• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

تصاویر: محمد اسرائیل انصاری

شریک گفتگو:

ڈاکٹر سیف الرحمن (ایڈمنسٹریٹر،بلدیہ عظمی، کراچی)

عارف حسن (ٹاؤن پلانر، چیئرمین، اربن ریسورس سینٹر)

محسن شیخانی (سابق چیئرمین، آباد)

 کراچی دنیا کا چھٹا اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، بڑھتی آبادی شہر کا بہت بڑا مسئلہ ہے تین سے ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا شہر جسے آخری مردم شماری میں ایک کروڑ 78لاکھ بتایا گیا ہے، شہر کو ملنے والے وسائل آبادی کے مطابق نہیں ہیں، سڑکوں کا انفرا اسٹرکچر بہتر کرنا ہے جس میں 106 بڑی سڑکیں شامل ہیں، کراچی کو ہرابھرا کرنا چاہتا ہوں، الہ دین پارک ہم نے بنانا شروع کیا ہے۔ 100 ٹوائلٹ بنانے کا منصوبہ ہے، دنیا میں شاید ہی کراچی کا طرح کسی شہر کا نظام چلتا ہو، بلدیہ عظمی کراچی کا دائرہ اختیار، ڈی ایم سیز کی حدود، کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود، صوبائی حکومت کی زمینوں کی حدود وفاقی حکومت کی زمینوں کی حدود، پھر کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹیوں کی حدود، دو ہزار تیرہ کا لوکل ایکٹ نے بالکل بے اختیار کردیا، لیکن نئے ایکٹ لانے کی تیاری ہورہی ہے وہ کافی بہتر ہوگا، آنے والامئیر کراچی سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ کنٹرول بورڈ اتھارٹی کے چیئرمین ہوگا اس کے علاوہ بھی اوراختیار ان کے حوالے ہوگا۔

ڈاکٹر سیف الرحمن

عارف حسن
عارف حسن

آکٹرائے جانے سے کراچی کی لوکل گورنمنٹ غریب ہوگئی ہے،نئے ایڈمسٹریٹر شہر کےلیے موثرتحقیقی ادارےکا قیام عمل میں لاسکتے ہیں شہر میں ہونے والےبے دخلی آپریشن کو روکا جائے بے دخل ہونے والوں کی بحالی کے لیے معاوضہ دیا جائے۔ 

کراچی غریب شہر ہے ،کراچی میں چھتیں بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں یہ ناہمواری شہر کے لیے زیادہ خطرناک ہے، اہم ترین میں لینڈ ریفارمز ہے جس کی مدد سےکم مناسب قیمت کے مکان بن سکیں،کراچی کے پچھلے ماسٹر پلان کے مطابق یہاں کے 78فیصد لوگوں کےمکان کےسائز 16 سے 60گز کے درمیان پر مشتمل ہے۔

عارف حسن

محسن شیخانی
محسن شیخانی

800 ایم جی ٹی پانی کراچی میں پچھلے بیس سال سے فراہم ہورہا ہے، شہر کی آبادی دوگنی ہوگئی ہے۔ تیس سال پہلے 17فیصد کچی آبادی تھی آج 51 فیصد ہے، ماسٹر پلان ضروری ہے، ہمیں کراچی کی بحالی کے لیے چار اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنا پڑے گا،فوری پھر شارٹ ٹرم، میڈیم ٹرم اور لانگ ٹرم، ہمیں ایسے شعبوں کو دس، بیس ، پچاس اور سوسال کی ضرورتوں کے مطابق ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے، جس کا جو کام ہے اسے وہ کرنے دیا جائے، تمام چیزوں کی ڈیجیٹلائزیشن کرلیں تاکہ لوگوں کو اداروں کے پاس نہ جانا پڑے ہر چیز آن لائن کرنے کی ضرورت ہے۔ہم پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں اربن فاریسٹ بناسکتے ہیں، سیف سٹی ہونا سب سے زیادہ اہم ہے۔

محسن شیخانی

کراچی کا ذکر ہوتے ہی ذہن میں مسائل سے بھرپورشہرکا منفی تصور بنتا ہے، کوئی کہتا ہے کراچی کچرا کنڈی بن گیا ہے، کچھ کا خیال ہے پانی دستیاب نہیں بل دینے کے بعد بھی خریدنا پڑتا ہے، صحت و صفائی علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونےکی بات کی جاتی ہے، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی شکایت ہے، رہائش کے مسائل پر بات کی جاتی ہے، شہر میں لاتعداد کچی آبادیاں ہیں،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں، غیر معیاری سرکاری اسکول ہیں، عوام پھر نجی سیکٹر کی طرف جاتے ہیں جو مہنگا ہے۔

اتنے ڈھیروں مسائل کے درمیان بااختیار اتھارٹی کامسئلہ آتا ہے،بدقسمتی سے شہر کسی ایک اتھارٹی کے ماتحت نہیں۔ اس سے بھی پہلےبنیادی اور بڑا مسئلہ جس کا تعلق وفاق سے ہے، شہر کی سچی ٹھیک مردم شماری جس پر وفاقی حکومت اور شہر کی سیاسی جماعتیں سنجیدگی سےتوجہ مرکوز نہیں رکھتیں، جب شہر میں رہنے والےلوگوں کی ٹھیک اور ایماندارانہ گنتی نہیں کی جائے گی یہاں کتنے لوگ ہیں اور ان کےلیے کتنے وسائل درکار ہیں ،یہ معلوم کیے بغیر ہم گھر بھی نہیں چلاسکتے تو کروڑوں کی آبادی کا شہر کیسےچلے گا۔ 

