شازیہ رباب
خاندانی نظام کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مانی جاتی رہی ہے۔ مختلف خاندانوں میں زندگی گزارنے کے طریقے اور ادب و آداب بھی مختلف رہے ہیں۔ لیکن بنیادی اکائی جو خاندانوں کو برقرار رکھنے میں مددگار رہی وہ ایثار اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کا جذبہ ہے۔خاندان معاشرے کی ایسی اساسی اکائی ہے، جس سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
جتنی مستحکم اور مضبوط یہ اکائی ہو گی، معاشرہ اور ریاست اسی قدر مضبوط و مستحکم ہوں گے۔ خاندان اپنی دیرینہ روایات کو برقرار رکھنے، بھائی چارے، یگانگت اور اتفاق کی فضا کو فروغ دینے کے لئے بہت سے امور پر خاص توجہ رکھتے ہیں، جس میں بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے شفقت، مہمان داری، خواتین کی عزت و احترام، بہترین گھریلو ماحول، مشترکہ دسترخوان، تعلق داریاں، آپس میں ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹنا ،خوشیوں میں شریک ہونا اور ان جیسے بہت سے دیگر امور شامل ہیں۔
بے لوث رشتوں اور محبتوں سے جڑا خاندان امور زندگی کو سہل بناتا ہے۔ غم اور پریشانیاں سانجھی ہونے کی وجہ سے انسان مایوسی اور تنہائی کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ نظام ایک دوسرے کی ضروریات اور خواہشات سمجھنے اور ان کا احترام کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ بچے بزرگوں کے سایہ شفقت میں بھرپور توجہ حاصل کرتے ہیں جو ان کی شخصیت میں نکھار اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔ رویوں کو سمجھنے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے، مختلف حالات میں سمجھوتہ کرنے، مشکل وقت میں برداشت اور صبر اختیار کرنے جیسی خصوصیات مشترکہ خاندانی نظام کے باعث شخصیت اور ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام ایک بہترین تربیت گاہ ہے، جس میں گھر کے بڑے چھوٹوں کو نہ صرف مختلف مسائل اور حالات سے نبرد آزما ہونے کے گر بتاتے ہیں بلکہ ان کی اخلاقی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بزرگوں کے تجربات سے فیض اُٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ ایک بہترین معاشی اور معاشرتی ڈھال بھی ہے۔ خاندان میں اتحاد اور اتفاق بہت سے بیرونی عناصر کو شکست دینے میں بھی مددگار ہوتا ہے۔ خاندان ایک ایسی چٹان کی مانند ہوتا ہے،جس سے زمانے کی سرد و گرم لہریں ٹکڑا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں لیکن اس کی بنیادیں نہیں ہلا سکتیں۔ معاشرے کی ترقی اور نشوونما کا انحصار خاندانی نظام کی بقا پر ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کا محور ہمیشہ عورت رہی ہے، کیوں کہ رشتوں اور تعلقات کو بچا کر اور جوڑ کر رکھنے کی جو خداداد صلاحیت عورت میں ہے وہ مرد کے حصے میں نہیں آئی۔ عورت ایک ایسے پل کی حیثیت رکھتی ہے جو ہر اونچ نیچ برداشت کر کے متوازن راستہ فراہم کرتی ہے۔ لیکن وقت کا تیزی سے گھومتا ہوا پہیہ زندگی میں بے پناہ تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اس کی رفتار میں شدت کا بھی باعث بنا۔ اس تیزی سے گزرتے ہوئے وقت نے معاشرتی و معاشی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
یہ اثرات نہ صرف ہماری پسند و نا پسند، رسم و رواج، اقدار اور روزمرہ معاملات کو تبدیل کر چکے ہیں بلکہ ہماری سوچ کو بھی بڑی حد تک یرغمال بنا چکے ہیں۔ ہم نے جن تبدیلیوں کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے قبول کر لیا ہے وہ تبدیلیاں ذہنی انتشار کا تحفہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیاوی اور معاشرتی اقدار سے بھی دور لے کر جا رہی ہیں۔ لوگوں کی ضروریات، ترجیحات، طبیعت، تقاضے، روایات سب ایک نئی سمت میں ڈھلتے نظر آتے ہیں۔
