• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ریکوڈک منصوبہ: بلوچستان کو 30 لاکھ ڈالر ملیں گے

طویل قانونی پیچیدگیوں اور صبر آذما مراحل کے بعد ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کے بعد بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک منصوبے پر طویل عرصے کے بعد ایک بار پھر کام کا آغاز ہوگیا، اس سلسلے میں گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں ریکوڈک معاہدے پر فریقین کی جانب سے دستخط ہونے اور منصوبے پر باقاعدہ کام کے آغاز پر تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ 

اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی خبر کے مطابق تقریب کے انعقاد کا بنیادی مقصد ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کے عوام کی اونر شپ اور شراکت داری کو اجاگر کرنا تھا، وزیراعلیٰ بلوچستان اور ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک بریسٹونے معاہدے کے کور شیڈ کی مد میں بلوچستان کو کمپنی کی جانب سے 3 ملین ڈالر کی ادائیگی کی دستاویزات پر دستخط کیے یہ رقم اس ماہ بلوچستان حکومت کو منتقل کردی جاے گی جبکہ معاہدے کے تحت کمپنی کی جانب سے بلوچستان کو رائلٹی کی مد میں رقم کی ادائیگی کا بھی اس سال مارچ سے آغاز کردیا جائے گا اس کے ساتھ ساتھ کمپنی علاقے کی سماجی و معاشی ترقی کے منصوبوں پر فوری طور پر عملدرآمد شروع کرے گی۔ 

یاد رہے کہ حکومت اور ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی عالمی کمپنی کے درمیان تنازعے کے بعد معاملہ عالمی عدالت میں گیا تھا جس کے بعد اس معاملے نے طول پکڑ لیا تھا اور ایک مرحلے پر یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا تھا کہ معاہدے پر جنم لینے والا تنازعہ حل نہ ہوا تو پاکستان کو اربوں ڈالر کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا، گزشتہ سال اس مسلے کے حل کے لئے کوششوں کا آغاز کیا گیا اور آخرکار حکومت اور ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کے درمیان معاہدہ طے پایا، معاہدئے پر دستخط سے قبل صوبائی حکومت نے معاہدئے کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیا تھا اور اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی کا کئی گھنٹے طویل ان کیمرا اجلاس ہوا تھا جس میں حکومت کی جانب سے تمام ارکان کو منصوبے پر معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے اعتماد میں لیا گیا تھا۔ 

تاہم کچھ قوم پرست جماعتوں نے معاہدے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا تاہم ان کی جانب سے بھی کوئی بڑا احتجاج دیکھنے کو نہیں ملا جبکہ اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے بھی اس پر قدرے اطمنان دیکھنے کو ملا بلکہ گزشتہ دنوں ہونے والی تقریب میں جہاں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو، ریکوڈک منصوبے پر کام کرنیوالی کمپنی بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک بریسٹو، قائم مقام اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسی خیل سمیت دیگر نے شرکت کی وہاں تقرین میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈوکیٹ سمیت حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی بھی موجود تھے جس کا وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر میں بھی اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک منصوبے پر کام کے باقاعدہ آغاز کے سلسلے میں بیرک گولڈ کی ٹیم کا اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈوکیٹ اور دوسرے حکومتی اور اپوزیشن اراکین کے ہمراہ استقبال اس حقیقت کا مظہر ہے کہ صوبے کی تعمیر و ترقی میں ہم سب ایک پیج پر ہیں۔ 

وزیراعلیٰ بزنجو نے اپنی ٹیم کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے نہ صرف قانون سازی کا مشکل مرحلہ طے بلکہ سیاسی قائدین کی حمایت لیکر چلتے ہوئے بلوچستان کیلئے ایک تاریخی معاہدہ کو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کی خوش قسمتی قرار دیا،نہ صرف وزیراعلیٰ بزنجو بلکہ بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک بریسٹونے بھی اس کا زکر کیا کہ صوبے کی سیاسی قیادت سے ملاقات ہمیشہ بہترین رہی ہے اور وہ انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے میں وزیراعلیٰ کی جانب سے اعتماد سازی کی فضا کے فروغ اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی پالیسی کو سراہتے ہیں صوبائی حکومت کی جانب سے منصوبے پر معاہدے سے قبل ہی اس بات کا عندیہ دیا گیا کہ نہ صرف منصوبے سے صوبے بلکہ ملک معاشی حوالے سے مستحکم ہوگا بلکہ بلوچستان میں منصوبے کے تحت آٹھ ہزار افراد کو ملازمتیں ملیں گی اور ملازمتوں میں سب سے زیادہ حصہ بلوچستان کے لوگوں کا ہوگا ساتھ ہی منصوبے سے علاقے کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے پر بھی کام کیا جائے گا، جس کا زکر بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک بریسٹو نے گزشتہ دنوں ہونے والی مذکورہ تقریب میں بھی کیا کہ معاہدے کے تحت علاقے میں سماجی شعبہ کی ترقی کا آغاز کیا جا رہا ہے مقامی لوگوں پر سرمایہ کریں گے، پرائمری تعلٰیم، ٹیکنیکل ٹریننگ اور نوجوانوں کو متعلقہ شعبہ میں اعلیٰ تعلیم فراہم کی جائیگی مقامی بچوں کو اسکول تک لیجانا چیلنج کی طور پر لیا جائے گا مقامی لوگوں میں احساس شراکت داری اور اونر شپ اجاگر کرنے کے لئے انہیں معاہدے سے متعلق کاروبار میں شرکت کا موقع دیا جاے گا، یقینی طور پر ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے چند بڑے معدنی منصوبوں میں سے ایک ہے یہی وجہ ہے کہ نہ حکومتی عہدیداران بلکہ ماہرین بھی اس منصوبے کو پاکستان کے لئے معاشی حوالے سے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں، تاہم وہیں بلوچستان میں بعض حلقوں کی جانب سے ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ ماضی کی طرح منصوبے سے بلوچستان اور اس کے عوام کو فائدہ نہیں ہوگا۔ 

یہ حلقے ماضی میں سیندک منصوبے و سوئی گیس سمیت دیگر بڑے منصوبوں کی مثالیں دیتے ہیں، بعض حلقوں کی جانب کہا جاتا ہے کہ بڑے منصوبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بھی صوبے کو آگاہ نہیں کیا جاتا رہا ہے، سنجیدہ حلقوں کی رائے ہے کہ اب جبکہ ریکوڈک منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہونے جارہا ہے اور بلوچستان جسے اس وقت ایک مالی بحران کا بھی سامنا ہے اسے اسی ماہ تین ملین ڈالر ملنے سے صوبائی حکومت کو بڑی حد تک راحت ملے گی جبکہ مارچ میں مزید رقم ملنے سے صوبائی حکومت کے لئے صوبے کی ترقی کے ساتھ گزشتہ سال کی تباہ کن بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ہونے والی تاریخی تباہی کا ازالے کرنے میں بھی مدد ملے گی، ساتھ ہی حکومت کے لئے یہ ایک ٹیسٹ کیس اور چیلنج بھی ہے کہ وہ اس منصوبے کے زریعے بلوچستان کے عوام اور سیاسی جماعتوں کو مطمئن کرنے کے ساتھ ماضی میں بلوچستان کے معدنی منصوبوں کے حوالے سے ان کے تحفظات و خدشات بھی دور کرے گی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید