں قدرتی نظام ہے، جو زمین میں انسان کی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہےلیکن اب فضا میں کچھ چیزوں میں اضافہ ہورہا ہے جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھتی جارہی ہے، اس کے مسلسل بڑھنے کی وجہ وہ 17ویں صدی کے بعد آیا ہوا صنعتی انقلاب ہے اس سےفضا میں کاربن کی مقدار میں اضافہ ہوتا گیا ہے، ہم فوسل فیول استعمال کررہے ہیں فوسل فیول سے مراد کوئلہ ،تیل یا گیس ہے اسے ہم زمین سے نکالتے ہیں پھر جلاتے ہیں اس سے توانائی حاصل کرتے ہیں لیکن اس عمل میں وہ کاربن جو کسی زمانے میں فضا میں تھا جو پودوں یاجنگلات کے ذریعے زمین میں منتقل ہواہم اس کاربن کو جلا کر دوبارہ فضا میں پھینک رہے ہیں یعنی ہم کاربن سائیکل کو واپس فضا میں بھیج رہے ہیں جس کی وجہ ہماری زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔
جب ہم درجہ حرارت میں اضافے کی بات کرتے ہیںکبھی ایک ڈگر ی یا ڈیڑھ ڈگری بڑھ گیاہے اس سے زیادہ نہیں بڑھنا چاہیے۔پیرس ایگریمنٹ میں دو ڈگر ی تک کا ہدف رکھا گیا تھا کہ اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ اضافہ زمین میں یونی فارم نہیں ہوگا یعنی پوری زمین میں درجہ حرارت میں اضافہ ایک جیسا نہیں ہوگا اگر یکساں برابر درجہ حرارت ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن پریشانی یہ ہے کہ یہ اضافہ ایکسٹریم موسم کی صورت میں نظر آئے گا، ہیٹ ویو ،کولڈ ویو، بے تحاشا بارش یا قحط کی صورت میں نظر آئےگا، موسم کے غیر متوازن صورت حال کا جائزہ اب کسی گراف کےذریعے لیں تو دیکھیں گے کہ وہ کہیں بہت بلند تو کہیں نیچے گرتا نظر آئے گا۔
اصل بڑا خطرہ یہ ایکسٹریم موسم ایونٹ ہے یعنی کبھی بارش بہت زیادہ ہوگی کبھی بہت کم ہوگی یا بالکل نہیں ہوگی،کئی برس خشک سالی کے گزر جائیں گے اور جب برسات ہو گی تو ایسے آئےگی جیسی آج کل ہوئی ہےیہ غیر متوازن موسم کی چھوٹی سی جھلک ہے، اس سے سمندر کو بھی بہت خطرات لاحق ہیں، وہ اس طرح کہ اگر سمندر میں زیادہ حرارت یا توانائی ہے تو جو یہ سائیکلون ،طوفان ،ہری کین یہ سب سمندر میں بڑھتے درجہ حرارت کے اثرات ہیں سمندراس طرح اپنی زائد توانائی کو خرچ کرتا ہے، اضافی بارش کا ہونا بھی سمندر میں درجہ حرارت کا زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے، یہ سارے عوامل بیلنس برقرار رکھنے کے لیے ہوتے ہیںلیکن اس کے نتیجے میں ہمیں موسمی آفات کا سامنا ہوگا۔موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہمیں جو خطرات لاحق ہیں ان میں ہیٹ ویو،کولڈ ویو،طوفان ، بے تحاشا بارشیں اور خشک سالی ہیں، لیکن سونامی اور زلزلہ ان میں شامل نہیں۔ ان دو کا تعلق زمین کا اندرونی میکنزم سے ہے۔
اس صورت حال میں ہم کیا کرسکتے ہیں کیسے مقابلہ اور بچاو کیسے کیا جاسکتا ہے، پاکستان اس خرابی کا ذمہ دار نہیں ہے لیکن اگر موسمیاتی تبدیلی کے متاثرہ ممالک کی فہرست دیکھیں تو اس میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے، ابتدائی ممالک میں بھوٹان یامالدیپ وغیرہ جیسے ممالک ہیں جن کی آبادی آپ کے کسی شہر کے برابر ہوگی جب کہ پاکستان تو 22 کروڑ آبادی والا ملک ہے، تو فہرست کے مطابق اس لحاظ سے پاکستان نمبر ون ہے۔
