سانپ اور سیڑھی کا کھیل دیکھا ہے آپ نے، اس میں ایک سے لے کر 100تک خانے ہوتے ہیں۔ سو تک پہنچنے کیلئے راستے میں کئی سانپ اورکچھ سیڑھیاں رکاوٹ کے لئے ہوتے ہیں۔ آپ سیڑھی سے اوپر کی جانب بڑھتے ہیں لیکن اگر سانپ پر رکھیں تو ڈس لیتا ہے اور آپ واپس نیچے آجاتے ہیں اور دوبارہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، سیڑھی ملنے پر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور جیت آپ کا مقدر بن جاتی ہے۔
ہم مائیں، بہنیں، بیٹیاں اس مملکت خداداد میں ہر سال چاہتے نہ چاہتے ہوئے سانپ اور سیڑھی سے مشابہ ایک کھیل میں حصہ لیتی ہیں اس سالانہ کھیل میں ایک سے لیکر 365 تک خانے ہیں، ہر خانہ ایک دن کے برابر ہے، اس میں بھی چند سیڑھیاں ہوتی ہیں اور سانپ بھی ، مگر وہ صرف سانپ نہیں ہیں بلکہ درندے ، بھیڑیئے، ناگ ، بچھو، دو پائوں والے کتے اور گدھ سب شامل ہیں جو چار سمتوں سے حملہ کرتے ہیں،جو اپنی سرخ زبانوں، خونخوار دانتوں اور زہریلے ڈنکوں کے ساتھ ایک سے 365 تک کے خانوں میں جابجا موجود ہوتے ہیں، کہیں انہوں نے خود کو چھپانے کیلئے روایات اور رسم کی چادر اوڑھ لی ہے اور کہیں غیرت اور عزت کا نقاب لگالیا ہے۔
جوں ہی کھیل شروع ہوتا ہے سب تاک لگا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کہیں کوئی سیڑھی پر نہ چڑھ جائے کوئی زندہ نہ نکل جائے آیئے میں آپ کو 2022 کے اس ’’سیڑھی درندہ ‘‘ کھیل کی تفصیل دکھائوں بھی اور سنائوں بھی۔ یہ چیخیں یہ آہیں، یہ آنسو یہ ہچکیاں کسی اور کی نہیں یہ میرے وطن کی عورتوں اور بچیوں کی ہیں۔یہ صدائیں آسمان تک جاتی تو ہیں مگر نہ آسمان گرتا ہے اور نہ زمین پھٹتی ہے۔ ان 365 دنوں میں یہ عورتیں ذہنی ، جسمانی، جنسی اور سماجی تشدد کا نشانہ بنتی رہیں۔
روز کوئی نا کوئی واقعہ سوشل اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتا رہا ، دو چار دن گذرتے ہیں پھر کوئی نیا دل ہلادینے والا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ عورت جسے تتلی، پھول، مور اور ہرن سے تشبہہ دی جاتی ہے۔ جو بچپن میں باپ کے لئے برکت کے دروازے کھولتی ہے۔ جوانی میں شوہر کا ایمان کامل کرتی ہے اور ماں بنتی ہے تو جنت اس کے قدموں میں آجاتی ہے وہ غذا کی قلت، ناکافی صحت کی سہولت کے ساتھ تعلیم کے مواقع سے محروم ہے۔
اس پدرسری معاشرے میں جہاں صنفی امتیاز دن بدن بڑھ رہا ہے، وہیں عورت کو دس دس انگلیوں والے انسان نما درندے ان کی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں۔ پاکستان کی کل آبادی کا 54 فیصد حصہ عورتوں پر مشتمل ہے جو ہر سطح پر تعزیتی رویئے کا شکار ہیں۔ 2022 میں ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس کی بنیاد پر دنیا کے 146 ممالک میں پاکستان کا نمبر 145 ہے۔
عورتوں کے امن اور تحفظ کے لحاظ سے وومن پیس اینڈ سیکورٹی انڈیکس کے 170ممالک میں پاکستان کا نمبر 167ہے2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان عورتوں کے تحفظ اور امن کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے۔