آخری مردم شماری میں کراچی کی کل آبادی ایک کروڑ 70لاکھ سےزائد افراد بتائی گئی ہے،جب کہ سب کہتے ہیں کہ آبادی تین کروڑسے زائد ہے، پھر یہ کیسےممکن ہے کہ ڈیڑھ کروڑ افرادکے وسائل میں یہاں رہنے والے تین کروڑ افراد کے ساتھ انصاف کرسکیں۔ شہر میں پانی کے مسئلے کا تعلق بھی وفاق سے ملنے والے پانی کے کوٹے سے ہے۔ دنیا بھر میں ریاستیں کراچی جیسے اپنے بڑے شہروں کے لیے خصوصی وسائل فراہم کرتے ہیں، لیکن کراچی کے ساتھ وفاق کا ایسا کوئی تعلق نہیں ہے،آپ ڈیڑھ کروڑ لوگ گنتے ہیں جب کہ پانی،صحت ،ٹرانسپورٹ،رہائش اور دیگر سہولیات استعمال کرنے والے تین کروڑ لوگ ہیں تو ہمیں ٹھیک مردم شماری پر بھرپور توجہ دینی ہوگی۔

ایک اور حیرانی کی بات، کراچی کا ماسٹر پلان نہیں ہےسارے کام بغیر منصوبہ بندی کے ہورہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کا ماسٹر پلان ہو پھراسی کےمطابق کام کیے جائیں،ایسے ہی ڈھیروں مسائل میں شہرکے نئے ایڈمسٹریٹر مقرر ہوئے ہیں ہم محدود وقت میں ان کے ساتھ کراچی تمام مسائل پر غور نہیں کرسکتے ہیں۔

آج ہمارا موضوع ہےکہ شہر کےحالات میں بہتری کے لیے کام کا آغاز کہاں سے ہونا چاہیے،اس موضوع دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن، شہید ملت روڈ کیمپس میں "کراچی کی بحالی؟" کے موضوع پرسیرحاصل گفتگو ہوئی اس موقع پر ڈاکٹر سیف الرحمن (ایڈمنسٹریٹربلدیہ عظمی کراچی) عارف حسن (ٹاؤن پلانر، چیئرمین، اربن ریسورس سینٹر) اور محسن شیخانی (سابق چیئرمین، آباد) نے اظہار خیال کیا،جنگ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

جنگ: ہم اپنی گفتگو کا آغاز شہر کا درد رکھنے والے چند شخصیات میں سے ایک عارف حسن سے کرتے ہیں بے تحاشا مسائل کا شکارکراچی کی بحالی کیسے ممکن ہے، یہاں کے بنیادی مسائل کیا ہیں ،انہیں حل کرنے لیے آپ حکومت کو کیا مشورے اور تجاویز دیں گے؟

عارف حسن؛ کسی بھی شہر کےلیے دو چیزیں بہت ضروری ہوتی ہیں، پہلی تحقیق جس کے بغیر منصوبہ بندی نہیں ہوسکتی، کراچی کے پرانے ماسٹر پلان 1975 اور1985 میں بنے تھے اور ڈیولپمنٹ پلان 2000 میں ان پرخاصی تحقیق ہوئی تھی، جس کی وجہ راولپنڈی میں ماسٹر پلان آفس تھے ان کا کام ہی شہر کی تحقیق کرنا تھا پھر وہ معلومات پلانر کے پاس جاتی تھی وہ اس کی مدد سے حکمت عملی بناتے تھے کہ شہر کے مسائل پر سوچاجائے اور پلاننگ کی جائےتوپہلی ضرورت تحقیق کی ہے۔

دوسری بات تحقیق ادارے کے بغیر نہیں ہوسکتی، ادارہ ہوگا تو تحقیق ہوگی ،کنسلٹنٹ ہر چیز کی تحقیق نہیں کرسکتاوہ صرف ادارے کو سنبھالا دے سکتا ہے، تحقیق ادارے کی ہوگی اور ادارہ اس تحقیق کی بنیاد پر پروجیکٹ بنائے گا۔

تیسری بات پلاننگ کسی طرح کی کریں گے ایک تو شہر جیسے بڑھ رہا ہے اسے بڑھنے دیں اور جب کوئی پریشانی سامنے آئے تو اس سے نمٹنے کے لیے کوئی پروجیکٹ بنادیں، مثلا ٹریفک جام مسئلہ بنا تو فلائی اور بنادیں، پلاننگ کی زبان میں اسے کہتے ہیں شہر کو آزاد کردیں جو ہم نہیں کرسکتے اس کی وجوہات ہیں۔

دوسرا، پانی کے لیے جگاڑ کریں ہم ہرموقع پراس طرح ہی کام کرتے ہیں لیکن شہر اتنا بڑھ گیا ہےکہ اب یہ بھی ممکن نہیں، تیسرا آپ تحقیق کی بنیاد پر ڈیم بنائیں، ڈیم تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک تویہ کہ آپ اسٹریٹجی بنادیں کہ یہ ہمارا سوچنے کایہ طریقے ہوگا ،آپ پلان کے لیے چار اصول بناسکتے ہیں پہلا جوڈیم بنے گا یا پراجیکٹ بنے گا وہ شہرکے جس علاقے میں واقع ہو اس کی اکانومی برباد نہیں کرے گا، دوسرا نمبر پراجیکٹ جہاں بنے گا اس کی بنیاد وہاں کی زمین کی قیمت پر نہیں بلکہ وہاں کی سوشل اور ماحولیات قیمت ہوگی۔

