دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہیں جو بیماری اور جہالت کو شکست دے چکی ہیں۔ اچھی صحت ہر معاشرے کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔کیونکہ صحت مند افراد کامیاب قوم کی ضمانت ہوتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صحت مند اور طاقتور اقوام نے ہی دنیا پر حکمرانی کی ہے۔ ہم اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہو سکتے جب تک ہم ذہنی، جسمانی، روحانی اور سماجی طور پر صحت مند نہ ہوں، صحت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے اور اس کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔
صحت کے حوالے سے 2022ء پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم غربت جہالت اور بیماری کے مثلث میں جکڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ بیماریوں سے بچائو کیلئے جس شعوری آگہی اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سے ناآشنا ہیں۔ اسی لئے معلومات کی کمی اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے ہم بیماریوں کے بچائو اور علاج معالجہ کے جدید طریقوں سے استفادہ نہیں کرسکتے۔
ہمارے ملک میں صحت کبھی بھی ارباب اقتدار کی پہلی ترجیح نہیں رہی۔ صحت کے حوالے سے اعداد وشمار انتہائی پریشان کن ہیں۔ جولائی 2022ء کے مطابق ہمارے ملک کی کل آبادی 22کروڑ 96لاکھ 65ہزار ہے۔ جس میں سالانہ 52لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں 2521بچے روزانہ پیدا ہو رہے ہیں۔ گوکہ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں ،مگر آبادی کا بم ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ بڑھتی آبادی کے باوجود ملک کے سالانہ بجٹ میں ایک قلیل رقم صحت کے نام پر مختص کردی جاتی ہے ۔ 2022ء میں یہ رقم صرف بارہ ارب روپے ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جی ڈی پی کا 6 فیصد صحت پر خرچ ہونا چاہئے، جبکہ 2021-2022کے اعداد وشمار کے مطابق ہم اپنی قومی پیداوار کا 3 فی صد صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔
اس وقت ملک میں ہردس ہزار کی آبادی کیلئے8 ڈاکٹرز ہیں، جبکہ WHOکے مطابق 1000لوگوں کیلئے ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے۔ ملک میں 42000 لوگوں کے لئے ایک ڈینٹل سرجن ہے۔ 924 پبلک اسپتال 4916 ڈسپنسریز،5336بیسک ہیلتھ یونٹ BHU،595رورل ہیلتھ سینٹرز اور1080فرسٹ ایڈ یونٹ ہیں۔ 1515افراد کیلئے ایک بیڈ کی سہولت ہے اور20 مریضوں کیلئے ایک نرس ہے۔
یہ تعلیم کی کمی ہے، غربت ہے یا جہالت کہ آج بھی ملک میں جابجا اتائی ڈاکٹرز اور حکیم انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ ساتھ ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جعلی پیروں اور بابائوں کے چکر میں اپنی زندگی اور عزت دائو پر لگا رہی ہے۔ آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد میڈیکل اسٹورز پرحال بتاکر دوا حاصل کر لیتی ہے،کیونکہ ابھی تک ملک میں کوئی قانون نہیں کہ اس طرح دوا کی خرید و فروخت پر پابندی ہو۔
سرکاری اسپتالوں میں کروڑوں روپے کی ادویات خریدی جاتی ہیں جس کی بڑی تعداد مستحق مریضوں تک پہنچنے کے بجائے انتظامیہ کی ملی بھگت سے میڈیکل اسٹورز پرفر وخت ہو جاتی ہیں اور مریضوں کو دوائیوں کے ساتھ ساتھ سرنجیز، پٹیاں، ڈیٹول اور دستانے تک خرید کر لانے پڑتے ہیں۔