ہر گذرتے سال کے ساتھ خواتین پر تشدد کے واقعات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس میں تعلیم یافتہ ان پڑھ، امیر غریب مراعات یافتہ ،عورت ہر جگہ مشکل میں اور غیر محفوظ نظر تھی۔ گھر، مدرسہ، مسجد، اسکول کالج، یونیورسٹی، تفریحی مقام، آفس ، پولیس اسٹیشن ، جج کا چیمبر، بس ،رکشہ ٹرین حتیٰ کہ قبرمیں بھی ۔ ہم کون ہیں۔؟ معاشرے میں رائج ہر گالی کا عنوان عورت ہے۔ پدر سری معاشرے میں برسوں سے پرورش پانی والی ذہنیت مردوں کو بتاتی ہے کہ عورت تم سے کمتر ہے یا محکوم ہے۔ تھپڑ مارنا، مضروب کرنا حتیٰ کے قتل کردینا کوئی بڑی بات نہیں۔ اسے مار دو، جلا دو، بازار میں گھسیٹو ،ریپ کردو، تیزاب سے جھلسا دو، وراثت میں حق مانگنے پر تشدد کا نشانہ بنا دو ،سب جائز ہے۔
ملک میں اغوا ،تشدد، خواتین اور بچوں سے زیادتی کے واقعات میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ امسال صوبہ سندھ میں چھ ماہ کے دوران غیرت کے نام پر قتل کے 32واقعات رپورٹ ہوئے۔ 108عورتوں کا قتل ہوا، 119عورتوں نے خود کشی کی، 11عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 40 خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی، 74 عورتوں کو اغوا کرلیا گیا۔ فی الحال ان اعداد و شمار کو یہاں چھوڑتے ہیں اور آتے ہیں، اس سالانہ ’’درندہ سیڑھی‘‘ والے کھیل کی طرف ؍2022 کے اس کھیل کے پہلے دن ،عمر کوٹ کی گل زادی کو خاندانی تنازعہ کی وجہ سے سگے بھائی اور بیٹے نے تشدد کرکے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ ملیر کراچی میں غیر قانونی جرگے کے مجمع میں شوہر اور سسر نےبے بس بہو پر تشدد کیا اور سارے لوگ دیکھتے رہے۔ آگے بڑھیئے ننکانہ صاحب میں بھائی نے گھریلو ناچاقی پر 2سگی بہنوں کو قتل کردیا ۔
علی پور میں بھائی نے شادی شدہ بہن کے بال کاٹ ڈالے اور قتل کی کوشش کی ۔چھاچھرو میں شوہر نے بیوی پر گرم سلاخوں سے تشدد کیا ۔
ہالا میں دیور اور سسر نے ملکر بھابی کو گلہ دبا کر قتل کردیا ۔ حیدرآباد میں عینی بلوچ کو اس کے شوہر نے قتل کردیا۔شادی سے انکار پر سکھر میں پوجا کو واحد بخش لاشاری نے قتل کردیا۔ سمبڑیال میں 3افراد نے زیادتی کی کوشش میں ناکامی پر 26سالہ اشرفی کی زبان کاٹ دی اور کپڑے پھاڑ دیئے۔فیل آباد میں اپنے بھائی کیلئے سالی کا رشتہ نہ ملنے پر بیوی اور 5ماہ کے بیٹے کو تیز دھار آلے سے قتل کردیا۔ گلستان جوہر میں بیٹے نے ماں کا گلہ کاٹ کر قتل کردیا۔اسلام آباد میں سارہ کو اس کے شوہر شاہنواز نے گھر میں تشدد کرکے قتل کردیا۔
پنوں عاقل میں سابقہ شوہر کی جائیداد میں حصہ مانگنے پر سسر اور دیور نے عورت کو قتل کردیا۔ ھالا میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والی مزدور جو بیمار تھی علاج کیلئے رقم مانگنے پر مالک کے تشدد کے نتیجے میں فوت ہوگئی۔
سندھ یونیورسٹی کی طالبہ کو اس کے شوہر نے آگے مزید پڑھنے کی خواہش اور پیسے مانگنے پر قتل کردیا۔
سانگھڑ کی 18سالہ رضیہ کو ساس اور سسر نے لوہے کی گرم راڈ سے جلا کر تشدد کیا۔ وہ آئی سی یو کراچی میں موت سے لڑ رہی ہے۔
سجاول کی 26سالہ حاملہ عابدہ گھریلو ناچاقی پر شوہر کے ہاتھوں قتل ہوگئی۔
کوئٹہ کی یونیورسٹی کی طالبہ آمینہ کو شوہر نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
اسلام آباد میں خاتون کانسٹیبل اقراء قتل کردی گئی۔