تیسرا، اس شہر میں جو برادریاں رہتی ہیں انہیں تسلیم کیا جائے ان کے رسم اور رواج اورزبان کو فروغ دیاجائے، چوتھا جو سب سے اہم ہے ، زیادہ سے زیادہ آمدنی کا طریقہ کارہے جوجس حد تک ہوسکتا ہے شہر کا اپنا ہوجیسےکچھ وقت پہلے بلدیہ کے پاس آکٹرائے ٹیکس کا اختیار تھا تو اس کے پاس پیسہ تھا،جس کی وجہ سے وہ یہ سوچ سکتے تھے کہ پیسے کسی منصوبے پر خرچ کریں، آکٹرائے جانے سے کراچی کی لوکل گورنمنٹ غریب ہوگئی ہےتواگر یہ چاراصول نہیں اپناتے تو آپ بڑی پلاننگ نہیں کرسکتے۔

جنگ: ڈاکٹر سیف الرحمن مختصر مدت کے لیےشہر کے نئے ایڈمسٹریٹر بن کرآئے ہیں بلدیاتی الیکشن کے بعد نئی قیادت بھی آجائے گی انہیں شہر کی بہتر ی کے لیے وہ کیا مشورے اور تجاویز دیں گے جہاں سے یہ اپنے کام کا آغاز کریں؟

عارف حسن؛ نئے ایڈمسٹریٹر ڈاکٹر سیف الرحمن صاحب شہر کےلیے موثر تحقیقی ادارےکا قیام عمل میں لاسکتے ہیں کیوں کہ اس کے بغیرکوئی کام مثبت آگے نہیں بڑھے گا، دوسرا شہر میں ہونے والا بے دخلی آپریشن ،بے خل ہونے والے تو پریشان ہیں باقی اس خدشے کے پیش نظر خوفزدہ ہیں، اس سے کاروبار پر برا اثر پڑ رہاہے یعنی اکانومی پر برا اثر پڑ رہا ہے، اگر اسے فوری روکا جائے تو یہ بڑا کام ہے،کوئی طریقہ کار بنایا جائے ، بے دخل ہونے والوں کی بحالی کے لیے معاوضہ کا۔اندرون سندھ اکرم واہ سے آبادی کو بڑے پیمانے پر ہٹایا گیا،لیکن ورلڈ بینک ان کی بحالی کے لیے فنڈدے رہا ہے،وہ یہاں بھی ایسا کرسکتا ہے۔

جنگ: بغیر معاوضہ کیسے کسی کوبےدخل یا ہٹایا جاسکتاہے؟

عارف حسن: اصولا اور قانوناً، نہیں ہٹاسکتےلیکن یہاں ایسا ہورہا ہے،صوبے میں ایک اور جگہ سے آبادی ہٹائی جارہی تو ورلڈ بینک اس کی بحالی کے لیےفنڈدے رہا ہے تو ایک چیز کے لیے دو قانون کیسے ہوسکتے ہیں یہاں بھی یہ اصول اپنانے کی ضرورت ہے۔

جنگ: سابق چیئرمین آباد محسن شیخانی آپ کے خیال میں شہر کی بحالی کےلیے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

محسن شیخانی: بہت مسائل ہیں ، شہر کوئی بھی ہو وہ رہنے کے قابل ہونا چاہیے، وہاں انفرااسٹرکچر، سیکورٹی،صفائی،قانون،تعلیم ،صحت اور روزگار میسر ہو ،کراچی پچھلے تیس سال سے مختلف سمت کی جانب جارہا ہے،تیس سال پہلے شہر کا ماسٹر پلان تھاجس پر عمل درآمد ہورہا تھا، ہاوسنگ اسکیم حکومت ڈیزائن کرتی تھی، پچھلے تیس سال سےکوئی نئی ہاوسنگ اسکیم ڈیزائن نہیں ہوئی اور جو ہوئی اسےاسے حوالے نہیں کیا گیا، تیسر ٹاون ،ہاکس بے، شاہ عبدالطیف اسکیم کو تیس سال ہوگئے اسے اب تک حوالے نہیں کیا گیا۔ہم نے بہت سی چیزیں کے ڈی اے سے نکال کر علیحدہ اتھارٹیز بنادیں، سیاسی بنیاد پرعمل دخل رہا،سب نے اپنی کامیابیاں دکھائیں لیکن حقیقت میں پچھلے تیس سال سے کراچی بہت مشکل میں ہے۔ 

حکومت کچھ نہیں کرے گی تو شہر خود بخود ترقی کرتے ہیں حکومت اسکول نہیں بنائے گی تو لوگ گھروں میں کھول لیں گے،800ایم جی ٹی پانی کراچی میں پچھلے بیس سال سے فراہم ہورہا ہے،اس میں سے200ایم جی ٹی پانی چوری ہوکرٹینکروں کےذریعے جاتا ہے اور چھ سو سپلائی ہوتا ہے،دوسری طرف20سال میں شہر کی آبادی دوگنی ہوگئی تو لوگ ضرورت پوری کرنے کےلیے پانی زمین سے نکال رہے ہیں۔

