• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:حمید اللہ بھٹی۔۔۔راچڈیل
بھٹی ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے دوبارہ ملک میں دہشت گردانہ حملے شروع کردیے ہیں جسے وہ جہاد کانام دیتے ہیں لیکن عجیب جہاد ہے جو اسلامی ملک کے مساجد ومدارس کو نشانہ بنانے کا درس دیتاہے سیکورٹی اِداروں پر حملے بھی جائز ہیں حکومتی و نجی املاک کو نقصان پہنچانے پر بھی کوئی قدغن نہیں اِس سب کے باوجودخودکو مسلمان کہتے ہیں اسلام توکسی جاندار کو نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے یہ ایسا جہاد کررہے ہیں جس میں منشیات کے اڈوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں جرائم پیشہ عناصر پر ہاتھ اُٹھانابھی غلط ہے البتہ ملک دشمن عناصر کے ہمرکاب چلناعین اسلام ہے اسلام کی ایسی تعبیر دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں اب تو سارے ملک میں امن و امان کی صورتحال مزید خراب کرنے میں مصروف ہیں یہ مہنگائی سے تنگ عوام کی پشت پر ایک نیا تازیانہ ہے گزشہ روز پشاور پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ساٹھ نمازی شہیداور 156نمازی زخمی ہوگئے اِس کی زمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کر لی ہے اِ س سانحہ سے ایک بار پھر یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ ملک کا کوئی بھی حصہ دہشت گردوں کی دسترس سے باہر نہیں اور وہ جہاں چاہیں جب چاہیں حملہ کرسکتے ہیں کیونکہ پولیس لائن ایک انتہائی حساس حصہ ہے یہاں نہ صرف پولیس آفیسران اور سیکورٹی انتظامیہ کے دفاتر ہیںہیں بلکہ پولیس اہلکاروں کی رہائش گاہیں بھی ہیں ایک اور حوالے سے حساسیت یہ ہے کہ پولیس لائن سے ملحقہ ایک راستہ گورنر اور وزیرِ اعلٰی ہائوس جیسی اہم ترین رہائش گاہوں کی طرف جاتاہے دائیں طرف صوبائی سیکرٹریٹ ہے اور عقبی جانب سنٹرل جیل ہے اِتنے حساس علاقہ تک دہشت گردوں کی رسائی ثابت کرتی ہے کہ نہ صرف ہمارے حفاظتی نظام میں خامیاں ہیں بلکہ حفاظت پر ماموراہلکار بھی غافل ہیں اسی لیے جب متاثرین کی سوالیہ نظریں اِداروں یا ایجنسیوں کی طرف دیکھتی ہیں توکہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتااب بھی وزیرِ داخلہ کچھ اور کہتے ہیں آئی جی لاعلمی کا اظہار کررہے ہیں جبکہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور ممکن ہے کئی روز سے پولیس لائن میں ہی رہ رہا ہو یہ اِس جانب اشارہ ہے کہ سیکورٹی اِداروں اور حکمرانوں میں تعاون کا فقدان اورالگ الگ ترجیحات ہیں جوصورتحال میں خرابی کی ایک اہم وجہ ہے جب دشمن کا تعین کرنے میںلاپرواہی اور غیر سنجیدگی ہوگی توعام آدمی میں عدمِ تحفظ کا احساس بڑھنا یقینی ہے۔ پشاورپولیس لائن جوکہ ہائی سیکورٹی علاقہ ہے یہاں آنے کے لیے ایک سے زائد ایسے ناکوں سے گزرنا پڑتا ہے جہاں باقاعدہ رکاوٹیں ہیں اورگزرنے والوں کی تلاشی لی جاتی ہے اِس کے باوجود نہ صرف دہشت گرد بغیر کسی کی نظروں میں آئے گزر جاتا ہے بلکہ حیران کُن طورپر دھماکہ خیز مواد بھی لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے سے کئی سوال جنم لیتے ہیں اول یہ کہ دہشت گردوں کوکہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سطح پر سہولت کاری حاصل ہے دوم حفاظت پر تعینات بدعنوان اہلکار سُستی اور مالی منفعت کے عوض فرائض کی بجاآوری میں کوتاہی کرتے ہیں سوم پولیس میںدہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں یا دیگر کاموں میں الجھا ناہو سکتا ہے جس کی وجہ سے امن و امان کے حوالہ سے فرائض ادا نہیں کررہی جو بھی ہے پولیس کے ساتھ سیکورٹی ایجنسیوں کو جائزہ لیکر خرابیاں دوراور دہشت گردعناصر کو کچلنے کے لیے پوری قوت سے کاروائی کرنی چاہیے اگر نقصانات کے باوجود رویہ اورطرزِ عمل تبدیل نہیں کیا جاتا تو آئندہ بھی نقصان کے لیے تیاررہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف دلیری سے ایک طویل جنگ کا سامنا کیا پاک فوج کے جوانوں کے علاوہ ہزاروں عام شہریوں نے بھی جانیں قربان کیں مگر کچھ عرصہ سکون کا احساس ہوتاہے لیکن وقفے وقفے سے ہونے والے حملے ثابت کرتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کا مکمل طورپر خاتمہ نہیں ہوابلکہ اب مزید قوت پکڑنے لگے ہیں تبھی گزشتہ چند ماہ سے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے ہمارے حکمران اِس کازمہ دار افغان طالبان کو ٹھہراتے ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی کچھ لوگ طالبان کے سحر میں مبتلا اور اُن کی کامیابیوں پرفخر کرتے ہیں یہ زمہ دارانہ طرزِعمل نہیں اب تو واضح ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے جنگ بندی ختم کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کو ملک گیر حملے کرنے کا حکمنامہ جاری کیاہے لہذاوقت آگیا ہے کہ پاکستانی بھی یکطرفہ سحر سے نکلیں اور حکام بھی طالبان سے دوٹوک مطالبہ کریں کہ وعدوں کے مطابق افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں کیونکہ اگست 2021 جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے یہ اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں پاکستان کے خدشات غلط نہیں کہ طالبان کے آنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوانیز منظم وفعال ہو کر دہشت گردہماری طویل کامیابیاں ضائع کر نے کے درپے ہیں یہ ایسی صورتحال ہے اگر امن بحال نہیں ہوتاتونہ صرف شہری اِداروں سے بدظن ہوں گے بلکہ قومی یکجہتی بھی متاثرہوگی لہذا کوتاہی اور غفلت کی مزید کوئی گُنجائش نہیں لیکن اِس مصیبت کو اِدارے اور عوام مل کر ہی پسپا کر سکتے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیکورٹی اِداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید مستعداور فعال کیاجائے اِس کے لیے ضروری ہے کہ غیر پیشہ وارانہ سرگرمیاں ترک کی جائیں۔ سرحد پر باڑ لگانے سے ماضی میں کچھ عرصہ امن و امان میں بہتری آئی جس سے یہ خیال پختہ ہواکہ باڑ لگنے اور طالبان کے اقتدار میں آنے سے دہشت گردعناصر کو آنے جانے کی سہولت نہ ملنے سے پُرتشددکاروائیوں کا خاتمہ ہو اہے لیکن یہ خیال اب غلط ثابت ہوتا جارہا ہے اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آج بھی افغانستان پراکسی میں مصروف غیر ملکی ایجنسیوں کا مرکز ہے دوم طویل عرصہ سے طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان قریبی اور دوستانہ روابط ہیں جو سیاسی کے ساتھ نسلی اور نظریاتی بھی ہیںاسی لے ٹی ٹی پی کوپاکستان کا اندرونی حصہ قرار دے کر افغان طالبان اِس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا حصہ نہیں بننے حالانکہ افغانوں کووروس سے آزادی دلانے کی جنگ میں پاکستان کی قربانیاں کسی طرح افغانوں سے کم نہیں نو گیارہ واقعات کے بعد بھی بات چیت سے مسلہ حل کرنے اور جنگ ٹالنے کی سنجیدہ اور پُر خلوص کوششیں کیںپھر بھی طالبان کی بے نیازی باعثِ تعجب ہے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان بات چیت میں طالبان صرف سہولت کاری تک محدود رہنے کی بجائے اگر سنجیدہ دبائو ڈالیں اور ٹی ٹی پی کوملنے والی بیرونی کمک کا خاتمہ کردیں تو عسکریت پسندوں پر قابو پانا مشکل نہیں ماضی میں پاکستان نے مقامی شدت پسندوں سے چھ بار معاہدے کیے جو محدود مدت کے لیے ملک میں امن کا باعث بنے لیکن اِن معاہدوں کے بعد دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آنے سے ایسا لگتاہے کہ اِن عسکریت پسندوں نے معاہدوں کی آڑ میں وقت لیکر اپنی حربی قوت بہتر بنائی اسی لیے فہمیدہ حلقے معاہدوں کو وقت کا ضیائع اور بات چیت کے عمل کو فضول سمجھتے ہیں اِس میں شائبہ نہیں کہ ٹی ٹی پی کو بھارت اپنی خفیہ ایجنسی راکے زریعے تربیت واسلحہ فراہم کرتا ہے اسی بناپرشہری اپنے اِداروں سے اب فیصلہ کُن کاروائی کی امید رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان بھی دوریاں بڑھیں اور بداعتمادی آئی ہے سرحد پار سے پاکستانی اہلکاروں کو باربار نشانہ بناکر محسن ملک کوجانی ومالی نقصان پہنچایا گیا ایسے واقعات سے تجارتی و آمدورفت پر بندشیں لگتی رہیں ممکن ہے طالبان کے سخت رویے کی وجہ یہ شک ہو کہ پاکستان دوبارہ غیر جانبدارنہ پالیسی بدل کراپنا وزن امریکی پلڑے میں ڈال رہا ہے اورکسی وقت بھی افغانستان میں دہشت گردوں کے بقایا خطرات کے خاتمے کی آڑ میں انھیں نقصان پہنچاسکتا ہے جس طرح ماضی میں زمینی اور فضائی راہ داری دینے کے ساتھ اڈے دیے گئے جن سے اُڑان بھرنے والے طیارے اُن پر بمباری کرتیاور ڈرون حملے سے ایمن اظواہری کو نشانہ بنایا گیا یہ شک درست نہیں بلکہ تصوراتی ہے جودوریوں کی خیلیج کو وسیع کر سکتاہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ نہ صرف دوٹوک بات سے طالبان کے شکوک و خدشات دور کیے جائیں بلکہ نہ صرف ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے خلاف خود فیصلہ کُن کاروائی کی جائے بلکہ طالبان سے بھی ایسا مطالبہ کیا جائے وگرنہ پشاور خود کش حملے جیسے واقعات عوام میںبددلی اور مایوسی کا سبب بنیں گے جس سے اِداروں کی ساکھ اور قومی سلامتی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
یورپ سے سے مزید