روزمرہ معمولات کی تبدیلی کے ساتھ ہی انسان نے سماجی اقدار و روایات کی پابندی کو اپنے لئے بوجھ سمجھنا شروع کر دیا اور نجی زندگی میں آزادی اس کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہو گئی، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام چلانے کے لئے درکار توازن اپنا وجود کھو بیٹھا۔ ہم نے مقابلہ بازی کی فضا قائم کر لی اور اپنی بے لگام آرزوؤں کی تکمیل کے لئے جہد مسلسل کو چن لیا۔ دور حاضر کی سنگینی نے مرد اور عورت دونوں کو کسب معاش میں الجھا دیا، جس کے نتیجے میں بہت سی روایات اور معمولات پر سمجھوتہ ناگزیر ہو گیا۔ خواتین جو وقت اپنے گھر، خاندان اور بچوں کو دیتی تھیں، اس میں کمی آگئی ،جس کے نتیجے میں بچوں کی تربیت، خاندان کا مشکل میں ساتھ دینا، مشترکہ دسترخوان کا اہتمام کرنا اور اسی طرح بہت سے دوسرے امور میں شراکت کرنا ممکن نہ رہا اور یہ امر فاصلوں کا باعث بنتا گیا۔
آج کل ہمارا معاشرتی سلسلہ کچھ ایسی سمت رواں دواں ہے جہاں ہر خاندان ایک تعلیم یافتہ اور برسر روزگار خاتون چاہتا ہے لیکن دوسری طرف اسے ایسے وسائل مہیا نہیں کئے جاتے جن کی مدد سے وہ ملازمت اور گھریلو امور میں توازن رکھ سکے۔ سسرال کی وہی د قیانوسی توقعات ہیں کہ آنے والی بہو ملازمت کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریاں یعنی بچوں کی پرورش، گھر کی صفائی ستھرائی، گھر کے تمام افراد کے لئے کھانے پینے کا انتظام اور دیگر معاملات خود نمٹائے گی،جس کے نتیجے میں خواتین کا frustrate ہونا اور چھوٹے کنبے کی طرف رجحان بڑھتا گیا اور مشترکہ خاندانی نظام ہمارے رویوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔
ایک اور بڑی وجہ جو مشترکہ خاندانی نظام میں دراڑ کا باعث ہے وہ انسان کی انفرادیت کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ ہر انسان کو اپنی شخصیت آزادی عزیز ہوتی ہے۔ ہر انسان دوسرے سے اپنی سوچ، ضرورت، رکھ رکھاؤ، مزاج، ذوق اور عادات میں مختلف ہوتا ہے۔ وہ شراکت اور دخل اندازی ایک حد تک برداشت کرتا ہے۔ اگر مستقل اسے سماج اور روایات کا پابند رکھا جائے گا تو ایک دن اس کی برداشت جواب دے جائے گی۔ یہ حقیقت خواتین کے لئے بھی اتنی ہی اٹل ہے جتنی مردوں کے لئے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی عورت سمجھوتہ کرکے زندگی گزار رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ مکمل لگاؤ اور یکسوئی کے ساتھ اپنے روزمرہ معمولات نبھانے میں مشکل کا شکار نظر آتی ہے۔
یہ عمومی رویہ تعلقات کی خرابی کا باعث بنتے ہوئے پورے خاندان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سماجی روایات کی پابندی اور شخصی آزادی میں توازن نہ ہونا خاندانی نظام کی پسپائی کی ایک اہم وجہ ہے۔ تعلیم جہاں شعور و ادراک و آگہی کے در کھولتی ہے وہاں صبر و برداشت کا درس بھی دیتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں صورتحال اس سے مختلف ہے۔ اپنی تعلیم کے زعم میں خود کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھنے کی روش عام ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس سے کسی کی دل شکنی تو نہیں ہو رہی۔
مزاج میں صبر اور برداشت جیسی خصوصیات کو جگہ نہیں دی جاتی ،جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔ خاندانی نظام کی بقا کا انحصار قدیم وقتوں میں بھی ایک دوسرے کی انفرادیت کو تسلیم کرتے ہوئے برداشت کرنے میں تھا اور آج کے دور میں بھی ضرورت اسی امر کی ہے۔ اسی طرح طبیعت میں انکساری اور برداشت کا جذبہ بھی خاندانی نظام کی بقاء کے لئے ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
اسی طرح خواتین اگر ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں بہتری برتیں، جلد بازی سے گریز کریں، کسی بھی زعم میں مبتلا ہونے کی بجائے اپنی طبیعت میں انکساری لائیں، دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں تو مشترکہ خاندانی نظام جیسی بہترین ثقافت اب بھی ہمارے معاشرے کا حصہ رہ سکتی ہے اور بہت سے خاندانوں کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