لوگ انفرادی طور پر کوئی نہ کوئی راستہ نکالتے ہیں، لیکن بغیر پلاننگ کے راستے مناسب نہیں ہوتے۔ تیس سال پہلے کراچی میں 17فیصد کچی آبادی تھی آج51فیصد ہوگئی ہے آج آدھے سے زیادہ شہر کچی آبادی میں چلاگیا ہے، انفراسٹرکچر تباہ حال ہے ہم نے اس پر کوئی کام نہیں کیا، شہر میں بہت ساری اٹھارٹیز ہیں ۔ کمرشل کام ہونے کی صورت میں شہر کا ٹیکس ڈبل ہوجاتاہے اس آمدنی کے متعلق طے ہوا تھا کہ یہ تعمیرو ترقی میں خرچ ہوں گے لیکن وہ سب تنخواہوں اور اداروں کے استعمال میں چلے گئے ہیں، بہت سی خرابیاں ہیں تیس سال کی پالیسیوں نے ہمیں پیچھے کردیا ہے۔

ایک زمانہ تھا کوریا،جرمنی سے لوگ ہم سے سیکھنے آتے تھے،ماضی میں ہمارے پاس بہت اچھے لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں نام کمایا ہے، دو گھنٹے کے فاصلے پر دبئی ہے وہاں کی دنیا ہی تبدیل ہے وہاں کی تعمیر و ترقی میں ہمارے لوگوں کابڑا کردار ہے۔ ہمارے یہاں اہم اداروں سے باصلاحیت لوگ ریٹائر ہوئے تونئے آنے والے ناکام ثابت ہوئے، اب نان ٹیکنیکل لوگ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں کلرک بھرتی ہوکر آنے والے ڈائریکٹر ہیں، خرابیوں کی وجہ شہر کے سیاسی حالات، اداروں اور لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں ان لوگوں نے شہر اور ملک کےاجتماعی مفاد کو بالائے طاق رکھا، عارف صاحب کی رائے درست ہے ہمیں شہر کےلیے کن چیزوں کی ضرورت اور کیا کرنا ہے اس کے لیے پہلے تحقیق ہونی چاہیے،ابھی توکوئی مسئلہ سامنے آنے پرفوری حل کردیتے ہیں، مثلا بارش ہوئی تو سیوریج پر کام شروع ہوگیا جس پر اربوں روپے خرچ کردیئے گئے، شہر کا ماسٹرپلان کا ہونا ضروری ہے دنیا میں پچاس سے سوسال کےڈینزائن تیارکیے جاتے ہیں تو شہر چلتے ہیں۔

ہمارے پاس نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے اور انہیں استعمال نہیں کرپا رہے، ہمیں کراچی کی بحالی کے لیے چار اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنا پڑے گا۔پہلا فوری ابھی کس چیز کی ضرورت ہے،پھر شارٹ ٹرم، میڈیم ٹرم اور لانگ ٹرم ہمیں بحالی کے لیے ایسے ہی ڈیزائن تیار کرنے پڑیں گے۔ ہمیں فوری طور پر کیا کرنا ہے ،ٹرانسپورٹ کی بات کریں توآج کل ٹریفک کے دباو کو کم کرنے کے لیے ترقیاتی کام کے سبب یونی ورسٹی روڈ بند ہے اس پر ویسے ہی بہت دباو ہے، پانچ سال بعد ہم پھر وہیں کھڑے ہوں گے، اگر منصوبہ بندی میں مستقبل کو مدنظر رکھیں تو اسے ایلی ویٹڈ کردیں دنیا میں جدید ٹرانسپورٹ کا نظام اسی طرح چل رہاہے جاپان مدد دینے پر آمادہ تھا، ہمیں کم ازکم ایسے شعبوں کو دس، بیس ، پچاس اور سوسال کی ضرورتوں کے مطابق ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے سب مل کر ہی اسے رہنے کے قابل کرسکتے ہیں۔

جنگ: کراچی اپنی حدود سے نکل کرمسلسل بڑھ رہا ہےنئے اور بڑے رہائشی منصوبے بن رہے ہیں جس میں ڈی ایچ اے سٹی اور بحریہ ٹاون شامل ہے جو خود ایک شہر ہیں ،انہیں وسائل کی ضرورت ہے،ایسی رہائشی منصوبوں سے شہر پر کیا اثر پڑے گا۔

محسن شیخانی: ہماری تحقیق کے مطابق شہرکا50فیصد رقبہ زیراستعمال ہے باقی پچاس فیصد خالی ہے سپرہائی وے پررہائشی منصوبے بننے کی وجہ وہاں سڑک بنی ہوئی ہے، ہم سوچتے ہیں پراجیکٹ بنتے ہی وہاں انفراسٹرکچر آسانی سے آجائے گا۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ آپ کا ماسٹر پلان بنے گا تو رنگ روڈ بنیں گے آپ کو معلوم ہوگا کہ زمین آپ نے کہاں استعمال کرنی ہے، آج ایکسپریس وے بننے کی وجہ ڈی ایچ اے ہےوہ بنواسکتے تھے ،آپ اسے پرائیوٹ طور پر کروائیں دنیا بھر میں منصوبے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ پر ہورہے ہیںاب دنیا میں اسی طریقے سے کام ہورہا ہے۔

