• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اسمبلی کی تحلیل: پی ٹی آئی کو پنجاب میں مشکلات کا سامنا

آج کی سیاسی ڈائری لکھنا اس حوالے سے مشکل ہے کہ مملکت خداداد میں سیاسی حالات اتنی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی قیاس آرائی کرنا یا پھر کوئی اندازہ لگانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے سیاسی پنڈت بھی حالات کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے 2017 میں جب پوشیدہ ہاتھوں نے میاں نواز شریف کی مقتدر قوتوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے اپنا راستہ جدا کر لیا تو میاں نواز شریف کو بظاہر ایک عدالتی فیصلے کے باعث وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونا پڑا تو اس میں کس کس کا کتنا کتنا کردار تھا کہ حالیہ دنوں میں وہ تمام ادارے اور کردار عوام کے سامنے آ گئے ہیں۔ 

پچھلے ماہ یعنی 29 مئی کو جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ریئر ہوگئے ہیں اور ملکی تاریخ ایک باب ختم ہو گیا ہے اور نئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ جنرل سید عاصم منیر نے سنبھال لیا ہے اور ممکنہ طور پر ایک نئے اور روشن باب کی شروعات ہو گئی ہے امید کرنی چاہیے کہ اس دور میں درخشاں روایات کے حامل اس ادارے کی ساکھ میں قابل قدر بہتری آئے گی اس کے تبدیلی کے باعث حالات میں تبدیلی ایک قدرتی اس سال کی پہلی سہ ماہی میں شروع ہونے والے سیاسی واقعات نے ملک کو ایک مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔ 

پہلے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ گئی اور ملک میں جمہوریت کی دعوےدار سیاسی جماعتوں کے رویہ کے باعث سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گیا جس سے مشکل معاشی حالات سے دوچار ملکی معیشت مزید مشکلات سے دوچار ہو گئی۔ ایک طرف وفاق میں سیاسی تبدیلی کے باعث پنجاب میں وزارت اعلیٰ تبدیل ہو گئی اور سردار عثمان بزدار کی متنازعہ حکومت کو رخصت ہونا پڑا اور مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز وزیر اعلی بن گئے تو چند مہینوں کے بعد تحریک انصاف کے حمایت یافتہ مسلم لیگ نواز ق کے چوہدری پرویزالٰہی وزیر اعلی پنجاب بن گئے مگر ان کا خاندانی اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہوگیا۔ 

مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اسحاق ڈار کی پاکستان واپسی کےبعد ملک میں ایک بڑے ادارے کے سربراہ کی تبدیلی کے بعد وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے چھوٹے صاحبزادے سلیمان شہباز بھی وطن واپس آ گئے اور خود ساختہ جلاوطنی کو ختم کر دیا ہے تو اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سے اشارے ہیں اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں تحریک انصاف اور عمران خان کی اقتدار کے ایوانوں میں واپسی مشکل ہے اور جس طرح میاں نواز شریف کو مقتدر حلقوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے پر مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور پھر دوریاں اتنی بڑھ گئیں کہ میاں نواز شریف کو لندن کا راستہ لینا پڑا۔ 

عمران خان حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے باعث ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ مسلم لیگ نون کو واپس لانا چاہتے تھے مگر ان کے کانوں میں میاں نواز شریف کے جملے گونجتے تھے اب وہی مسئلہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے مقتدر حلقوں کے خلاف سخت ترین زبان استعمال کی ہے اور بدستور ایسا کر رہے ہیں اور ان کی جماعت کے بعض لوگ بھی ان کی پیروی کر رہے ہیں۔ جس سے ادارے کی نیک نامی متاثر ہو سکتی ہے۔ 

لہٰذا لگتا یہ ہے کہ مستقبل قریب میں کم از کم عمران خان یا تحریک انصاف کی واپسی نہیں ہے اب ایک طرف سابق وزیراعظم عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صوبائی اسمبلی توڑنے کا اعلان تو کر چکے ہیں مگر انہیں پنجاب میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی فوری طور پر پنجاب اسمبلی توڑنے کے لیے رضا مند نہیں ہیں اور امکان غالب ہے کہ اگر عمران خان نے پنجاب اسمبلی توڑنے کے لئے چودھری پرویز الٰہی پر زیادہ دباؤ ڈالا تو وہ کسی دوسرے سیاسی آپشن پر بھی جا سکتے ہیں میاں نواز شریف نے ایک سیاسی پتہ کھیلا ہے کہ پنجاب میں سیاسی اعتبار سے چوہدری شجاعت حسین جو فیصلہ کریں گے قبول کیا جائے گا۔ 

یقینا اس سے عمران خان کی مشکلات میں اور اضافہ ہو جائے گا اگر عمران خان اپنے اعلان کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلی نہیں توڑتے تو ان کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا اور اگر وہ اپنے اعلان اور وعدے کو پورا کرنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی پر شدید دباؤ ڈالتے ہیں اور دونوں صوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کی ضد کرتے تو پھر چوہدری برادران کوئی غیر متوقع فیصلہ بھی کر سکتے ہیں جس سے ایک طرف چوہدری خاندان دوبارہ متحد ہو جائے گا اور معاملہ بھی گھر میں ہی رہ جائے گا اگر چوہدری پرویزالٰہی کے ساتھ مسلم لیگ نون کے معاملات طے نہیں ہوتے یا چوہدری پرویزالٰہی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ نون اپنے سیاسی اتحادیوں کے ساتھ مل کر پنجاب میں وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد کی طرف جا سکتی ہے اور صوبے میں گورنر راج کا آپشن بھی آزمایا جا سکتا ہے۔ 

اگر مسلم لیگ ن چوہدری پرویزالٰہی کو ہٹاتی ہے تو وزارت اعلیٰ کے امیدوار کیلئے مشکل فیصلہ کرنا ہوگا ایسے حالات میں میاں حمزہ شہباز کی وزارت اعلی کے منصب پر واپسی ناممکن نہیں تو مشکل ضروت لگتی ہے کیونکہ حمزہ شہباز اپنے چند ماہ کی وزارت اعلی میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ ایسے میں وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق، ملک احمد خان اور رانا مشہود احمد خان کی دیگر وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید