موجودہ سیاسی صورتحال میں اگلے چند ہفتے بڑے اہم ہیں جس میں بڑے بڑے فیصلے متوقع ہیں مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے بعد اب سپیکر سبطین خان اور ڈپٹی سپیکر واثق قیوم کے خلاف جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی تحریکیں بھی واپس لے لی ہیں اور اپوزیشن نے اپنی ساری توجہ وزیر اعلیٰ کو ایوان سے اعتماد لینے سے روکنے پر مرکوز کر دی ہے سپیکر نے 9 جنوری کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کر کیا ہے جسے وزیر اعلیٰ پنجاب کے ایوان سے ووٹ لینے کا امکان ہے پنجاب اسمبلی سے وزیر اعلیٰ کے اعتماد کا ووٹ لینے یا نہ لینے دونوں صورتوں میں ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ تخت پنجاب کیلئے وفاق کی حکمران پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور تحریک انصاف کی جنگ سیاسی داؤ پیچ آزماتے ہوئے نئے سال میں داخل ہوگئی ہے۔ نئے سال میں نئے سیاسی داؤ پیچ آزمائے جارہے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قبل ازوقت انتخابات کے مقصد کیلئے قومی اسمبلی سے استعفوں اور پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے پی ڈی ایم کو مجبور کرنے کیلئے کم و بیش ہر حربہ استعمال کرچکے ہیں لیکن تاحال اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم بہرصورت پنجاب اسمبلی کو تحلیل سے بچاکر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکمرانی کیلئے کوشاں ہے کیونکہ ملکی سیاست میں ہمیشہ وفاق کی مضبوطی کو پنجاب میں اقتدارسے جوڑا گیاہے لہٰذا اسی وفاقی حکومت کو مضبوط تصور کیا جاتا ہے جس کی پنجاب میں بھی حکومت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم محمد شہبازشریف کی آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن اور چودھری شجاعت حسین سے ملاقاتوں میں قائدین نے وفاقی حکومت کو مستحکم کرنے اور اسمبلیاں تحلیل ہونے سے بچاکر حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے سے مشروط کردیا ہے اور گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرکے صوبائی کابینہ تحلیل کرنے کے اقدامات اسی معاملے کی کڑی ہیں۔
ملک میں سیاسی، معاشی سماجی اور دفاعی استحکام سے قومی سلامتی، آئین و قانون کی بالادستی سے عوام کا مستقبل وابستہ ہے اور ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ یا تو تمام سیاسی قوتیں درپیش چیلنجز کے لیے ایک پیج پر ہوں یا پھر کسی طرح کا سیاسی عدم استحکام نہ ہو مگر مرکز میں تبدیلی آنے کے بعد سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھتا جارہا ہے۔
سال نو 2023ءکو انتخابات کا سال قرار دیا جارہا ہے مگرموجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے میں چند ماہ باقی رہ جانے کے باوجود قبل ازوقت انتخابات کی گردان نے مسلسل ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کررکھی ہے اور ریاست کے اہم اداروں کی کوشش کے باوجود سیاسی استحکام نہیں آرہا لہٰذا پنجاب اسمبلی بچانے اور گرانے کی سرتوڑ کوششیں ہورہی ہیں ، اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے اور بچانے کے لیے جوڑ توڑ ، رابطوں اور متاثر کن وعدوں کا سہارا لیا جارہا ہے مگر اسی اثناءمیں جب ایک وفاقی اور صوبائی حکومت سیاسی معاملات میں پوری طرح الجھی ہوئی ہیں مرکز میں جہاں معاشی، سیاسی، داخلی و خارجی، مہنگائی، گیس اور بجلی جیسے گھمبیر چیلنجز مکمل توجہ کا تقاضا کررہے ہیں تو دوسری صرف پنجاب میں ایسے ہی چیلنجز ہیں مگر سیاسی لڑائی میں عوام کی زندگی بری طرح اجیرن ہوچکی ہے، لہٰذاسال تو نیا آگیا ہے مگر اِس کے کندھے پر بھی وہی مسائل ہیں جو گذشتہ سال کے کندھے پر تھے، وعدوں اور وعید کے باوجود غریب کی حالت نہیں بدل سکی ، البتہ چوھری پرویز الٰہی بطور وزیراعلیٰ پنجاب کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ڈیلیور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، پنجاب اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی اور کابینہ کے پے درپے اجلاسوں اور تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کرنے والے اقدامات و فیصلوں کے ذریعے چودھری پرویز الٰہی عام انتخابات میں کامیابی کے لیے اپنی اور اتحادی جماعت پی ٹی آئی کی راہ ہموارکررہے ہیں، کیونکہ قلیل وقت میں جتنا زیادہ ڈیلیور کریں گے رواں سال ہونے والے انتخابات میں اِس کا اتنا ہی زیادہ سیاسی فائدہ ہوگا۔
اگرچہ عمران خان قومی اسمبلی سے استعفوں اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے قبل ازوقت انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں مگر سیاسی حالات بالخصوص لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کے بعد صورتحال یکسر بدل چکی ہے، چودھری پرویز الٰہی عدالت میں یقین دہانی کراچکے ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے، پھر گورنر پنجاب کی طرف سے اعتماد کا ووقت لینے کیلئے مراسلہ اور ایوان کی دونوں اہم شخصیات سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے بھی کئی طرح کی قانونی و آئینی و پیچیدگیاں پیدا ہوچکی ہیں اور عمران خان کے دست راست سپیکرصوبائی اسمبلی محمد سبطین خان بھی انہیں مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے فیصلے پر نظرثانی کریں کیونکہ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں تحریک انصاف کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے کشادہ ماحول نہیں ملے گا بلکہ اس کے برعکس وفاقی حکومت کی طرف سے انتقامی کارروائیاں عمل میں آسکتی ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھی اگرچہ پنجاب اسمبلی کو عمران خان کی امانت قراردیتے ہیں مگر وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی بجائے پی ڈی ایم کی حکومت پر اسی طرح دباؤ بڑھایا جاتا رہے تاکہ قومی اسمبلی سے باہر نکلنے والی غلطی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں دھرا کر اِس کا خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔
ملک کے تمام سیاست دانوں کی نظریں لاہور ہائیکورٹ پر مرکوز ہیں کیونکہ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اور اِن کی کابینہ کی معزولی پر چودھری پرویز الٰہی نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کیا تھا مگر عدالت نے ریلیف دینے کے بعد اگلی سماعت کے لیے گیارہ جنوری تاریخ مقرر کی ہے۔ ہائیکورٹ نے چودھری پرویز الٰہی سے پنجاب اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا بیان حلفی لیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چودھری پرویز الٰہی، صوبائی وزراءاور اراکین صوبائی اسمبلی کی کثیرتعداد بھی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے سے متفق نہیں اور سبھی واضح موقف رکھتے ہیں کہ ایسی صورت میں پی ڈی ایم کو فری ہینڈ بھی ملے گا اور ہمارا سیاسی نقصان بھی ہوگا لہٰذا اسمبلی تحلیل کرنے کی بجائے پی ڈی ایم پر پریشر بڑھایا جاتا رہے اور اسی دوران صوبے میں زیادہ سے زیادہ عوام کو ریلیف دیکر رائے عامہ کو اپنے حق میں کیا جائے۔
تاہم عمران خان کے بعض قریبی ساتھی سیاسی صورتحال اور آئینی و قانون پیچیدگیوں اور اسمبلی تحلیل کرنے کے مضمرات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان کے فیصلے کی تائید کررہے ہیں کہ اسمبلی تحلیل کردینی چاہیے مگر یہاں ایسے بھی دوراندیش ہیں جو دبے لفظوں میں عمران خان کو تحلیل کرنے کے نقصان سے آگاہ کررہے ہیں لیکن اِس ساری صورتحال میں بہرصورت پنجاب اسمبلی تحلیل ہوتی نظرنہیں آرہی کیونکہ پی ڈی ایم کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار میاں حمزہ شہباز شریف اور دوسری طرف وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے چودھری مونس الٰہی حالیہ دنوں بیرون ملک ہیں لہٰذا ان دونوں شخصیات کا سیاسی لحاظ سے تشویش میں مبتلا نہ ہونا اور سیاسی جوڑ کا حصہ نہ بننا ظاہر کرتا ہے کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کا دورتک کوئی امکان نہیں ۔