کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر سیاستدان چوہدری نثارنے کہا کہ نئی پارٹی بنانے کی بات چل رہی ، مجھ سے رابطہ ہوا ، اس کےحق میں نہیں ہوں، عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں جنرل باجوہ ، جنرل فیض حمیداور جنرل آصف غفور وغیرہ کا بڑا کردار رہا ہے .
عمران کی حکومت کا خاتمہ داخلی سیاست کی وجہ سے ہوا ، سب سے بڑا مسئلہ ہے معاشرے میں تنزلی یہاں سچ اور جھوٹ میں تفریق ختم ہوگئی ہے، جائز ناجائز میں ختم ہوگئی ایک نمبر دو نمبر میں ختم ہوگئی ہے بطور معاشرہ ہم بدقسمتی سے اچھے لوگ بھی پاکستان میں ہیں شاید اسی وجہ سے نظام چل رہا ہے ،ہم تماش بین قوم بن گئے کوئی واقعہ ہو رہا ہوتا ہے ہم تماشہ دیکھتے ہیں ،دوسرا معاشی ہے مگر جس معاشرے میں جھوٹ منافقت ہو وہاں سے اللّٰہ کی رحمت ناراض ہوجاتی ہے.
تیسرا جو پہلے کہا اچھے آدمی کی قدر نہیں ہے برے کی پکڑ نہیں ہے، خدانخواستہ ایک جنگ سے قوم گزرے میں نے وینسٹن چرچل کی مثال دی اسی طرح سے قوم کو سچ بتائیں یہ حالات ہیں اس سال یہ کریں گے دوسرے سال یہ کریں گے تیسرے سال یہ کریں گے اس میں آپ کو بھی پتھر باندھنے ہوں گے ہم کو بھی اور عوام ایک پتھر باندھیں گے تو ہم بطور وزیراعظم تین باندھیں گے یہ بڑا لمبا حل ہے اب کوئی شارٹ حل نہیں ہے، ہم سیاستدانوں کی بھی کمزوری ہوتی ہے ہم جبspaceدیتے ہیں تو ادارے ان پر قابض ہوتے ہیں .
اگر ہم سیاستدانspaceنہ دیں تو فوج یا کوئی اور ادارہ ہمارے ایریا پر قابض نہ ہو، چین ہمارا سب سے مخلص دوست اور بھارت سب سے بڑا دشمن ہے ، امریکا ہمارا دوست ہے نہ دشمن وہ اپنے مفادات کا پیروی کرتا ہے ،تو جب اس کو سوٹ کرتا ہے وہ ہمارا دوست بن جاتا ہے جب اس کو سوٹ نہیں کرتا تو وہ ہمارے خلاف ہوجاتا ہے، میرا ایک ہی بیٹا ہے تیمور نام ہے اگر اس نے دلچسپی ہوئی اور حلقے نے ویلکم کیا تو ضرور سیاست میں آئے گا.
سیاست سے علیحدہ ہوجاؤں گا تو میرا بیٹا سیاست میں آنا چاہے ، نہیں ہوسکتا کہ میں بھی سیاست ہوں اور میرا بیٹا بھی ہو یہ نہیں ہوسکتا، وہ ایک روایتی آدمی ہیں، دنیا بہت آگے چلی گئی ہے.
غائب کہیں نہیں تھا،اپنے حلقے سے رابطے میں تھا، اپنے حلقے میں اکثر جاتا ہوں ، حلقے کی عوام سے رابطے میں ہوں ،جو وہاں کے موثر حلقے ہیں ان سے رابطے میں ہوں ، قومی سیاست میں کچھ پیچھے ہٹ گیا تھا اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کل کی جو سیاست چل رہی ہے میں اپنے آپ کو اس کے لئے موضوع نہیں سمجھتا.
انشاء اللہ آئندہ قومی اور صوبائی الیکشن آزادانہ طورپر لڑنے کا ارادہ ہے، مسلم لیگ ن میں واپسی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہر چیز کا امکان ہے میں کسی کو اس اسٹیج پر ردنہیں کرسکتا، کسی بھی جماعت میں الیکشن کے بعد شامل ہوں گا ، 30 سال سے میرا مسلم لیگ ن سے تعلق رہا ہے، اس پارٹی کو بنانے میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میرا بہت کردار رہا ہے،اس پارٹی کی ترقی میں میری ان پٹ رہی ہے تو ظاہر ہے رابطے تو ہیں مگر فی الحال شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے.
عمران میرے دوست ہیں میرے دل میں اس شخص کی بہت عزت بھی ہے،میں اس کی بڑی عزت کرتا ہوں مگر میں یہ دوستی قائم رکھنا چاہتا ہوں اور پارٹی میں شامل ہوگیا تو شاید یہ دوستی قائم نہ رہ سکے،گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے ایک نئی پارٹی بنانے کے حوالے سے بات چل رہی ہے، مجھ سے بھی کسی نہ کسی حوالے سے رابطہ ہوا ہے، نہ تو نئی پارٹی بنانے کے حق میں ہوں اور نہ کسی نئی پارٹی میں شامل ہورہا ہوں.
چوہدری نثار نے کہا کہ جنرل باجوہ نے ابھی تک عمران کی باتوں کا کم از کم آن ریکارڈ کوئی جواب نہیں دیا،مگر الزام کسی پر بھی لگانا مناسب نہیں ہے اور میں خواہ الزام عمران خان کی طرف سے ہویا جنرل باجوہ کی طرف سے ہومیں اس کے حق میں نہیں ہوں، عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں جنرل باجوہ ، جنرل فیض حمیداور جنرل آصف غفوروغیرہ کا بڑا کردار رہا ہے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میں اس سے اختلاف نہیں کرتا.
عمران حکومت کے خاتمے سےمتعلق چوہدری نثارنے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اسمبلی میں اکثریت ختم ہوگئی اور وہ الیکشن ہار گئے اس کے پیچھے کیا عوامل میں اس تفصیل میں میں جانا اس وقت مناسب نہیں سمجھتا، میرے خیال کے مطابق ہماری داخلی سیاست کا نتیجہ تھا، کیا نواز شریف میرٹ پر نا اہل ہوئے ہیں یا ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے؟ کے سوال پر چوہدری نثان نے کہا کہ اس تفصیل میں نہ جایئے مجھے ایسی ایسی چیزوں کا علم ہے جو میں ذکر کروں تو ایک ہیجان پیدا ہوجائے گا، میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کو ایک بیلنس کی ضرورت ہے اس ملک کوایک مرتبہ پھر اپنی روایتی سیاست کی طرف آنے کی ضرورت ہے، کیا نواز شریف سے انصاف ہوا ہے یا انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے؟ کے سوال میں چوہدری نثارنے کہا کہ کاش میں اس پوزیشن میں ہوتا کہ میں آپ کو بتا سکتاکہ میٹنگز کے دوران کیا باتیں ہوئیں تو شاید آپ کے سوال کا جواب آجاتا، میں واحد آدمی تھا جس نے نواز شریف کو کہا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کو خط نہ لکھیں.
انہوں نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کو شامل کرنے کے حق میں نہیں تھے،جب جے آئی ٹی میں یہ سارے شامل ہوئے تو میں اس حق میں بھی نہیں تھا کہ نواز شریف کو بطور وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا چاہئے،چوہدری نثارنے کہا کہ شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ زیادہ موزوں تھے،ترامیم سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، قانون سے کوئی فرق نہیں پڑتارویو ٴں سے فرق پڑتا ہے
پاکستان میں اس وقت جو رویئے ہیں پاکستان اپنی70 سالہ زندگی کے مشکل ترین حالات میں ہے تو آپ کو اندازہ ہوجائے گاکہ یہ مشکلات کیوں ہیں،ہم نے ایک دوسرے کی داڑھی کو پکڑا ہوا ہے ہم نے ایک دوسرے کے گریباں کو پکڑا ہوا ہے، جو اصل مسئلے ہیں وہ ہم قوم کو بتانے کے لئے تیار نہیں ہیں، جب نیب کے قوانین تھے تو تب کون سے لوگ مطمئن تھے اب جب وہ ہٹا دیئے گئے ہیں توتب کون سے لوگ مطمئن ہیں۔تو، اس وقت تو یہی لگتا ہے کہ فوج نیوٹرل ہے مگر ہر آرمی چیف کی اپنی پالیسی ہوتی ہے اور فوج کی سب سے بڑی خوبی ہے وہ یہ ہے کہ ڈسپلن کی پابند ہے
جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں موجود ہ چیف کواپنی پوزیشن پر آئے اب تو یہ قبل از وقت ہوگا کہنا کہ انہو ں نے اپنے آپ کو سیاست سے علیحدہ رکھا ہے۔مگر اس وقت کے جو حالات ہیں وہ اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ شاید یہ موجودہ سیٹ اپ سیاست سے دور رکھے، مگریہ دو طرفہ چیز ہوتی ہے ایک تو کئی آرمی چیف ضرورت سے زیادہ ambitious ہوتے ہیں اور وہ power grabbingمیں زیادہinvolve ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ایک گرداب پیدا ہوتا ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم سیاستدانوں کی بھی کمزوری ہوتی ہے ہم جبspaceدیتے ہیں تو ادارے ان پر قابض ہوتے ہیں .
اگر ہم سیاستدانspaceنہ دیں تو فوج یا کوئی اور ادارہ ہمارے ایریا پر قابض نہ ہو، معاشی تباہ سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ستر سال میں ہم سب جو حکومت میں رہے ہیں مجھ سمیت سب اس کے ذمہ دار ہیں، کیوں کہ ہم نے غیر ملکی قرضوں پر عیاشی کی، کسی نے زیادہ کی کسی نے کم کی کسی نے زیادہ قرضے لیے کسی نے کم لئے مگر خاص طور پر پچھلے بیس سالوں میں ہر حکومت نے قرضے لئےاور اس بات کو ذہن نشین نہیں کیا کہ اس سے ملک کو کتنا نقصان ہوگا، میرے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت نہیں ہے معاشرہ ہے، عمران نے بھی ریکارڈ تو ڑ قرضے لئے موجودہ حکومت بھی ریکارڈ توڑ قرضے لے رہی ہے.
پاکستان کی تاریخ میں کئی کمیشن بن چکے ہیں ،کمیشن بننا حل نہیں ہے اس پر عملدرآمد کرنا حل ہے ،یہاں ملک دو لخت ہوا کمیشن بنے اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ، آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ ہم قوم کو سچ نہیں بتا رہے، آج معیشت کھائی کے قریب ہے مگر بحث یہ چل رہی ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہوگا یا نہیں ہوگا ایسا لیڈر پاکستان کو چاہیے جو ملک کی حالت بتاسکے قوم کے سامنے سچ بولے ہمیں وینسٹن چرچل جیسی تقریر چاہیے اس لیڈر سے جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد وزیراعظم بنا تو اس نے کہا مجھے آپ کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے سوائے خون پسینہ اور آنسو کے ، مجھے اب اچھا محسوس ہو رہا ہے لوگوں میں یہ احساس ہو رہا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ آف پارٹیز ہیں کہ جو لیڈر کہتا ہے ہر کوئی اس پر سر تسلیم خم کرلیتا ہے اور یہ دو طرفہ ہے ، میں نے کابینہ کی میٹنگ میں کہا تھا کہ میاں صاحب ملک میں خوشامد پر پابندی لگائیں ۔ جو کوئی خوشامد کرتا ہے وہ آگے ہے، سب سے بڑا پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں اچھے آدمی کی قدر نہیں ہے برے کی پکڑ نہیں ہے.
