مرتضیٰ ساحل تسلیمی
سر سے پا تک جسم کو ڈھانپیں آیا موسم جاڑے کا
لیکن پھر بھی تھر تھر کانپیں آیا موسم جاڑے کا
پہلے دھوپ نکلتی تھی تو ہم اس سے گھبراتے تھے
ہوتی تھی دوپہر تو بھیا کمروں میں گھس جاتے تھے
سورج ڈھلتا لو کم ہوتی تب ہم باہر آتے تھے
گرمی سے بچنے کی خاطر پنکھے خوب چلاتے تھے
گرمی کا اب ذکر نہیں ہے آیا موسم جاڑے کا
پنکھے کی اب فکر نہیں ہے آیا موسم جاڑے کا
گرمی سے چھٹکارا پایا تو بارش نے گھیر لیا
کالے کالے بادل چھائے دن بھی آدھی رات لگا
رم جھم رم جھم رم جھم رم جھم پانی پھر دن رات پڑا
گھر سے باہر کام کو جانا لوگوں کو دشوار ہوا
کالی کالی رات گئی تب آیا موسم جاڑے کا
رخصت جب برسات ہوئی تب آیا موسم جاڑے کا
اب کوئی جیکٹ پہنے ہے کوئی اچکن پہنے ہے
کوئی سوئیٹر کوٹ السٹر مفلر خوب لپیٹے ہے
سر پر اونی شال کسی کے کوئی کمبل اوڑھے ہے
غرض کہ جس کو جو ہے میسر اس سے جسم چھپائے ہے
کتنا ہی سر سے پا تک ڈھانپیں آیا موسم جاڑے کا
لیکن پھر بھی تھر تھر کانپیں آیا موسم جاڑے کا