ایک طرف گورنمنٹ ہر سال صحت بجٹ میں کمی کر رہی ہے تو دوسری طرف فارماسیوٹیکل کمپنیاں ہر روز دوائیوں کی قیمتوں خصوصاً جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہیں،البتہ ایک اچھی بات یہ ہے کہ سرکاری خصوصاً شہری سرکاری اسپتالوں میں طبی سہولیات، جدید مشینری، آلات اور لیبارٹری میں ہونے والے ٹیسٹوں کے معیار میں بہت بہتری آئی ہے،جن میں ایکسرے، الٹرا سائونڈ، سی ٹی اسکین اور ایڈوانس سرجریز وغیرہ شامل ہیں ،کئی اسپتالوں میں روبوٹک سرجری کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔
فروری 2022میں SIUT کراچی میں 1000کامیاب روبوٹک سرجریز ہوچکی ہیں اور اکتوبر کے مہینے میں SIUTنے سکھر میں روبوٹک سرجری کے یونٹ کا افتتاح کردیا ہے۔ لیکن دیہی علاقوں میں تاحال حالات خاصے خراب ہیں، جہاں نہ بجلی نہ پانی اور نہ ہی علاج کی مناسب سہولیات موجود ہیں۔ ایمرجنسی میں مریضوں کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خدا خدا کرکے دنیا سے کورونا کا زور ٹوٹا، پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل رہا جہاں کورونا کی وباء پر نسبتاً جلد قابو پا لیاگیا۔ بہتر حکمت عملی اور عوام کے تعاون سے جانی نقصان دوسرے ممالک کی نسبت کم رہا۔
الحمد اللہ 16؍مارچ 2022ء کو حکومتی سطح پر کورونا ایس اوپیز کا اطلاق ختم کردیاگیا۔ مگر غیر یقینی اور متزلزل سیاسی اور معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ ایک اور دریا کا سامنا تھا مجھ کو میں ایک دریا کے پاراترا تو میں نے دیکھا کہ مصداق جون کے مہینے میں شروع ہونے والے مون سون نے 1961ء کے بعد ہونے والی بارشوں کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔ سندھ بلوچستان اور KPKکا ایک بڑا حصہ سیلابی پانی میں ڈوب گیا۔ بلوچستان اور خصوصاً سندھ میں بہت زیادہ تباہی ہوئی۔ ’’صحت مند سندھ‘‘ کا خواب سیلاب میں بہہ گیا۔ صوبے کے 500سے زائد اسپتال اور بنیادی صحت کے مراکز بارش اور سیلاب کے پانی میں ڈوب گئے۔کروڑوں روپے مالیت کی مشینری اور ادویات بھی خراب ہوگئیں، جس سے قومی خزانے کو خطیر رقم کا نقصان پہنچا۔
اس کے ساتھ سیلاب کے باعث مختلف امراض سے آگہی کے قومی اور بین الاقوامی پروگرام التوا کا شکار ہوگئے۔ اس وقت بھی کئی اسپتال اور صحت کے مراکز پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع نوشہرو فیروز ہے جہاں 90فیصد اسپتال اور صحت کے مراکز پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ کئی فٹ پانی اب بھی جمع ہے، بے گھر ہونے والے قریباً 8 لاکھ افراد خیموں میں پناہ گزین ہیں۔ ان کے گھر اور علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، سیلاب نے پاکستان میں صحت کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے۔ WHOکے مطابق پاکستان میں 95-80 لاکھ لوگوں کو ضروری طبی امداد کی ضرورت ہے۔
کھڑے پانی اور پینے کے نہ صاف پانی کی وجہ سے سیلاب زدہ علاقوں میں ڈائریا، پیٹ کے امراض، ملیریا، ڈینگی اور جلدی امراض بہت زیادہ پھیل رہے ہیں۔ جولائی سے اکتوبر 2022ء تک ملیریا کے 540000 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی ڈینگی بخار کی وباء پھیل رہی ہے۔ اب تو خسرہ اور ہیضہ کا مرض بھی پھیل رہا ہے۔ لوگ غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہیں اور بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ڈائریا کے مرض میں اضافہ ہو گیا ہے 24گھنٹوں میں 1900سے زائد کیس رپورٹ ہوئے،جن میں 5؍ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 800سے زائد تھی۔ ملیریا اور ڈینگی سے کئی افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
مچھروں کی افزائش اور اسپرے نا ہونے کی وجہ سے اب ملیریا اور ڈینگی شہروں میں بھی پھیل رہا ہے۔ صوبہ سندھ میں تین ماہ کیلئے ڈینگی اور ملیریا کے ٹیسٹ کی قیمتوں میں کمی کردی گئی ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے مگرکتنی افسوسناک بات ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کیلئے جنہیں پلیٹ لٹس اور میگایونٹ پلیٹ لٹس کی ضرورت پڑتی ہے،ان کی فراہمی اور قیمت میں کمی کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایاگیا، بلکہ انتہائی خطرناک بات یہ ہے کہ کچھ ضمیر فروش لوگوں نے ان مریضوں کیلئے جنہیں پلیٹ لٹس کی ضرورت پڑتی ہے، ان کے ساتھ دھوکہ دھی کی اور پلیٹ لٹس کی جگہ نارمل سی لائن میں ملٹی وٹامن انجکشن ملاکر یا صرف بلڈ کا پلازمہ علیحدہ کرکے پلیٹ لٹس اور میگا پلیٹ لٹس کی جگہ 20 سے 25 ہزار میں بیچ دیا،جو انتہائی شرمناک عمل ہے جب ہر طرف بخار، ملیریا اور ڈینگی پھیلا ہوا ہے ایسے میں ملک میں پیراسیٹامول کی گولی نایاب ہونے لگی۔
دوا فروشوں نے بیماروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا اوراسے دگنی تگنی قیمت پر فروخت کیا۔ اسی طرح مچھر دانیوں کی قیمتیں بھی یکدم بڑھا دی گئیں۔ اب تک بہت سے علاقوں میں بارش اور سیوریج کا پانی ہنوز جمع ہے۔ مکھی اور مچھروں کی بہتات سے ملیریا، ٹائیفائڈ، یرقان اور جلدی بیماریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ ساتھ ہی سیلابی علاقوں میں سانپوں کے کاٹنے کے واقعات بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اب تک ساڑھے پانچ لاکھ افراد جلدی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی طرح اکتوبر تک 8 ہزار ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں کئی اموات بھی ہو چکی ہیں۔
سیلاب متاثرین میں خواتین کی ایک بڑی تعداد حاملہ ہے۔ پچھلے دنوں 24 گھنٹوں میں 19بچوں کی ولادت ہوئی۔ اب تک سیلاب متاثرین کے یہاں جنم لینے والے بچوں کی تعداد ساڑھے چار ہزارکے قریب ہے، جبکہ ساڑھے نو ہزار سے زیادہ خواتین حاملہ ہیں جنہیں دوا اور غذا کی ضرورت ہے۔
پاکستان سائوتھ ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لئے سب سے زیادہ بیماریوں سے بچائو کی ویکسینز فری ہیں۔ ان میں ٹی بی، پولیو، خناق، تشنج، کالی کھانسی، خسرہ، ہیپاٹائٹس، گردن توڑ بخار اور نمونیہ جیسی بیماریوں سے بچائو کے ٹیکے شامل ہیں۔ حکومتی سطح پر بہترین کوششوں کے باوجود ہم بہت سی بیماریوں کو مکمل شکست نہیں دے سکے،جس کی وجوہات میں کچھ لوگوں کا ویکسین کے خلاف مزاحمتی رویہ بھی شامل ہے،بلکہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس سال بھی پولیو ورکرکوفائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔
یعنی جو لوگ زندگی تقسیم کرنے نکلے تھے ہم نے ان سے زندگی چھین لی۔ ملک کے کئی علاقوں میں انسداد پولیو ٹیموں پر لوگوں نے حملہ کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا 2021ء میں پاکستان میں KPK میں پولیو کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا جس سے توقع تھی کہ پاکستان کا شمار جلد پولیو فری زون میں کیا جائے گا،مگر انتہائی تشویشناک بات ہے کہ 2022ء میں اب تک پولیو کے 20کیسز سامنے آچکے ہیں۔
محکمہ صحت سندھ نے 7 روزہ پیڈز کورونا ویکسی نیشن مہم میں 5 سے 11سال تک کے 25 لاکھ سے زائد بچوں کو کورونا ویکسین لگا دی ہے۔ 2022ء میں بچوں کی صحت پر نظرڈالیں تو دُکھ دل میں اترنے لگتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نومولود بچوں کی اموات کے لحاظ سے دنیا میں سب سے خطرناک ملک ہے۔
ایک ہزار میں 40.4بچے پیدائش کے وقت ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ آج بھی 1000میں سے 65.2بچے اپنی پانچویں سالگرہ نہیں منا پاتے اور فوت ہو جاتے ہیں۔
بچوں میں اموات کی بڑی وجہ غذائی کمی، آلودہ پانی اور صفائی آلودگی ہے۔ اس وقت ملک میں 40.2 فی صد بچے پانچ سال کی عمر کے حساب سے کمزور ہیں اور 17.7فی صد بچے مکمل سوکھئے کی بیماری (پروٹین کیلوری مال نیوٹریشن) کا شکار ہیں۔
آلودہ پانی سے بچے ٹائیفائڈ ڈائریا، ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے کیڑوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں سانس کے امراض اور نمونیہ کا تناسب بہت بڑھ گیا ہے۔ بچوں میں خطرناک حد تک فولاد وٹامن اے اورڈی کی کمی پائی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک میں نوجوانوں کی صحت پر نظر ڈالیں تو مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے نوجوانوں میں ذہنی دبائو، بے چینی اور ڈپریشن میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے منشیات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70لاکھ سے زیادہ افراد نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔
سگریٹ، مین پوری،گٹکا، چرس اور بھنگ جیسے نشے کو نشہ سمجھا ہی نہیں جا رہا،جس کی وجہ سے منہ گلے اور چھاتی کے کینسر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں کیمیکلز والے نشے ہیروئن، کوکین اور آئس کا استعمال بڑھ رہا ہے، جس میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ اسکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علم جن کی عمریں 25-13 سال کے درمیان ہیں، جو نشے میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ان میں شیشہ پینے کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ہرسال قریباً 40ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔
نشے کی عادت چھڑا نے کیلئے کئی پرائیویٹ اسپتال اور ادارے کام کررہے ہیں مگر وہاں علاج بہت مہنگا ہے،چند حکومتی ادارے بھی موجود ہیں جہاں بروقت اور اچھا علاج ہو رہا ہے مگر ان کی عوامی سطح پر تشہیر نہ ہونے کے سبب عام آدمی بے خبر ہے۔ لوگوں میں ناآسودگی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی منفی سوچ کی وجہ سے خودکشی کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 2022ء میں قریباً 1300افراد نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر ڈالا۔
آج بھی ملک میں خصوصاً سندھ اور پنجاب میں سگ گزیدگی کے واقعات بہت زیادہ ہیں خصوصاً سیلاب زدہ علاقوں میں اور خاص بات یہ کہ، کتے کے کاٹے کی ویکسین اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔ ستمبر کے مہینے میں صرف سانگھڑ میں 960کیس سگ گزیدگی کے رپورٹ ہوئے ہیں۔
ایک بہت بڑا مسئلہ جس میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے،وہ ہے بچوں اور عورتوں سے زیادتی کے واقعات، وہ بچے اور عورتیں جو زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں ان کا انگزائٹی اور ڈپریشن کے ڈس آرڈر میں مبتلا ہو جانے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے لئے تاحال حکومتی سطح پر Rehabilation کیلئے کوئی ادارہ کام نہیں کر رہا ہے۔ پرمضروب لوگوں کو نارمل زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے۔
خواتین کی صحت پر نظرڈالیں تو منفی عدم مساوات کی وجہ سے صحت کی سہولیات تک رسائی کاحق بہت کم خواتین کو حاصل ہے۔ ملک میں خواتین کی اکثریت خون کی کمی کا شکار ہے،خصوصاً دیہی علاقے جہاں منفی امتیاز کی وجہ سے عورت کو کم خوراک ملتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان میں زچگی کے دوران مائوں کی ہلاکت کا تناسب سے زیادہ ہے ہر5 میں سے ایک عورت کو زچگی کے دوران پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔2020ء میں MMR میٹرنل مورٹیلٹی ریشو Moternal mortality Ratio 186ہے جبکہ ملائشیا میں یہ تعداد 8ہے۔
ملکی اعداد وشمار کے مطابق اس وقت پنجاب میں ایک لاکھ پیدائش میں اموات کی شرح KPK157 میں 165جبکہ سندھ میں 224 اور بلوچستان میں یہ شرح 298 فی ایک لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق زچگی کے دوران شرح اموات کو کم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی جانب سے رکھے گئے ہزار سالہ ترقیاتی ہدف کو پورا کرنے میں پاکستان ناکام ہو سکتا ہے۔ یہ ہدف 2030ء تک ایسی ا موات کو گھٹا کر فی لاکھ 70تک لانے کا منصوبہ ہے۔ 2021-2022کے سروے کے مطابق پاکستان میں خواتین میں چھاتی کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے قریباً 245 خواتین ہر روز چھاتی کے کینسر کا شکار ہو رہی ہیں۔ پورے ایشیا میں یہ شرح سب سے زیادہ ہے ہر سال تقریباً 90ہزار سے زائد عورتیں اس کینسر میں مبتلا ہو رہی ہیں ہر سال تقریباً40000خواتین اس بیماری سے موت کا شکار ہو رہی ہیں۔
ہم بروقت آگہی اور علاج سے اس مرض کے پھیلائو پر قابو پا سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر نویں عورت کو چھاتی کے سرطان کا خدشہ ہے۔ اس بیماری کے علاج پر قریباً 40 لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔ کراچی میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں یہ علاج مفت فراہم کی جا رہا ہے،جہاں جدید ترین طریقوں سے تشخیص اور علاج کیا جاتا ہے۔ پورے ملک سے مریض یہاں علاج کیلئے آتے ہیں۔ بریسٹ کینسر سے متعلق حکومتی سطح پر بھرپور آگہی مہم بھی جاری ہے ’’پنک ربن‘‘پاکستان میں چھاتی کے کینسر کیلئے اسپتال بھی تعمیرکر رہا ہے جو اب تکمیل کے قریب ہے۔
ملک میں سالانہ ہزاروں بچے تھیلیسیما کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔ شادی سے پہلے تھیلیسیما کے (Test) ٹیسٹ کا کوئی تصور ہمارے ملک میں موجود نہیں تھا،جبکہ اس مرض کی شرح قریباً 6 فیصد ہے۔ حالیہ تباہ کن بارشوں کے باعث تھیلیسیما میں مبتلا بچے شدید مشکلات کا شکار ہیں،کیونکہ انہیں بروقت خون کا عطیہ ملنا مشکل ہو رہا ہے۔
مجموعی طور پر ملک میں بلند فشار خون، ذیابیطس، ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کے مرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔
15-10 ملین عورتیں اور مرد ہڈیوں کے بھربھرے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ ایک خاموش مرض ہے ،اس کا بروقت علاج اور متوازن غذا کے ذریعے ہڈیوں کے فریکچراور اپاہج ہونے سے بچا جا سکتا ہے۔
2022میں ،جیکب آباد میں Hivایڈز کے 350سے زائد کینسر کا ہولناک انکشاف ہوا ہے جن میں کم عمر بچوں کی تعداد 250ہے،اس کی تصدیق محکمہ صحت نے کی ہے۔