مٹیاری کی 30 سالہ فہمیدہ کو ساس اور دیور نے گلا دبا کر قتل کردیا۔ سیلاب اور تباہی کے دنوں میں زندگی رک سی گئی مگر عورتوں کے قتل میں کوئی وقفہ نہیں آیا۔
ہنگورجہ میں بیٹی کے رشتے کے معاملے میں بحث کی وجہ سے ڈی آئی جی کمپلین سیل کی انچارج زلیخا کو شوہر نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
میک اپ کرنے اور نئے کپڑے پہننے پر 22 سالہ ملوکاں کو کلہاڑی کے وار سے قتل کردیا گیا؎
قتل ہوئے ہم اس طرح قسطوں میں
کبھی خنجر بدل گئے کبھی قاتل
کوئی دھرنا، کوئی احتجاج ، کوئی واویلا ، کوئی تحریک کوئی پکار تو ہو،شاید عورت کا قتل اور خون حلال ہے۔ اپنے سلگتے آنسو دل کی آستیں سے پونچھ لیجئے ،آگے دیکھیں۔ فیصل آباد کی میڈیکل کی اسٹوڈنٹ کو شادی سے انکار پر جوتی چٹوائی گی۔
فیصل آباد میں دوکان داروں کی جانب سے چوری کے شک پر عورتوں کو بے لباس کردیا گیا۔
بھاول نگر ہارون آباد کے بازار میں دوکان داروں نے دو عورتوں پر چائے کی پتی کا پیکٹ چوری کرنے کا الزام لگا کر ان ہی کے دوپٹوں سے باندھ کر انہیں بازار میں گھسیٹا۔
کیا پاکستان میں عورت کے قتل یا تشدد پر عورتوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی……؟؟
دیکھیں چند عورتیں اس درندہ سیڑھی کھیل میں چند خانے اوپر چلی گئی ہیں مگر زیادہ تر یہاں پر ہی رک گئی ہیں انہیں دو پائوں والے کتے اور بھیڑیئے بھنبھوڑ رہے ہیں۔ ’’ریپ‘‘ یہ تین حرفی لفظ کبھی سانپ بن کر ڈستا ہے کبھی بچھو بن کر ڈنک مارتا ہے اور کبھی گدھ بن کر مردار پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ کتنا آسان ہے عورت کے ساتھ زیادتی ، بہن کے ساتھ زیادتی، بیٹی کے ساتھ زیادتی ، بہو کے ساتھ زیادتی، کزن، بھانجی، بھتیجی کے ساتھ زیادتی ، مریضہ، شاگرد، پڑوسن حتیٰ کہ لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ زیادتی۔
معاشرے میں جنونیت، حیوانیت، شہونیت اور عدم برداشت بڑھتی جارہی ہے،مگر ارباب اختیار کی ترجیحات دوسری ہیں سب بے خبر ہیں کہ عدم تحفظ کا روگ اور خوف عورت کو آہستہ آہستہ نگل رہا ہے، یہ سانس لیتی ہوئی زندہ عورت تو ہے مگر جینا نہیں جانتی۔ کوئی ناجانتا ہے اور ناہی سمجھنا چاہتا ہے کہ شکستہ دل اور روح کے ساتھ زندگی کیسے بسر کی جاسکتی ہے۔ دل تھام کر دیکھیں اور سنیں۔
راجن پور میں زمیندار کے ڈیرے پر خاتون کے ساتھ 6 افراد کی اجتماعی زیادتی۔نوشہرہ فیروز میں 16 سالہ یتیم بچی کو عطائی ڈاکٹر نے نشہ آور انجیکشن لگا کر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ تھرپاکر میں گینگ ریپ کے بعد متاثرہ لڑکی نے خود کشی کرلی۔ گگو منڈی میں 6 ڈاکوئوں نے بچوں کے سامنے دو عورتوں کا گینگ ریپ کردیا۔
ملزمان نے سیلاب زدہ علاقے میں آنے والی9 سالہ بچی جو بھیک مانگ رہی تھی اغوا کرکے جنسی زیادتی کی۔ اوکاڑہ میں سوتیلے باپ ن 10 سالہ یتیم بچی سے زیادتی کی۔ لاہور میں سویلے نانا نے 9سالہ نوسی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔
یہ ساری خبریں روح کو گھائل کردیتی ہیں مگر ایک دل چیرنے والی خبر تہکال پشاور کی ہے جہاں 13 سالہ یتیم بچی کو ہوس کا نشانہ بنانے والے شخص کو قانون کے حوالے کرنے کی بجائے اہلیان محلہ بچی کو راضی نامے کیلئے منانے کی کوشش کرتے رہے۔
یہ ہے ہمارے معاشرے کابد نماچہرہ ۔ یہ پدرسری معاشرے کی روایات۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورت اتنی بے بس اتنی بے توقیر اتنی غیر محفوظ کیوں ہے۔ ان عورتوں کو دل اور روح کی انکھ سے دیکھیں تو وحشت محرومی، درد و غم اور کرب و الم کی تصویر نظر آتی ہے۔ ریاست مدینہ ثانی میں ہر روز عصمت دری کے کم از کم 11 کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
وہ سسکیاں اور آہیں جو اپنے آپ میں ہر دم توٹتی جاتی ہیں، ان کا ذکر ہی کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ عورت کی طرف سے خود سوال کرے گا۔ ’’وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی‘‘ تو اس سوال کے جواب کے لئے معاشرہ ریاست، عدلیہ اور مقننہ کو تیار رہنا چاہئے ۔آگے آیئے دیکھیں ذہنی سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ان عورتوں میں خود کشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
اسلام آباد کوٹ میں 24گھنٹوں میں تین عورتوں نے خود کشی کرلی۔ لاہور میں وومن یونیورسٹی کی طالبہ نے تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی۔خیرپور میں 19سالہ منیشا لولو نے بیماری سے تنگ آکر اور بٹھ میل میں 20سالہ اندرا بھیل نے گھریلو ناچاقی پر خودکثی کرلی۔ بلوچستان کے ضلع کیچ میں سدرہ بی بی نے میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ میں کم نمبر آنے پر خود کشی کرلی۔
ٹنڈو غلام حیدر میں جمی کولہی نے غربت سے تنگ آکر اور رحیم یار خان میں بچوں کی بھوک کے آگے بے بس ہو جانے والی ماں نے خود کشی کرلی۔
تھوڑا سا آگے بڑھئے،دیکھیں چند عورتیں ان عفریتوں سے بچ بچا کر سیڑھیوں پر چڑھتی آگے کی جانب بڑھیں، مگر راستے میں بیٹھے درندوں سے بچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ مگر بے غیرتوں نے سارا سال قتل و غارت کا بازار گرم رکھا۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا۔امسال قریباً 1000 عورتیں غیر ت کے نام پرقتل ہوئیں۔ جہاں غیرت کے علاوہ دشمنی کا بدلہ اور جائیداد کے تنازعے بھی غیرت کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک شخص نے زمینوں کے جھگڑے میں جب ایک شخص کو قتل کردیا تو خود کو بچانے کیلئے اپنی 80 سالہ نابینا والدہ کو اسی جگہ لاکر کاری کرکے قتل کردیا۔ سکھر میں 2بھائیوں نے اپنی بہن کو ، رحیم یار خان میں باپ نے بیٹی کو پسند کی شادی کرنے پر اور کشمور میں دیور نے اپنی بھابھی کو کارو کاری کے الزام میں قتل کردیا۔
ادھر جیکب آباد میں 5سالہ بچی فاطمہ پر سیاہ کاری کی تہمت لگانے والے ماموں کو بروقت پولیس نے گرفتار کرلیا۔ رواں سال میں اب تک 253 خواتین اور مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا ہے۔ ضلع کشمور میں کارو کاری کے الزام پر قتل کئے جانے والے 67 افراد میں 53 عورتیں شامل ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں باپ ، بھائی ، دیور، چچازاد بھائی اور سسر نامزد ہیں۔ جون 2022 تک 88 خواتین اور 211 مرد غیرت کے نام پرقتل کردیائے گئے۔
نیند بھی ادھ مری آنکھ سیاہ رنگ بھی ذرد
خواب بھی خون میں تھڑے ہوئے پالے ہم
آپ بھی اپنی آنکھوں میں آئے آنسو پونچھ ڈالیں۔ تھوڑا سا اگے آیئے یہاں وہ بیٹھے ہیں جو عورتوں کو تیزاب سے جھلساکر ان کی شناخت آن کے چہرے کو بگاڑ دیتے ہیں۔
مجھے یہ حکم تھا مجھے آگ پر ہی چلنا ہے
میں بے گناہ تھا پھر بھی جلا کے مارا گیا
رحیم یار خان میں گھریلو ناچاقی پر شوہر نے بیوی پرتیزاب بھینک کر اسے جھلسا دیا۔سکھر میں شوہر نے بیوی اور8سالہ بیٹی پر تیزاب ڈال دیا، بچی جاں بحق ہوگئی۔ کراچی سچل گوٹھ میں لیڈی پولیس اہلکار پرتیزاب پھینک دیا گیا۔ٹنڈوالہ یار میں آٹھویں جماعت کی طالبہ دوستی نا کرنے پر اوباش نوجوان کے ہاتھوں تیزاب گردی کا شکار ہوگئی۔
تھوڑا سا اور آگے بڑھیں سوشل میڈیا کے منفی ماہرین اور سائبر کرائم میں ملوث لوگوں کی طرف آجایئے۔
ٹنڈو محمد خان میں طاہر بھٹی نامی شخص اسکول اور کالج کی لڑکیوں کو بلیک میل کرنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے، وہ لڑکیوں کی تصویروں کوع ایڈٹ کرکے انہیں ہراساں کرتا تھا۔
کوئٹہ میں تین عورتوں کا برہنہ ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا ۔اوکاڑہ میں نبیلہ بی بی نے اپنی برہنہ تصاویر وائرل ہونے پر خود کشی کرلی۔
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی پروفسرز اور اساتذہ کا طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ رجسٹراڈ سندھ یونیورٹی طالبہ کو ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے۔ اور تو اور جنسی ہراسانی کے کیس میں ڈی جی پیمرا کو برطرفی کا حکم مل گیا۔ کراچی میں دو یتیم بچوں کی ماں خاتون ویکسی نیٹر ساتھی مردوں کے نامناسب رویئے اور ہراساں کرنے کی وجہ سے نوکری سے مستعفی ہوگئی۔
بنوں میں خواتین کا واحد فیملی پارک بند کردیا گیا ہے ،کیونکہ گیٹ کے باہر اوباش لڑکے جمع ہوکر 14 اگست کو باجے باجا رہےاور خواتین پر آوازیں کس رہے تھے، حالانکہ پار کی بجائے لڑکوں کو بند کرنا چاہئے تھا۔ پب جی گیم، لائکی ایپ اور نیٹ چیٹ کے نتیجے میں پہلے کراچی کی دعا زہرا گھر سے غائب ہوئی پھر نمرہ کاظمی لاپتہ ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں بعد نوشہرہ کی سونیا نے گھر سے لاپتہ ہوکر والدین کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کرلی۔ وجوہات کچھ ہی ہوں،اگر گھر میں محبت اور اعتماد کی فضا ہوتی تو شاید ایسا نہ ہوتا دوسری طرف سکھر میں پسند کی شادی کرنے کے معاملے پر مسلح افراد نے گائوں کو آگ لگا دی۔
اسی سال کراچی یونیورسٹی کی شاری بلوچ فزکس ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ نے خود کش حملہ کرکے خود کو ختم کرلیا۔… اور ایک سوالیہ نشان چھوڑ دیا۔
شہزادیوں کے خواب ہوا نے چرالئے
تعبیر میں بھی نیند کی سسکی حنوط تھی
کنگن پور ضلع قصور میں مسجد کے سامنے سے ایک نوزائیدہ بچی پڑی ملی،جس کے ہاتھ میں ایک پرچی تھی، اس پر دل چیرنے والی تحریر ہے، جناب مولوی صاحب میرے خاوند نے بولا ہے کہ لڑکی پیدا ہوئی تو طلاق دے دوں گا۔ میں طلاق کے ڈر سے بچی کو یہاں چھوڑ کر جارہی ہوں۔ خیر پور ناتھن شاہ میں نامعلوم عورت اسپتال میں نوموجود بچی کو چھوڑ کر فرار ہوگئی۔
ایک دن کی بچی کو 5 گولیاں مارنے والے باپ کو تو کوئی بھول ہی نہیں سکتا۔دوسری جانب سیلاب متاثرین میں قریباً سات لاکھ عورتیں حاملہ ہیں۔ سوچیں ان پانیوں میں گھری عورتوں کو، کیا کھانا اور کیا دوا ملتی ہوگی۔ زچگی کی صورت میں ان پر کیا بیتے گی۔
عورتوں کی زندگیاں تو خواہشوں ، خراشوں ، خیالوں اور خوابوں س عبارت ہیں۔ ایسی ہی خواب دیکھنے والی ثابت قدم عورتیں وہ ہیں جو ’’درندہ سیڑھی‘‘ کھیل میں ہر طرح کے حالات ، خطرات اور اعتراضات کو جھیل کر چار سو حملہ آور ہوتے ہوئے درندوں سے بچ کر زندہ کامیابی کی انتہا پر پہنچ گئی ہیں۔ یہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچی ہیں۔ ملک میں لڑکیوں میں تعلیم کا تناسب لڑکوں سے کم ہے مگر پھر بھی ہر بورڈ کے امتحان میں لڑکیوں نے لڑکوں پر سبقت حاصل کی ہے۔
ان تمام عورتوں کی ہمت، حوصلے اور عزم سے عشق ہے، کیونکہ یہ آگے بڑھتی رہتی ہیں، چلتی رہتی ہیں، زمین پر، فضا میں اور پانیوں پر، تب تک جب تک وہ خود کو نا پہچان لیتی ہیں۔ اپنی قوت ، عزت اور توقیر کو۔ یہ رواجوں کی سولیوں پر لٹک کر کفن کا انتظار نہیں کرتیں اور ناہی یہ باہر کی دنیا سے لا تعلق گھر کی چار دیواری میں گول روٹی بنانے ،جھاڑوں مارنے او بچے پیدا کرنے تک محدود رہتی ہیں، ناہی یہ معاشی طور پر مرد کی محتاج ہوتی ہیں اور ناہی ان کے گلے میں رسم و رواج کے کانٹے دار ہار ہوتے ہیں۔ انہیں دنیا میں سر اٹھا کر جینا آتا ہے۔
عورتیں کسی بھی طرح مردوں سے کمتر نہیں ،بس ہمیں صنفی امتیاز ختم کرنا ہوگا۔
ہیومن رائٹس کی تعلیم بچوں کے نصاب میں شامل کرنا ہوگی۔
بچپن سے لڑکوں کے دماغ میں یہ بات بٹھانا ہوگی کہ لڑکیاں ان جیسی انسان ہیں۔ ان کے برابر ہیں ۔
ریاست کو قوانین کا نفاذ سختی سے کرانا ہوگا۔ پنجاب میں تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کا ایکٹ 2016 اسمبلی سے منظوری کے 6 سال بعد بھی نافذ العمل نہیں ہوسکا ہے۔ چند ماہ قبل 2022 میں ترمیمی بل کابینہ کو بھجوایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تشدد کے خلاف خواتین کے تحفظ کا قانون نافذ العمال ہونا ضروری ہے۔
وراثت میں عورت کے حصے کیلئے بھی قانون بننا چاہئے۔ ڈیرہ اسماعیل کی خاتون بی بی کو سپریم کورٹ نے 46سال بعد وراثتی جائیداد میں حصہ دار قرار دے دیا ہے۔
خواتین، بچے، معذور افراد یا خواجہ سرا انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر فون1094 یا 1099 پر شکایت درج کروا سکتی ہیں۔
وفاقی وزارت قانون کی ہدایت پر اینٹی ریپ ایکٹ2022 کے تحت سیشن کورٹ میں پانچ اسپیشل عدالتیں قائم کی گئی ہیں جہاں عورتوں اور بچوں سے زیادتی کے کیسوں کو چار ماہ میں نمٹا دیا جائے گا۔
ایک بہتر سماج کی تشکیل اور دنیا میں کامیاب قوم کہلانے کیلئے عورتوں کو متناسب تعداد میں ہر شعبے میں شامل کرنا ہوگا۔ پائیدار ترقی اورصنفی برابری کیلئے ضروری ہے لڑکیوں اور عورتوں کو با اختیار بنایا جائے۔وقت تیزی سے گذر رہا ہے۔
آنکھ کی پتلی پر کوئی عکس نہیں ٹھہر پاتا ۔ یہ زندگی ایک دریا ہے جو آگے کی جانب رواں دواں ہے۔ جو کبھی پیچھے نہیں پلٹتی۔ اگرہم چاہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں عورت ذہنی، جسمانی ، سماجی، جنسی اور مالی تشدد کا شکار نہ ہو اور اسے درندہ سیڑھی کھیل ناکھیلنا پڑے تو تمام عورتوں کو مل کر محنت لگن اعتماد اور محبت کے ساتھ ایک روشن صبح کا انتظار کرنا ہوگا۔
نفرتوں کی سیاہ راتوں میں
عشق سے تھوڑی روشنی مانگو
اس سے پہلے کے خواب مرجائیں
اپنے خوابوں کی زندگی مانگو