پروفیسر سید مہدی حسن
گذشتہ پچھتر سالوں میں پاکستان کی آبادی میں کئی گناہ اضافہ ہوا اور اب یہ دنیا کا پانچواں بڑی آبادی والا ملک بن چکا ہے۔ اس ملک کی 244ملین آبادی کا 64%فیصد نوجوان (Youths) پر مشتمل ہے۔ اس ملک کی اکثریت کی اکثریت شدید کنفوژن کا شکار ہے۔ آج کا نوجوان اپنے مستقبل سے مایوس ہے۔ملک کی حالت سے خوف زدہ نظر آتا ہے۔
خوف اور ڈر کے ماحول میں پرورش پانے والی نوجوان نسل اپنے آئے روز کے بگڑتے سماجی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچوں کے اثرات کے تابع عملی طور پر بیگانگی کی تمام حدو ں کو پھلانگتے ہوئے عجب صورت حال پیش کر رہی ہے، جس کا اظہار سٹریٹ کرائمز اور منشیات کے بڑھتے ہوئے رحجان سے لگایا جا سکتا ہے۔ ملک ترقی کے بجائے زبوں حال کا شکار ہے ،کمر توڑ مہنگائی، تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اقربا پروری،شہروں پر آبادی کا بوجھ ،غیر معیاری تعلیم، دہشت گردی، بد عنوانی، رشوت ستانی اور سفارش وغیرہ نے ملک کے 64%فیصد نوجوان طبقہ کو مزید پریشان کردیا ہے۔
پاکستان کے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں لیکن ان کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کیا جارہا ہے۔ دنیا میں اوسط IQ لیول 105-85ہے پاکستان کے ان نامساعد حالات کے باوجود پاکستانی نوجوان کا اوسط IQ لیول 84 ہے۔ جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اگر پرسکون حالات اور صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کئے جائیں تو یہ IQلیول 84سے زیادہ جاسکتا ہے۔
تمام مسائل کے باوجو نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانا ہوگا، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوان کی ’’بہتر اور مناسب رہنمائی‘‘ کے ذریعے اس کو ان تمام حالات کے باوجود آگے بڑھنے اور پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ مناسب اور بہترین رہنمائی ہو تو نوجوان بھی ستاروں پر کمند ڈال سکتے ہیں۔ شمس و قمر تسخیر کرسکتے ہیں اقبال کے شاہین بن سکتے ہیں۔
ہرانسان کے اندر ایک گوہر نایاب چھپا ہوتا ہے، جس طرح ایک جوہری کو پتا ہوتا ہے کے کون سا ہیرا کتنی مالیت کا ہے، وہ اپنی دکان میں موجود ہر ہیرے کو پرکھنا جانتا ہے، بلکل اس ہی طرح ہر نوجوان کے اندر بھی کچھ جواہر پوشیدہ ہوتے ہیں، بس ان کو پرکھنے اور تراش کر نکھارنے کی ضرورت ہوتی ہے.۔ قوم کے یہ نوجوان وہ ہیں جو صلاحیتوں سے بھرپور ہیں، جن کے عزائم بلند ہیں۔ کھیل کا میدان ہو یا آئی ٹی کا، معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی مسائل، کسی بھی شعبے میں نوجوانوں کی شمولیت کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں۔
اگر نوجوانوں میں یہ شعور بیدار ہوجائے کہ ملک و قوم کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے ان کی اہمیت کیا ہےاور وہ اپنی تمام تر توجہ ملک کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کر دیں، تو ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ مسائل تو ویسے ہی حل ہو جائیں۔اب صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ نوجوانوں کے پاس ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہوتا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو برملا اظہار کرسکیں۔ نوجوانوں کی’’رہنمائی‘ اس طرح‘ کی جائے کہ وہ کسی کا آلہ کار نہ بنیں بلکہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے اپنی طاقت صلاحیت، عزم اور حوصلہ کو استعمال کریں۔
نوجوانوں سے مجھے یہی کہنا ہے کہ، مایوس نہ ہوں، آگے بڑھنے کا کوئی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، اپنی ہمت اور صلاحیت کو مجتمع کیجیے۔اپنے مستقبل کو کسی دوسرے فرد یا گروہ کے ہاتھ میں دینے کہ بجائے اپنے ہاتھ میں رکھیں اور محنت ،جستجواور کوشش کو اپنائیں، دنیا میں سر اٹھا کر جینا سیکھیں۔ کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے مسلسل چلتے رہنا اور با ہمّت ہونا بہت ضروری ہے.اگر نوجوان صحيح راستہ سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنےمقصد واضح ہو ، کیوں کہ آگر کوئی مقصد ہی نہیں ہو گا تو پھر زندگی انھیں بہت پیچھے چھوڑ جائے گی۔
حالات کے مطابق عملی تصویر بننے اور جوش وعاقبت نااندیشی کے گرداب میں محصور ہونے کے بجائے ہوش وتدبر، غور وفکر سے کام لے کر درست اور صحیح میدانِ عمل متعین کرے، اس وقت کو ضایع نہ ہونے دیں۔ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں، ایسا علم جو آپکو بہترین مسلمان، اچھا انسان اورر آپکی صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہو۔ بے شک اس وقت ہماراملک مشکل ترین دور سے گزرہا ہے۔
مشکلات میں ہی آسانی کے راستے نکلتے ہیں اور مایوس کن حالات میں ہی کامیابی کے منصوبے جنم لیتے ہیں۔ آج حالات جیسے بھی ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ یاد رکھیں، گھبراہٹ، پریشانی یا ہمت ہارنا کبھی بھی کسی بھی مسئلہ یا مشکل کا حل نہیں ہے۔ ہر تکلیف سبق سکھاتی ہے ، اس لئےاپنی زندگی کا لائحہ عمل خود مرتب کریں۔ آپ اپنی صلاحیت ، توانائی اور قوت سے موجودہ حالات سے نکل کر مستقبل کو مفید اور کار آمد بنا سکتے ہیں، آپ کو یقین کرنا چاہیے کہ ہر تاریک رات کے بعد روشن صبح ہوتی ہے۔
شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے