ملک میں سیاسی بے یقینی کے ماحول میں پاکستان اپنی معاشی جنگ لڑ رہا ہے اور اس صورتحال سے برسرپیکار حکمران طبقہ اس حقیقت سے پوری طرح ادراک رکھتا ہے کہ ان کا اقتدار ہی نہیں بلکہ سیاسی اور ملکی معیشت کی بقا بھی دائو پر لگی ہوئی ہے پھر ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف)کی شرائط تسلیم نہیں کرتا تو اس صرف اس کیلئے ہی نہیں بلکہ کروڑوں عوام کو جس سنگین معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے تصور سے ہی خوف آتا ہے اس ادارے کی شرائط کی وجہ سے ہی سال 2022 میں پٹرول کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا جس باعث ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان آ گیا۔
یہ کمال بات ہے کہ آئی ایم ایف بالخصوص پاکستان میں معاشی استحکام کے لئے جو اقدامات تجویز کرتا ہے ان سے صرف غریب اور تنخواہ دار متاثر ہوتا ہے،طبقہ اشرافیہ جن میں اراکین پارلیمنٹ، وزرا، کارخانوں، انڈسٹری کے مالکان اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ارب پتی محفوظ رہتے ہیں اگر انہی طبقات کے زیر استعمال اشیا اور آمدنی پر دوگنے ٹیکسز عائد کر دیئے جائیں تو غریب اور متوسط طبقات کی زندگی کچھ آسان ہوجائے۔
ایک جائزے کے مطابق پاکستان اپنے بگڑتے ہوئے معاشی حالات کے پیش نظر گزشتہ تین دہائیوں میں دس سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے لیکن اس کے فیصلے ثمرات آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں اور ناکامیوں کی اس شرح کے بارے میں آئی ایم ایف کے حکام کا ایک ہی موقف سامنے آتا ہے کہ پاکستان قرض لیتے وقت جو وعدے اور یقین دہانیاں کراتا ہے اوروعدےکرتا ہے ان پر پورا نہیں اترتا جبکہ دوسری طرف حکومتوں میں شامل معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کا ’’خراج‘‘بہت زیادہ ہوتا ہے موجودہ صورتحال میں اب بھی معاشی ماہرین اور تجزیہ کار صورتحال سے نکلنے کیلئے یہی تجویز کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی تجاویز مان کر ڈیفالٹ سے بچنے کیلئے اور اپنے مفادات کی حکمت عملی خود تیار کر کے اس بنیادوں پر معاشی اصلاحات لانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، عمران خان پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین بھی اب عمر کے 70-Club میں شامل ہونے کو آئے ہیں لیکن اس عرصے میں تین دھائیوں کا طویل عرصہ ان کی لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کا ہے ان دنوں پاکستان کی سیاست میں الطاف حسین کی وطن واپسی کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور امکانات کے موضوع پر گفتگو اور خبروں کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے اور بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں اُن کے چاہنے والے جو حالات کی وجہ سے بند کمروں اور نجی محفلوں میں ایم کیو ایم کے ترانے گاتے تھے انہوں نے گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران اعلانیہ ’’اپنے قائد‘‘ کے نعرے میں لگا کر منتظمین کو پریشان کردیا۔
دوسری طرف لندن سے آمدہ اطلاعات کے مطابق الطاف حسین نے چند روز اپنے گھر میں ہونے والی حلیم پارٹی کے موقع پر شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ الطاف حسین کا ’’چیپٹر کلوز‘‘ ہوگیا ہے میں یہاں لندن سے یہ سوال اُن سے پوچھ رہا ہوں کہ وہ یہ بھی بتادیں کہ الطاف حسین کا ’’چیپٹرکلوز‘‘ کون کرسکتا ہے؟ (یقیناً الطاف حسین کے اس سوال میں کئی معنی مفہوم اور اشارے پنہاں ہیں)۔ الطاف حسین کو لندن کی ایک عدالت شواہد نہ ملنے پر ایک مقدمہ سے بری قرار دے چکی ہے۔
یہ مقدمہ اُن کے خلاف گزشتہ سال2022 کے آغاز پر پاکستان میں لوگوں کو دہشت گردی پر اکسانے اور منافرت پھیلانے اور نفرت انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں قائم کیا گیا تھا جو مبینہ طور پر انہوں نے 2016 میں کی تھیں۔ لندن کے ہی ذرائع کے مطابق الطاف حسین لندن میں مقیم بعض اہم پاکستانی ’’سیاسی شخصیات‘‘ سے بھی رابطے ہوئے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف پاکستان میں ایم کیو ایم کے بانی کو شناختی کارڈ جاری کرنے سے متعلق کی گئی درخواست پر اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران ایم کیو ایم کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا پاکستانی ہائی کمیشن لندن نے وکالت نامے کی تصدیق سے انکار کردیا ہے جس پر عدالت کے فریقین کو نوٹسز جاری کیے اور 12 اکتوبر تک سماعت ملتوی کردی۔ اس موقع پر عدالت کے سامنے الطاف حسین کا پرانا اور منسوخ شدہ شناختی کارڈ بھی پیش کیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کی جانب سے اُن کے شناختی کارڈ کے حصول کی کوشش کو بھی اُن کی وطن واپسی کی قیاس آرائیوں کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ تاہم نادرہ حکام نے عدالت کو بتایا ہے کہ الطاف حسین کے شناختی کارڈ سے متعلق ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ الطاف حسین کی وطن واپسی سے متعلق سب سے زیادہ فکر مندی اور پریشانی تحریک انصاف ہوسکتی ہے کیونکہ عمران خان کراچی میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں دیئے جانے والے ریمارکس پر شدید ردعمل کے بعد اب سفارتی سطح پر بھارت کی جانب سے مظلومیت کے لب و لہجے میں کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے اور سفارتی ذرائع کے مطابق بھارت اب اس معاملے کو پاکستان کے خلاف بعض بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اُٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یاد رہے کہ بلاول بھٹو نے نریندر مودی کو گجرات کا قصائی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن مرگیا ہے لیکن گجرات کا قصائی زندہ ہے اور انہوں نے یہ ریمارکس بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے اُس بیان کے بعد سامنے آیا تھا جب اُن کے بھارت ہم منصب نے سلامتی کونسل میں پاکستان پر اسامہ بن لادن کو پناہ دینے اور دہشت گردی کرانے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد جہاں بھارت میں اس حوالے سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا تھا دہلی میں انتہا پسندوں نے پاکستانی ہائی کمیشن پر حملے کرنے کی کوشش کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے معافی مانگنے اور اُن کے سر کی قیمت مقرر کی گئی وہیں پاکستان میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں ملک بھر میں بھارتی ردعمل کے خلاف اپنے پارٹی چیئرمین کے حق میں مظاہرے اور وزارت خارجہ بلاول بھٹو کا بھرپور اور مؤثر انداز میں دفاع کیا۔
گو کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے پیش نظر اور پاکستان دشمن بھارتی منفی طرز عمل کے حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ کا ردعمل قطعی طور پر حق بجانب تھا لیکن سماجی تقاضوں اور بین الاقوامی سفارتی تعلقات کی روشنی میں اپنی نوعمری اور بھارتی وزیراعظم کی طویل العمری کو دیکھتے ہوئے خود اُن کی پارٹی کے بھی بعض سینئر راہنماؤں نے اسے پسندیدیگی کی نظر سے نہیں دیکھا پھر حکومت کی دیگر اتحادی جماعتوں میں بھی اس حوالے بعض تحفظات کی سرگوشیاں ہوئیں جن میں یہ تاثر بھی موجود تھا کہ ایک ایسے وقت میں پاکستان کے وزیر خارجہ کا یہ بیان سامنے آیا ہے جب امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو ناگزیر قرار دیتے خطے میں امن اور پاکستان میں ترقی کے لیے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کررہاہے مذکورہ بیان سے انہیں نقصان پہنچے گا۔
دوسری طرف نئے سال 2023ء میں بھی بظاہر لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہے گا۔ تاہم یہ مسائل اور مشکلات ناقابل شکست نہیں ، انہیں قابو میں لایا جاسکتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ نیا سال پاکستانی عوام کےلئے اچھی خبر لے کر آئے تو ہمارے سیاسی قائدین کو بھی اپنا انداز سیاست تبدیل کرنا ہو گا۔نئے سال میں جہاں نئے انتخابات کی بھی باتیں ہو رہی ہیں وہی پر نئی سیاسی صف بندیوں کے بھی اشارے مل رہے ہیں۔ دعا ہے ہمارے ملک میں بھی نا صرف معاشی استحکام آئے بلکہ سیاسی قائدین بھی اس ملک اور عوام کیلئے مخلصانہ فیصلے کریں۔