صحت کے تمام مسائل کے ساتھ ساتھ ملک میں صاف پانی اورکھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کا تناسب روز بروز بڑھ رہا ہے۔ لوگ نامساعد حالات میں مزید بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ،ساتھ ہی صفائی ستھرائی کے مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ کراچی اور لاہور کا شمار آلودہ اور گندے ترین شہروں میں کیا جا رہا ہے،ایسے میں دیہی علاقوں میں صفائی ستھرائی کا اندازہ خود لگا لیجئے ،جہاں اب تک سیلابی پانی کھڑا ہے۔
اس سب کے باوجود کئی ادارے اور اسپتال آج بھی مریضوں کو بہترین صحت کی سہولیات اور علاج مہیا کر رہے ہیں، جہاں ان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ SIUTجہاں منتقلی اعضاء سمیت ہر طرح کے گردوں کے مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ انڈس اسپتال کراچی جہاں ہر قسم کا جدید علاج بالکل مفت ہے۔
LRBTکی آنکھوں کو بالکل مفت روشنی عطا کر رہا ہے۔ سندھ گمبٹ( (GMS اسپتال میں کاکلیئر امپلانٹ روبوٹک سرجری سمیت بون میرو ٹرانسپلانٹ تک کی سہولت بالکل فری مہیا کی جارہی ہے۔ ڈائو یونیورسٹی کے رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ میں گردے کی ناممکن پیوندکاری اب ممکن بنا دی گئی ہے۔ کراچی جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں سائبرنائف کے ذریعے کینسر کا مفت علاج کیا جا رہا ہے۔
پنجاب میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ جہاں گردے اور جگر کا جدید علاج ہوتا ہے دوبارہ فعال ہو گیا ہے۔
ہنگامی طبی سہولیات کے سلسلے میں اس وقت ٹراماسینٹر کراچی کا شمار جنوبی ایشیا کے بڑے لیول ون ٹراما سینٹرز میں ہورہا ہے،جہاں روزانہ 400 سے 500ایمرجنسی میں مریضوں کو میڈیکل اور سرجیکل علاج کی سہولت دی جا رہی ہے۔
پاکستان میں پہلی بار نوزائیدہ اورقبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں کو آکسیجن لگانے سے متعلق گائیڈ لائنز تیارکرلی گئی ہیں۔ ان سب اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ سندھ میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے سال کے اخر میں ہڑتال کی ،یہ سوچے بغیر کے سیلاب زدہ علاقوں میں پہلے ہی طبی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور جو بے چارے مریض سرکاری اسپتالوں تک پہنچ رہے ہیں ان کے لئے او پی ڈی بندکر کے تالے لگا دیئے گئے، آپریشن ملتوی ہوے۔
ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور ارباب اختیار کو سوچنا چاہئے کہ مطالبہ کوئی بھی ہو غریب مریضوں کے علاج میں تعطل نہیں آنا چاہئےتھا۔
اگر ہم ایک صحت مند پاکستان چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں ایک صحت مند طاقتور قوم کی صورت دنیا میں نظرآئیں تو ہمیں بیماریوں سے احتیاط اور بچائو کیلئے آگہی پر کام کرنا ہوگا۔
صاف اور محفوظ پانی، ملاوٹ سے پاک کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔
تمباکو، گٹکا اور مین پوری جیسی بظاہر بے ضرر اشیاء کے خلاف مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔
ملک میں موجود قریباً 6لاکھ اتائی ڈاکٹروں کو قانون کی گرفت میں لانا ہوگا۔
فیملی پلاننگ پرمؤثر عملدرآمد بہت ضروری ہے اس سے آبادی اور خواتین کی اموات میں کمی ہو سکے گی۔
حفاظتی ٹیکوں کے EPIپروگرام کو مزید مؤثر بنانا ہوگا۔
ڈاکٹر ز پر بھی لازم ہے کہ وہ جودکھی انسان اور انسانیت کی خدمت کا حلف اٹھاتے ہیں اس کی پاسداری کریں،جب ہی ہم ایک صحت مند اور کامیاب قوم بن سکتے ہیں۔