میرے خیال میں بحریہ ٹاون اس وقت تقریباً 28 سے30 ہزار ایکڑپر محیط ہے،گلشن اقبال سات ہزار ایکڑ اور گلستان جوہر تین ہزار ایکٹر پر مشتمل ہے، آپ رقبے سے اندازہ لگالیں کہ یہ شہر مزید کتنابڑھنے جارہاہے، ہمیں نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی ضرورت ہے، جس کا جو کام ہے اسے وہ کرنے دیا جائے، ہم سب سارے کام کرنے کو تیار رہتے ہیں، سپریم کورٹ کا کا4م اپنی عدالتوں کو ٹھیک کرنا اور انصاف دلانا ہے ناکہ سوموٹو لے کر اسپتال پہنچ جانا یا ڈیم بنا نا ہے فوج کا کام سیکورٹی ہے اور سیاست دان کا کام ملک کے لیے منصوبہ بندی ہے جس کا جو کام ہے وہ کرے تو میرے خیال میں پھر یہ ملک بہتر سمت میں جائے گا۔

جنگ: ایڈمسٹریٹر کراچی شہر کے لیے نئے نہیں ہیں یہاں کے مسائل سے آگا ہ ہیں، شہر کا بڑا مسئلہ آبادی کا کم گننا ،ایڈمسٹریٹر کراچی ہونے کے باوجود بے اختیار ہونا کیوں کہ کئی ادارے ماتحت ہی نہیں بغیر ماسٹرپلان کے بڑھتا شہر ان مسائل سے کیسے نمٹیں گےآپ کی ترجیحات کیا ہیں۔

ڈاکٹر سیف الرحمن: کراچی دنیا کا چھٹا بڑا اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، شہر میں کئی بدصورتیاں ہیں لیکن خوب صورت بات یہاں لوگوں کو روزگار مل جاتا ہےجو ایک مرتبہ آتا ہے وہ پھر واپس نہیں جاتا،اس شہر میں ملک بھر سے آئے لوگ آباد ہیں جو ملک کے دوسرے شہر میں بہت کم ہیں اسی خصوصیت کی بنا پر اسے منی پاکستان کہتےہیں ۔ بڑھتی آبادی شہر کابہت بڑا مسئلہ ہے تین سے ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا شہر جسے آخری مردم شماری میں ایک کروڑ 78لاکھ بتایا گیا ہے، شہر کو ملنے والے وسائل آبادی کے مطابق نہیں ہیں، اتنی بڑی آبادی کی شہر میں کوئی تیاری نہیں ہے، زیادہ گاڑیاں ہیں سڑکیں فٹ پاتھ زیادہ استعمال ہوتی ہیں تو ٹوٹ پھوٹ زیادہ ہوتی ہے، موسمیاتی تبدیلی بھی بڑھ گئی ہیں، پہلے بارشوں کا چیلنج اس طرح نہیں تھا جو اب متواترہونےلگا ہے، دیگر بڑے شہروں کی مثال لیں جیسے کلکتہ، ممبئی، ڈھاکا، بنکاک، ترقی یافتہ ممالک کی طرف جائیں تو نیویارک، شگاگو، لندن یہ ایسے شہر ہیں جہاں لوگ اپنی قسمت آزمانے کے لیے آتے ہیں، پھر اس شہر کا انفراسٹرکچر ان کے ساتھ میچ کرتا ہے،جن سے میچنگ پیدا ہوتی ہے، ہمارا ذہن اس طرح کا نہیں ہے۔

لوگ شہر میں رہنے کے لیے جن روایات کی ضرورت ہوتی ہے ہم میں وہ پیدا نہیں ہوسکیں، جیسے کوئی امیر آدمی ،یا چودھری کسی گاوں میں رہتا ہے،اگر کسی کا بڑا گھرہے تو اس نےمزید آگے سے گھیرا ہوا ہے، جو بہت بڑا المیہ ہے،بڑے شہروں میں رہنے کے آداب ہیں لیکن لوگ اس سے نابلد ہیں لیکن یہ بھی درست ہے شہرکی ترقی کے لیے ریاست دور رہی ہے۔ ایک زمانے میں ادارہ ترقیات کراچی نے کے ڈی اے اسکیم نمبرایک، ناظم آباد،نارتھ ناظم آباد،گلشن اقبال، گلستان جوہر،نئی کراچی،فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی اورسرجانی ٹاون جیسی اسکیمیں بنائیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کے اسے کسیchain نے بنایا ہے اکثر کو نہیں معلوم کہ یہ رہائشی اسکیمیں ایک سرکاری ادارہ، ادارہ ترقیات کراچی(کے ڈی اے) نے بنائیں تھیں، آج ہم سوچتے ہیں کہ کیااتنی بڑی زبردست رہائشی اسکیمیں کوئی سرکاری ادارہ بنابھی سکتا تھا۔ایسا سوچنے کی وجہ ہماری مسلسل خراب کارکردگی ہے پچھلے چالیس سال پہلے سرکاری کام کا معیار زیادہ بہتر تھا۔

ادارہ ترقیات کراچی میں شہر کے ماسٹر پلان کا پورا شعبہ تھاوہ دوہزار ایک میں تبدیل ہوکر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے پاس چلاگیا۔ہم سب شہر کی صورت حال پر نوحہ خوانی کرنے میں ماہر ہیں، لیکن اس مایوسی کے باوجود شہر میں کچھ کامیابی کےماڈل موجود ہیں، اس کا نام ہے بحریہ ٹاون گوکہ اس پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں لیکن بحریہ ٹاون میں اربن سوسائٹی میں رہنے کا دور جدیدکا طریقہ بتایا گیا ہے ،اسی طریقہ سے ہمارے شہر میں بہت سی برادریوں کی سوسائٹی بھی بنی ہوئی ہیں جہاں صفائی سیکورٹی اور دیگر انتظام معیاری طریقے سے ہورہے ہیں۔ میں نے ایک ہفتے قبل ایڈمسٹریٹر کراچی کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، اس فورم میں اپنی ترجیحات بتانا چاہتا ہوں۔

کراچی کی سڑکوں کا انفرااسٹرکچر بہتر کرنا ہے جس میں ہماری106بڑی سڑکیں شامل ہیں، اس میں مزید دیکھیں تو  28بڑی سڑکیں ہیں جس میں شاہراہ فیصل،شاہراہ پاکستان، شیرشاہ سوری روڈ،ایس ایم توفیق روڈ،شاہراہ قائدین ،شہید ملت روڈ وغیرہ میری خواہش ہے کہ ان کی حالت بہتر کروں،ان کے فٹ پاتھ ٹھیک کیے جائیں، اگر اعدادوشمار سے اندازہ لگائیں توچلنے پھرنے کی جگہ ختم ہونےکی وجہ سےحادثات بڑھ گئے ہیں جس سے صحت کے بجٹ کا بوجھ بڑھ رہا ہے ،اس کی بڑی وجہ فٹ پاتھ پر جابجا تجاوزات کا قائم ہونا ہے،پیڈسٹرین برج کو بہتر کرنےاور پودے لگانے کی ضرورت ہےجس سے شہر کی خوب صورتی بڑھے گی ،اسٹریٹ لائٹ لگائی جائیں۔

دوسرے نمبر پر کراچی کو ہرابھرا کرنا چاہتا ہوں،کراچی ریگستانی علاقہ ہے، انگریزوں کے دور میں برگد پیپل کے درخت تھے وہ ہمارا ماضی ہے ، کیوں کہ یہاں کی زمین ایسی نہیں ہے کہ کوئی پودا قدرتی نکل آئے،بارش ہوتی ہے تو مسلسل ہوتی ہے میں شہر کے پارک یہاں کی چورنگیوں اور کھلی جگہ ان سب کو گرین کرنا چاہتا ہوں تا کہ موسمیاتی تبدیلی کی چیلجز سے بھی نمٹا جاسکے۔ کھلی خالی جگہوں کو جہاں لوگ کچراڈالتے ہیں انہیں بہتر کیا جائے،جیل روڈ پر ایک زمانے سے لاکھوں ٹن کچراموجود تھا اسے صاف کرکے بنادیا ہے،کشمیر روڈ پر کشمیر کمپلیکس سے آگے کے مقامات کو بہتر کررہے ہیں، حسن اسکوائر پر کام کررہے ہیں۔

سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ الہ دین پارک بہت اچھا پارک بننا چاہیے،تو ہم نے اسے بھی بنانا شروع کیا ہے۔ کراچی میں ٹوائلٹ کی بہت کمی ہے،یہ انسان کی وہ اہم ضرورت ہے جس سے ہم روگردانی کرتے ہیں، کراچی کے لیے100ٹوائلٹ بنانے کا منصوبہ ہے وہ کسیے چلے گا اس کا آپریشنل پلان تیار ہے،کراچی کے عوام کو جن اقدامات سے فائدہ ہوگا میں وہ کرنے کی کوشش کروں گا۔

جنگ: میڈیا میں کراچی کا ذکر کچرے سے جوڑ کرکیا جاتا ہے اس سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ ہے؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: کراچی کا نظام حکومت بڑا منفرد ہے دنیا میں شاید ہی کسی شہرکا نظام ایسے چلتا ہو۔عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ بلدیہ عظمی کراچی کا دائرہ اختیارآخر ہے کہاں تک، اس کے بعد مزید تقسیم ڈی ایم سیز کی حدود پھر مزید تقسیم کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود، مزید تقسیم صوبائی حکومت کی زمینوں کی پھر وفاقی حکومت کی زمینوں کی حدود،پھر کوآپریٹو ہاوسنگ سوسائٹیوں کی حدود۔

اگر آپ آواری ٹاور سے شاہراہ فیصل واقع ایف ٹی سی بلڈنگ تک کی یہ حدود کنٹونمنٹ بورڈ کی ہے، آگے ایف ٹی سی سے کارساز تک شاہراہ فیصل کے ایم سی کا دائرہ اختیار ہے، اس کے آگے کارساز سے ناتھا خان پل تک جائیں گے فیصل کنٹونمنٹ کی حدود ہے،کارساز کی گرین بیلٹ کے ایم سی ذمہ داری ہے سڑک کی ذمہ داری کے ڈی اے کے پاس،اس کے ایک طرف چھاونی ہے اور دوسری طرف کے ڈی اے اسکیم نمبر ایک واقع ہے۔

جنگ:صرف کے ایم سی پر تنقید منصفانہ نہیں ،کے ایم سی کا دائرہ اختیار کراچی کے صرف 30فیصد حصے پر ہے باقی کی ذمہ داری دیگر اداروں پر ہے۔

ڈاکٹر سیف الرحمن: آپ نے صحیح کہا ،عوام ہرطرح کاٹیکس دیتے ہیں اسے یہ غرض نہیں کہ مسئلہ کس ادارے کا اور کس کی حدود ہےوہ حکومت سےمسئلے کا حل چاہتا ہے۔ ایڈمسٹریٹر یا میئرکو فادر آف سٹی کہا جاتا ہے اس لیے ہماری یہ ذمہ داری ہے تمام دشواریوں کو بالائے طاق رکھ کر چاہے شکایت کا تعلق سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ سے ہے جو شہر کا کچرا اٹھاتی ہے یا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سےجس کے پاس شہر کا ماسٹر پلان اور تعمیرات کے معاملات ہیں وہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جس کے پاس پانی کی تقسیم اور سیوریج کےمعاملات ہیں یا ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن جو کہ چھوٹی گلیاں اور چھوٹے پارک بناتی ہے، اسی کے ساتھ شہر کے پانچ کنٹونمنٹ جن کےپاس شہر کے پوش علاقے ہیں ہمیں ان سے باہمی رابطہ رکھنا ہو تا ہےکہ کسی طرح شہر ی کو سہولت دی جاسکے۔

جنگ: کچرے کا کیاحل ہے، یہ شہر کی پہچان بن گیا ہےـ شہر میں پانی ایک بڑا مسئلہ لوگ ترس رہے ہیں؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: شہر یومیہ بنیادوں پر لاکھوں ٹن کچرا ہوتا ہے اسے ٹھکانے لگانا سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کی ذمہ داری ہے جو تمام سات ڈسٹرکٹ میں کام کررہی ہے، میں نے چارج سنبھالتے ہی ان کے ایم ڈی سے ملاقات کی اورکہا کہ اسے روزانہ کی بنیاد پراٹھاکر دو لینڈ فِل سائٹس جام چاکرو، گوند پاس میں ٹھکانے لگایاجائے۔ پانی کی فراہمی کا علاج کے فور ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومت کا مشترکہ منصوبہ ہےجو تاخیر کا شکار ہے، میری کوشش ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت سے رابطہ کرکے اسے تیز کیا جائے گا۔

جنگ: بااختیاری بلدیاتی نظام یا حکومت اس پر آپ کی اعلیٰ حکام سےکوئی بات ہوئی ہے؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: جی ہاں آئین کا آرٹیکل 140اے مقامی حکومتوں کو مالی اور انتظامی طور پر بااختیار کرتا ہے لیکن بدقسمتی سےابھی ایسا نہیں ہوا ہے۔دوہزار ایک آرڈرنینس جسے سندھ لوکل آرڈرنینس کہا جاتا ہے اس میں مقامی حکومت کو کافی بااختیار کیا گیا تھا زیادہ ہونے کی وجہ سے مسائل بھی آئے، تو دوہزار گیارہ میں کم کیا گیا اس کے بعد دو ہزار تیرہ کا لوکل ایکٹ آیااس نے بالکل بے اختیار کردیا اور بلدیہ سے کافی اختیارات لے لیے گئے تھے لیکن ابھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نئے ایکٹ لانے کی تیاری ہورہی ہے وہ کافی بہتر ہوگا، آنے والا مئیر کراچی سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ کنٹرول بورڈ اتھارٹی کے چیئرمین ہوگا اس کے علاوہ بھی اور اختیار ان کے حوالے ہوگا،اس پر حکومت سندھ بہت سنجیدہ ہے، گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ نے اس پر بہت کام کیا ہے؟

جنگ: شہر کا ایک بڑا مسئلہ اسٹریٹ کرائم بھی ہے اس پر آپ کیا کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: اسٹریٹ کرائم کی وجہ میں پولیس کے ساتھ ترقیاتی کام نہ ہونا بھی ہے ،اسٹریٹ کرائم زیادہ اس سڑک یا راستے پر ہوتی ہے جہاں اسٹریٹ لائٹ بند ہوں، درمیانی سڑک گڑھا ہو،سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتو گاڑی کی رفتار کم ہونے پر لوگ نشانہ بن جاتے ہیں، پولیس کو ترقیاتی کام کرکے سپورٹ دینے کی ضرورت ہے۔

سب سے اہم سیف سٹی پراجیکٹ ہے لیکن جس طرح ہم نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی ہےتو چورڈکیٹ بھی ترقی کرگئے ہیں ،اتنے کیمروں کے باوجود وارداتیں ہورہی ہیں اور اکثر کوئی ثبوت بھی نہیں چھوڑتے۔ شہر میں کرائم بہت ہیں اس لیے پولیس اور صوبائی حکومت کے ساتھ مل بلدیہ عظمی کراچی نے سیف سٹی پراجیکٹ پر مزید کام کرنا ہے۔ 

عارف حسن: کراچی غریب شہر ہے ،ہماری اور ورلڈ بینک کی اسٹڈی کےمطابق جس شخص کےپاس اپنی چھت نہ ہو وہ غریب ہے،اورکراچی میں چھتیں بڑھنے کے بجائے دن بہ دن کم ہورہی ہیں یہ ناہمواری شہر کے لیے زیادہ خطرناک ہے،آپ کا72فیصد کاروبار اورٹریڈ ان فارمل ہے،آپ کا پانی اور دیگر ضروریات سب ان فارمل ہے، امیر اور غریب میں فرق مسلسل بڑھ رہا ،اس کا حل کسی بھی ماسٹر پلان میں ہونا بہت ضروری ہے، اگر آپ2000 ڈیولپمنٹ پلان دیکھیں تو اس میں زمین کے استعمال پراس طرح غور کی کوشش کی گئی تھی لیکن اب زمین کا یہ استعمال آپ کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔میرے خیال میں اہم ترین میں لینڈ ریفارمز ہے جس کی مدد سےکم مناسب قیمت کے مکان بن سکیں،کراچی کے پچھلے ماسٹر پلان کے مطابق یہاں کے 78فیصد لوگوں کےمکان کےسائز 16 سے 60گزکے درمیان پر مشتمل ہے۔اس سے آپ شہر کی صورت حال کااندازہ لگاسکتے ہیں ۔

محسن شیخانی: ہم تمام چیزوں کی ڈیجیٹلائزیشن کرلیں ،جن کے مسائل ہیں ان لوگوں کواس میں شامل کریں، پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کریں، لوگوں کو اداروں کے پاس نہ جانا پڑے ہر چیز آن لائن کرنے کی ضرورت ہے۔ہم پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ میں اربن فاریسٹ بناسکتے ہیں، سیف سٹی ہونا سب سے زیادہ اہم ہے۔

ڈاکٹر سیف الرحمن: آنے والا وقت مزید سخت ہے،قدرتی نظام میں چھیڑ چھاڑ کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں، بیک ٹو ڈی نیچر ہونا ہوگا،زندگی گزارنے کے لیے زیادہ جدید چیزوں سے بچنا ہوگا۔ ہم اپنے بچپن میں والدین کے ہمراہ فن لینڈ کلفٹن میں تفریح کرنے جاتے تھے تو وہاں ایک ایکوریم بھی ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ وہ ختم ہوگیا ہم اسے دوبارہ شروع کرنے جارہے ہیں، باغ ابن قاسم اورکڈنی ہل میں چیئرلفٹ لگانے کا پروگرام ہے۔

بلدیہ عظمی کراچی کونسل ہال سوسال کا ہوگیا ہےتو ہم نئے ٹاون ہال کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو کراچی کا آئیکون ہوگا، لانڈھی اسپورٹس کمپلیکس کی شاندار تعمیر ہوئی ہے لیکن بلدیہ عظمی کراچی کے پاس اسے آپریشنل کرنے کی استطاعت نہیں ہے ہم اسے بہتر کررہے ہیں ،فیضی رحمین آرٹ گیلری جس 1800 افراد کی گنجائش ہےزمانے سے بند ہے اس پر کچھ کرنا چارہے ہیں، کراچی زولوجیکل گارڈن اور سفاری پارک کو بہتر کرنے جارہے ہیں، بلدیہ عظمی کراچی کے زیرانتظام 14بڑے اسپتال ہیں، عباسی شہید اسپتال کافی زبوں حالی کا شکار ہے اسے بہتر کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔

محمدآصف: بلدیہ عظمی کراچی کے مرکزی آفس کے باتھ روم میں تو خود نلکے نہیں ہیں شہر کوپھر کیسے ٹھیک کریں گے؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: مجھے اپنے دفتر کے حالات دیکھ کر ہی اندازہ ہوا کہ شہر کی حالت کیا ہوگی،اس باتھ روم کےنلکے نکالنے والے یقیناً اسے استعمال کرنے والے ہی ہوں گے، تو میری کوشش ہے کہ اسے ٹھیک کیا جائے۔

زاہدفاروق؛ آپ شہریوں پر مشتمل کمیٹی بنادیں جو آپ کے جانے کے بعد بھی کم ازکم شہر کے ٹوائلٹ اور بس ٹرمینل پر کام کو دیکھ سکیں۔

ڈاکٹر سیف الرحمن: جی ہاں ہم عمائدین شہر پر مشتمل کمیٹی بنائیں گے،ٹرمینلز کی بھی ضرورت ہے۔

لبنیٰ: نئے بننے والے ٹوائلٹ منصوبے میں خواتین کے لیے بھی کیا کچھ مخصوص کیئے جائیں گے؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: پچاس فیصد مرد اور پچاس فیصد خواتین کے لیے بنائیں جائیں گے۔

ڈاکٹر سعد: نوجوانوں کو اگر کوئی ایسی جگہ فراہم کردی جائے جہاں سے ڈیجیٹلائزیشن کی مدد سے ریسرچ کےلیےآن لائن اپنے لیے روزگار کا بندوبست کرسکے؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: جنگ فورم کی وساطت سے بحثیت ایڈمسٹریٹر بلدیہ عظمی کراچی میری یہ پیش کش ہے اگر شہر کے یونی ورسٹیوں، انسٹی ٹیوٹ کے نوجوان مجھ سے رابطہ کریں گے تو انہیں ریسرچ کےلیےہم اپنی دستیاب مقامات اور دیگرضروری سہولیات کو عارضی یا جب تک نوجوان مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا ،کام کرنے کے لیےممکنہ سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے ریسرچ کے لیےکسی نوجوان کو ضرورت پڑے تو میرا دفتر بھی حاضر ہے۔

محمد کاشف: شہر میں مختلف جماعتوں کے ایڈمسٹریٹر کام کرچکے ہیں اس کے بعد بھی صورت حال کیوں بہتر نہیں ہوئی؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: مجھ سے کوریاکے قونصلیٹ جنرل نے کہا کہ سترکی دہائی تک لوگ کراچی کی مثالیں دیتے تھے، پاکستان کے پانچ سالہ منصوبے ہمارے کورس میں ہوتا تھا، بعد میں کراچی کےحالات کیوں ہوئے ،شاید اس کے بعد آنےوالے لوگ بہتر نہیں رہے۔

سیما: بے دخلی آپریشن کے دوران مجاہد کالونی میں مظاہرین خواتین پر مرد پولیس اہلکاروں نے تشدد کیا اور گرفتا رکیا ،کیااسے روکنے کی ضرورت نہیں ہے؟

ڈاکٹر سیف الرحمن: مجھے اس واقعہ پر افسوس ہے، شہر کی بحالی میں محکمہ پولیس کا بڑا کردار ہے ، میں پولیس سے یہ توقع رکھتا ہوں آئندہ ایسی صورت حال میں قواعد و ضوابط کا خاص خیا ل رکھا جائے۔