حالیہ بارش اورسیلاب سے پاکستان کے ساڑھے تین کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں، پاکستان زرعی ملک ہے ہماری معیشت کا دارومدارذراعت پر ہےتوہم کس طرح اس نئی صورت حال سے نمٹیں، موسمیاتی تبدیلی سے مقابلے کے لیے دوچیزوں کی بہت ضرورت ہے، ایک میٹی کیشن اوردوسرا اڈپ ٹیشن ہے۔ میٹی کیشن سے مراد کسی چیز کو ٹھیک کرنا درست کرنا،اڈپ ٹیشن کا مطلب نئے حالات کے مطابق ڈھل جانا۔
ان حالات سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس جو طریقے ہیں، میٹی کیشن کی آپ کو مثال دیتے ہوئے بتاتا ہوں کیوںکہ کاربن کی زیادتی کی وجہ سے یہ صورت حال بن رہی ہے، اپنے ماحول میں کاربن کی مقدار کو روکنا اسے کم کرنے کی کوشش میٹی کیشن کہلاتی ہے،جنگلات میں اضافہ درخت لگانا فضا سے کاربن کو ختم کرنے کےلئے میٹی کیشن میں شمار ہوگا۔
اڈپ ٹیشن میں،ہیٹ ویو ،کولڈ ویو سےبچنے کے لیے اپنے گھروں کے نقشے اور تعمیر ایسے کریں جس میں وہ زیادہ ہیٹ پروف ہو جس پر گرمی اور سردی کا اثر کم ہو انرجی کا استعمال نہ ہوایسی کوشش اڈپ ٹیشن میں آئے گی۔ ہم زراعت میں اپنی فصل تبدیل کریں، مثلا ہم وہی کاشت کرتے ہیں جو روایتی ہے،جیسے چاول ،گنا ان کے لیے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر اس کے بجائے ایسی کاشت کریں جس کی پیداوار کم پانی میں ہوتو یہ اڈپ ٹیشن میں شمار ہوگا توکیاہم نئی صورت حال کے مطابق اپنے آپ کوڈھال رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی میں سب سے بڑا مسئلہ موسم کا غیر یقینی ہونا ہے۔۔اس سال بے تحاشا بارشیں ہوئیں ،لیکن اگلے سال کتنی ہوں گی اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ممکن ہے اگلے تین چار سال بارشیں ہی نہ ہوں،ایسی غیریقینی حالات میں اڈپ ٹیشن کا عمل زیادہ مشکل ہوجاتا ہے،آج کل لوگ فیشن میں کہتے نظر آتے ہیں ہم نے ڈیم نہیں بنائے اس لیے یہ صورت حال ہورہی ہے،صرف ایک بڑےڈیم بنانے کا خرچ تو دیکھیں، صرف بھاشا ڈیم کی دوہزار سترہ میں قیمت 14ارب ڈالر فزیبلیٹی رپورٹ میں لگائی گئی تھی جو آج ہمارے روپے میں لاگت تیس کھرب سے زائد بنتی ہے۔
ایسی غیریقینی صورت حال میں کہ کل بارشیں ہوں گی کہ نہیں پانی ہوگا کہ نہیں صرف خدشات کے پیش نظر ڈیم نہیں بنا سکتے، ڈیم تب بنائے اور ڈیزائن کیے جاتے ہیں جب ایوریج پانی کہیں سے مسلسل آرہا ہوتا ہے، موسمیاتی تبدیلی سے تعلق رکھنے والا ایک مسئلہ پانی بھی ہے۔ ہمارا پانی کا خرچ بہت زیادہ ہے،ہمارے پاس تیس دن پانی کا محفوظ ذخیرہ ہے لیکن ہمارا موجودہ ایریگیشن کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے اگر ہم اس کو بہتر کرتے ہوئے جدید کردیں تو اس کی لاگت ڈیم سے بہت کم ہوگی تو جو پانی کا محفوظ ذخیرہ 30دن کا ہے وہ ہمارے ساٹھ دن تک استعمال کے لیے کافی ہوگا۔ ہمیں اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی پڑے گی کہ ہم میٹی کیشن میں کیا کررہے ہیں اور اڈپ ٹیشن پر کیا کرنے جارہے ہیں۔ بعض منصوبے میٹی کیشن اور اڈپ ٹیشن دونوں کے لیے کارآمد ہےمثلا شہروں کے موسم کو توازن میں رکھنے کے لیے یعنی شدید سردی یاگرمی کو قابو میں رکھنے کے لیے اربن فاریسٹ کو بڑھایا جائےیہ دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔
جنگ: پاکستان میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ ہورہا ہے یا کمی ہورہی ہے؟
ڈاکٹر وقار: پچھلی اور موجودہ دور حکومت میں جنگلات لگانے کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے جیسے بلین ٹری سونامی وغیرہ،اس کے ساتھ حکومت سندھ کے فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ نے اوردیگر صوبوں میں بھی ایسے بڑے منصوبے چل رہے ہیں۔ اس میں کچھ منصوبے کاربن ٹریڈنگ سے تعلق رکھنے والے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے یہاں جنگلات کا رقبہ بڑھ رہا ہے، اس میں کچھ انتظامی مسائل سامنے آرہے ہیں جیسے جنگلات کی زمینوں میں قبضے اور تجاوزات کا ہوناان سے نمٹنے کے لیے حکومت کو اقدامات بڑھانے پڑیں گے ہمیں اسے ترجیحی بنیادوں پر دیکھنا پڑے گا کیوں کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کے لیے تو بڑا مسئلہ ہے لیکن ہمارے لیے ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔
جنگ: آپ کا تعلق آئی یو سی این سے ہے تو وہاں اس سلسلے میں کیسی تیاریاں ہیں کیا انہوں نے دنیا کو ان حالات سے آگاہ کیا؟
ڈاکٹر وقار: آئی یو سی این کے کمیشن ہیں جس کاتعلق نیچر کے کنزرویشن اور ماحولیات سے بھی ہے ان پر پراجیکٹ کرتے رہتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی ہمارے پراجیکٹ کا باقاعدہ حصہ ہے، ہم لوگوں میں آگاہی کے مختلف پروگرام کرتے ہیں، حکومتوں کو اپنی سفارشات بھیجتے ہیں، آئی یو سی این کاربن سے تعلق رکھنے والے معاملات پر حکومت پاکستان اور نجی سیکٹر کی معاونت کرتا ہے۔
محمد عمران خان: آج کل پوری دنیا کاربن ٹریڈنگ پر لگی ہوئی ہے ،ہم پاکستان میں کس حد تک اس کے لیے تیار ہیں؟
ڈاکٹر ثمینہ: اس وقت عالمی سطح پر ایک معاہدہ ہے دوہزار پچاس تک،کاربن نیٹ زیرو ہوجائے گا۔
ڈاکٹر وقار:یواین او کایہ ہدف ہے دوہزارپچاس تک کاربن نیٹ زیرو پر آجائے اس کے لیے بہت سے ممالک اقدامات بھی کررہے ہیں چین نے ابھی کاربن ٹریڈنگ کا بڑا منصوبہ شروع کیا ہے، پاکستان میں کاربن ٹریڈنگ کی ماہرین زیادہ تو نہیں ہیں لیکن کاربن ٹریڈنگ کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ہمارے پاس 22 کروڑ کی آبادی اور آٹھ لاکھ اسکوائر کلومیٹر کارقبہ ہے،ساحل سمندر سے لے کر دریا ، صحر اور پہاڑی سلسلے ہر طرح کی زمین موجود ہے،اس طرح کاربن ٹریڈنگ کے لیےہمارے پاس بہت زیادہ فطری صلاحیت موجود ہے۔
انڈونیشیا میں23ہزارہیکٹر پر ایک پراجیکٹ تھا پانچ سال میں وہ 38ملین ڈالر کے کاربن ٹریڈ فروخت کرچکے تھے، تھوڑی سی سرمایہ کاری سے اس کمپنی نے بہت کمایا تھا،آپ اندازہ لگالیں اس پر بھی پاکستان میں کتنے مواقع ہیں،2019 اور بیس اوسطاً موسمیات سے متعلق فنڈ 632ارب ڈالر کی ہوئی تھی۔
جنگ: اس حوالے سے یواین او کیا کردار نظرآیا ہےہم نے انہیں پاکستان کے لیے اور مصر کانفرنس کے موقع پر کافی سرگرم دیکھا؟