صوبائی اسمبلی میں چونتیس ہزار سے جیتا جب کہ آج تک کبھی ووٹ نہیں مانگا اور قومی اسمبلی ، ہمیشہ حلقے میں جاتا ہوں آپ اطمینان کرلیں کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے ایک بندہ نکالیں جو کہے کہ میں نے صوبائی میں چوہدری نثار کو ووٹ دیا ہے قومی میں نہیں دیا تو میں مان جاؤں گا نتیجہ صحیح ہے،الیکشن غیر متنازع ہونا چاہئیں، سب سے بڑی پاکستان کی ضرورت ہے آئندہ الیکشن غیر متنازع ہوں دو مہینے آگے یا پیچھے یہ بے مقصد بحث ہے ، اب بھی افغان طالبان کا حامی ہوں اور ٹی ٹی پی ایک علیحدہ آرگنائزیشن ہے اور اس کے ایکٹو ہونے کے علیحدہ عوامل ہیں،،افغان طالبان ایک یونٹ ہیں ٹی ٹی پی ایک یونٹ نہیں ہے بیس بائیس مختلف گروپ ہیں جو ٹی ٹی پی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، خدانخواستہ ایک جنگ سے قوم گزرے میں نے وینسٹن چرچل کی مثال دی اسی طرح سے قوم کو سچ بتائیں یہ حالات ہیں اس سال یہ کریں گے دوسرے سال یہ کریں گے تیسرے سال یہ کریں گے اس میں آپ کو بھی پتھر باندھنے ہوں گے ہم کو بھی اور عوام ایک پتھر باندھیں گے تو ہم بطور وزیراعظم تین باندھیں گے یہ بڑا لمبا حل ہے اب کوئی شارٹ حل نہیں ہے۔ سات آٹھ سال پہلے ایک انٹیلی جنس بریفنگ ہوئی تھی جس میں صرف پانچ آدمی تھے آرمی چیف راحیل شریف ڈی جی آئی ایس آئی نوازشریف، اسحاق ڈار اور میں ایک میٹنگ میں شہباز شریف تھے ایک میں نہیں تھے دو میٹنگ ہوئیں تھیں.
اس میٹنگ کے چند دن بعد پریس کانفرنس میں یہ بات کی تھی اور شعر پڑھا تھا علامہ اقبال کا وطن کی فکر کر ناداں مشکل آنے والی ہے تیری بربادیوں کے چرچے ہیں آسمانوں میں ، میں نے کہا تھا انٹیلی جنس بریفنگ کی تشہیر نہیں کرسکتا صرف یہ بتاسکتا ہوں کہ اب ہمیں دشمن ہم پر حملہ نہیں کرے گا اندرونی hammering سے خدانخواستہ تو انٹرنل hammering ہو رہی ہے ہم اپنے سب سے بڑے دشمن اپنے آپ کے بنے ہوئے ہیں طوفان آرہا ہے لیکن دست و گریباں ہیں عوام کو نہیں بتا رہے عوام کو بتارہے ہیں یہ ریلیف دیں گے یہ میگا پراجیکٹ بنائیں گے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ خان عبدالولی خان اور ذوالفقار علی بھٹو پسندیدہ سیاستدان تھے ،عبدالولی خان کو بڑے قریب سے دیکھا ان سے بہت کچھ سیکھا وہ اصول پرست تھے اور بالکل نپی تلی بات کرتے تھے اتنے پاؤں پھیلاتے تھے جتنی چادر ہے اور دنیا میں مطلب ہم نے کتنا بدنام کیا پاکستان اور خاص کر ہم پنجاب سے آواز اٹھی کہ یہ ولی خان اور عوامی نیشنل پارٹی یہ تو ملک مخالف ہے یہ تو غدار ہیں مگر اس شخص نے صبر کیا اور پھر ثابت کیا کہ وہ اصل سیاستدان ہے اور اس کے ساتھ ابھی اور یہ بہت سے لوگ حیران ہوں گے.
ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق چوہدری نثارنے بتایا کہ جب وہ برسراقتدار تھے تو میں شروع میں اسکول میں تھا پھر کالج میں چلاگیا پھر آخر میں بالکل جب وہ پھانسی لگی تو یونیورسٹی میں تھا تو میں اینٹی پیپلزپارٹی آرگنائزیشن میں شمار ہوتا تھا ۔مگر میں صرف یہ ذرا وضاحت کردوں ‘اب میں نے بہت کچھ پڑھا اور بہت سا تجزیہ کیا تو میں نے دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک پرلے لیول کے نیشنلسٹ تھے وہ محب وطن تھے اور سب سے بڑی بات وہ تو شعر ہی ان کے لئے بنا تھا ”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں“مطلب جس بہادری سے اس نے پھانسی کا مقابلہ کیا اس کی مثال کم از کم پاکستان میں تو کوئی نہیں ملتی.
چوہدری نثار نے بتایا کہ محمد علی باکسر میرے پسندیدہ کھلاڑی تھی ، عمران خان پسندیدہ کرکٹر ہیں، مہوش حیات پسندیدہ اداکارہ ہیں ، احمد فراز ‘ مظفر وارثی اور حبیب جالب پسندیدہ شاعر تھے چین پاکستان کا سب سے مخلص دوست ہے، بھارت سب سے بڑا دشمن ہے
امریکا ہمارا دوست ہے نہ دشمن ، وہ اپنے مفادات کا پیروی کرتا ہے ،تو جب اس کو سوٹ کرتا ہے وہ ہمارا دوست بن جاتا ہے جب اس کو سوٹ نہیں کرتا تو وہ ہمارے خلاف ہوجاتا ہے ، چوہدری نثار نے بتایا کہ میرے نام سے بہت سارے جعلی اکاؤنٹس ہیں میرا کوئی ٹوئٹر اکاؤنٹ نہیں ہے میرا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہے ہی نہیں ہے، اسد عمر اور اسحاق ڈار میں سے اسحاق ڈار اچھے وزیرخزانہ ہیں ، اسحاق ڈاراچھے ہیں یا مفتاح اسماعیل ؟
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل‘ مفتاح اسماعیل اکانومسٹ ہے میں اسے زیادہ نہیں جانتا ،اسحاق ڈار سے میرا اچھا تعلق ہے ، ‘ مفتاح اسماعیل اکانومسٹ ہے اب ان کی پالیسیز سے آپ اتفاق کریں یا اختلاف کریں وہ اپنی جگہ مگر وہ اکانومسٹ ہے ،بطور وزیراعظم عمران خان شہباز شریف سے بہتر رہے.
شہریار آفریدی کے مقابلے میں رانا ثناء اللہ بہتر وزیر داخلہ ہیں ، موثر ترین آرمی چیف رہے ہیں میرے نکتہ نظر سے وہ جنرل وحید اور جنرل کیانی ، میں نے کئی سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب ریٹائر ہوں گا یا سیاست سے علیحدہ ہوجاؤں گا تو میرا بیٹا سیاست میں آنا چاہے اور حلقہ کی عوام ویلکم کریں تو میں اس کو facilitate کروں گا مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ میں بھی سیاست ہوں اور میرا بیٹا بھی ہو یہ نہیں ہوسکتا میری سیٹ پر آئے گا تو اگر اگلے الیکشن میں یا اس سے اگلے الیکشن میں ، میں نے اپنے آپ کو پیچھے ہٹایا، میرا ایک ہی بیٹا ہے تیمور نام ہے اگر اس نے دلچسپی ہوئی اور حلقے نے ویلکم کیا تو ضرور سیاست میں آئے گا۔