ڈاکٹر جنیدمیمن: جہاں تک مسائل کو اجاگر کرنے کا تعلق ہے،وہ اس میں کافی کامیاب ہوئے ہیں لیکن وہ دنیا پر دباو ڈالنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہیں جو ملکوں کی انفرادی طور پر یقین دہانیاں تھیں کہ ،وہ اپنی جی این پی زیرو پوائنٹ سیون پرسنٹ دیں گے، لیکن جب آپ اس کا بھی جائرہ لیں تو سوائے چند ملکوں کے کچھ نہیں ہوسکا، موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو چھوڑ دیں اقوام متحدہ عالمی سیکورٹی کے حوالے سے کیا کچھ کرپاتی ہے،ان اداروں کے پیچھے بڑی طاقتیں اسے اپنے مفاد میں استعمال کرتی ہیں۔
جنگ:پاکستان نے ہرجانے کا کیس کاکہا ہے،قرض معاف کرنے کی بات کی ہے بلاول بھٹو اس حوالے سے سرگرم ہیں، دنیا اس پر پاکستان کی مدد کرے گی اس پر کوئی پیش رفت نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر ثمینہ: اکانومسٹ میگزین میں پڑھا ،وہ کہہ رہے کہ ہم پاکستان کو پیسے دینے کے لیے تیار ہیں ابھی مصر میں جو کانفرنس ہوئی ہے اس میں بھی انہوں نے پیسے دینے کی بات کی ہےلیکن پاکستان یوں بدنام ہے کہ جو رقم پاکستان کے لیےدی جاتی ہے وہ باہر منتقل کردی جاتی ہے۔
جنگ : وہ امداد تو این ڈی ایم اے کے پاس آتی ہے وزیراعظم کو تو نہیں دی جاتی؟
ڈاکٹر ثمینہ: ہماری یہاں پالیسیاں بہت اچھی بنتی ہیں بھرپور معلوماتی دستاویزات پر مشتمل ہوتی ہےاسے بنانے میں مدد کرنے کے لیے بیرون ملک سے کنسلٹنٹ بھی آتے ہیں،بڑی زبردست سفارشات بھی ہوتی ہیں،1997 میں انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ بنا تھا۔ اس زمانے میں منسٹری آف انوائرمنٹ تھی اب وہ تبدیل ہوکر منسٹری آف کلائمٹ چینج ہوگئی ہے،1997 سے آج تک 16پالیسیاں بنیں ہیں لیکن آپ اگر کوئی منصوبہ بنالیں اور اس پر عمل درآمد ہی نہ ہو تو اس سےتو آپ کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جنید میمن: پاکستان کی ایریگیشن کا نظام دیکھیں لیں توپچاس سالوں میں اس کی آج تک کی قیمت 300بلین ڈالرکا سسٹم ہے، اور آپ کی واٹر پالیسی دوہزاراٹھارہ میں آئی ہے،تو جب پالیسی نہیں تھی تو آپ نے یہ سسٹم کیسے بنالیا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی کام کرنے کی نیت ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر وقار: کوئی بھی پالیسی بنیاد فراہم کرتی ہےاس کی روشنی میں قوانین اور پراجیکٹ ڈیزائن ہوتا ہے کہ کیا اس پالیسی سے فائدہ ہوگا یا نہیں۔
جنگ:حالیہ بارشوں میں ہماری دیہی آبادی بری طرح متاثر ہوئی ہے ان کی زندگی کا دارومدار زراعت پر ہے کیا ان کی بحالی کے لیے کوئی منصوبے ہیں؟
ڈاکٹر وقار: دوہزار بائیس کا سیلاب ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے، دوہزار دس اور گیارہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اس کے بعد ہم نے اپنے ڈرینج سسٹم بناتے،کہ اگر سیلاب آئے تو پانی آسانی سے نکل جائے ہمارے یہاں دریائے سندھ کے ساتھ ایل بی او ڈی موجود ہے آر بی اوڈی ادھورا ہے۔
جنگ: موجودہ صورت حال میں جہاں پانی اب تک موجود ہے وہ تو ریکارڈ بارش کے سبب ہے؟
ڈاکٹر وقار: اس مرتبہ پانی ڈرین کرنے پر جھگڑے ہوئے ہیں، الزامات سامنے آئے ہیں۔
ڈاکٹر جنید میمن: سیلاب آنے پر ڈیم کی بات ہوتی ہےڈیم کبھی بھی سیلاب روکنے کا اوزار نہیں وہ تو چھوٹے سیلاب ہی روکتے ہیں، پاکستان میں طریقہ یہ ہےکہ پہلے انفرااسٹرکچر بچانا ہے پھر بڑے زمین دار کی زمینیں محفوظ کرنی ہیں۔
جنگ: سیلاب کے نقصانات تو سب کے سامنے ہیں کیا اس کے کوئی مثبت اثرات بھی ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار: سیلاب کی جہاں تباہ کاریاں ہیں وہیں فوائد بھی ہیں ہمارے سمندر میں ڈیلٹا میں پانی نہیں جارہا تھا لیکن ابھی تازہ پانی گیا اب اس سے مچھلیوں کی افزائش ہوگی، تازہ پانی سے مینگروز کے جنگلات میں اضافہ ہوگا جس سے مچھلیوں کی زیادہ افزائش ہوگی،زمین زرخیز ہوجاتی ہے، قدرت کا نظام ہے نقصانات ہوتے ہیں لیکن فائدہ بھی کچھ ہوتے ہیں۔
جنگ: موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان اور اس خطے میں اس حوالے سے کیا خطرات دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر وقار: ہیٹ ویو، کولڈویو ،سیلاب اور قحط سالی کی شکل میں خطرات تو سب کو نظرآنا شروع ہوگئے ہیں ہمیں اڈپ ٹیشن پر زیادہ غور کرنے کیضرورت ہے ہمیں اپنی زرعی پالیسی، واٹر مینجمنٹ، موسمی اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے ہماری رہائش آئندہ کس شکل میں ہونے چاہیےان سب پر کام کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر جنید میمن: یہ لوگوں کی جنگ ہے لوگوں کی سہولت دینی ہوگی، حکومت ہر شخص کو گھر بنا کر نہیں دے سکتی لیکن اس کے باوجود حکومت کو اس پرہمدردانہ غورکرنا پڑےگا،یہاں سیلاب نے جولائی میں تباہی مچادی تھی لیکن حکمران طبقے کو اگست میں ہوش آیا، وہ بھی الزامات کی سیاست کے لیے میڈیا بھی تب جاکر اس پر متوجہ ہوا تھا۔
ڈاکٹر ثمینہ: ایسےاداروں کو نہ صرف بنانے کی بلکہ ان اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی بھی بہت ضرورت ہے،جیسے این ڈی ایم اے یا اس جیسے دیگر ادارے، لوگوں کو نوکری دے دی جاتی ہے لیکن جوکام کرنا ہے اس کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی تو وہ کیسے کام کریں گے۔ یہ بڑا المیہ ہے اسی وجہ سے ادارے ناکام ہوجاتے ہیں۔
جنگ: موسمیاتی تبدیلی میں موسم کا نشانہ ملک کے کچھ کچھ حصے بنے، جیسے پورا کے پی کے نہیں ہوا پورا پنجاب نہیں ہوا اوراسی طرح بلوچستان اور صوبہ سندھ بھی، اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر وقار: یہ ضروری نہیں کہ پورا ملک ایک ساتھ اس کا شکار ہو،مستقبل میں ہمیں اپنے کاروباری منصوبے بھی کلائمٹ چینج کے مطابق کرنے پڑیں گے۔
ڈاکٹر جنید میمن: ملک بھر کا سیلابی پانی آخر میں سندھ میں آتا ہے تو ہمیں کلائمٹ چینج کے حوالے سے سندھ پر زیادہ توجہ دینی پڑے گی۔
ثمرعلی: کیا ہم انجیکشن ویل کے ذریعے زمین پر کھڑے ہوئے پانی کو ختم کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر وقار: یہ زمین کی صورت حال پر منحصر ہے اگر وہ زمین پہلے سے ہی سیم زدہ ہے یا پانی کی سطح پہلے سے بلند ہے تو پانی اس میں نہیں جائےگا۔