رابعہ فاطمہ
موجودہ سیاسی، معاشی اور سازشی معاشرتی نظام نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی، فکری، روحانی اور اخلاقی قوتوں کو تیزی سے ناکارہ بنا رہا ہے۔ آندھیوں، طوفانوں، قیامت خیز زلزلوں اور ہولناک سیلابوں سے زیادہ تباہ کن اور خوفناک تباہی نوجوان نسل کے اخلاقی اور روحانی اقدر کو تباہ کرنے سے ظہور میں آتی ہے، ہم واقعتاً ایک دلچسپ عہد میں زندہ ہیں۔ ایک ایسی دنیا جو ہنگاموں سے بھرپور ہےجو پُر انتشار معلوم ہوتی ہے۔ برسا برس سےیہی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں یہ 'نازک دور ایسا ہے کہ کبھی ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، ڈوبتی ہوئی معیشت اور ناکام سیاست نے جہاں ہر طبقے کو مالی مشکلات سے دو چار کیا ہے، وہیں لوگوں کو نفسیاتی و جسمانی امراض میں بھی مبتلاکردیاہے۔ تعلیم ہو یا اشیاء خورد ونوش متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کرپشن کی زد میں اور عوام بنیاد سہولیات سے محروم ۔ ان سب صورت حال کے باوجود ہم نوجوان طبقے سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر یورپ کا رخ نہیں کریں، ایسے ملک کو خیر آباد نہیں کہیں گے جہاں نوکریاں نہیں ملتیں ،جہاں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ، ایسے ملک سے ہجرت نہیں کریں جہاں نہ بجلی ہے نہ گیس جو قرض کے بوجھ تلے دبتا چلا جارہا ہے۔
جہاں تعلیم پر لاکھوں روپے تو لیے جاتے ہیں پر نوکریاں میرٹ پر نہیں دی جاتیں۔ جس ملک میں جان و مال، تعلیم، صحت سے لے کر پینے کا پانی بھی اپنی جیب سے ہی لے کر خریدنا پڑے اس ملک میں کیونکر نوجوان نسل کو اپنا مستقبل روشن نظر آئے گا ۔ مستقبل تو دور کی بات حال ہی برا ہے۔ پاکستان کی معاشی اور سیاسی حالات نے بھی نوجوانوں کو بدظن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سنتے آئے تھے کہ جس ملک میں نوجوان اکثریت میں ہوں تو اس کی قسمت کا ستارہ عروج پر ہوتا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت کم عمری سے ہی دوسرے ممالک جانے کے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہے۔
مقصد چاہے تعلیم حاصل کرنا ہو یا کام کا حصول، بنیادی بات پاکستان سے فرار ہی نظر آتی ہے۔بیرون ملک کے سند یافتہ طلباء کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو بذات خود ایک خود اعتمادی پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ ادھرہمارا نصاب بھی وہی گھسا پٹا ہے جو برسوں سے رٹایا جارہا ہےنئے علوم کا فقدان نوجوانوں کے ذہنوں کو زنگ آلود کر رہا ہے۔ آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اس تعداد سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نوجوان ڈگریاں حاصل کرتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے روزگار کے نئے مواقع آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
ایسے نوجوانوں میں محرومی کا احساس شدت اختیار کر جانا فطری عمل ہے۔ جس کی بنا پر وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری ریاست اور حکومت کب خواب غفلت سے جاگیں گے اور ہماری نئی نسل کو اپنے ملک میں وہ ساری سہولتیں اور روزگار کو یقینی بنائیں گے جو وہ دوسرے ممالک میں جاکر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ہجرت ایک ایسا عمل ہے جو کسی بھی شہری کے لیے تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ اس کا وطن ہی اس کا مسکن اور اس کی شناخت ہوتا ہے۔ انسان فطری طور پر اپنے وطن کے لیے جان دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے پر وہ ہجرت جیسا سخت فیصلہ لیتا ہے تو یہ بات مسلم ہےکہ اس کے پیچھے معاشی و سماجی دباؤ ہوتا ہے۔
اپنا گھر، اپنے عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کو بھی چھوڑ کر جاناصرف اس لیے برداشت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرسکے۔بیرون ملک کی شہریت حاصل کرنا ان کی زندگی کا مقصد بن گیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوجوان کریں تو کیا کریں۔ ان میں سے کچھ سی ایس ایس کر کے سول سروس کا حصہ بن جائیں گے لیکن بقیہ اتنی بڑی تعداد کیا کرے گی۔ ہماری افسر شاہی، ججوں اور سیاستدانوں کو نوجوانوں کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
Rich Dad Or Poor Dad'' ‘‘کے مصنف لکھتے ہیں کہ غریب پیدا ہونا آپ کی قسمت ہے لیکن غریب مرجانا آپ کی اپنی مرضی پر منحصر ہے یعنی تاعمر کوشش نہ کرنا اور اپنے حالات کو بہتر نہ بنانا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ یہی وجہ سے ہے کہ پڑھے لکھے باشعور نوجوان اپنے حالات کو بدلنے کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانا سب کا حق ہے۔
بیورو آف امیگریشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نوجوان مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔ بیورو آف امیگریشن کے مطابق 2022ء میں ملک چھوڑ کر جانے والے نوجوانوں کی تعداد سات لاکھ پینسٹھ ہزار کے قریب ہے جو 2019ء کے مقابلے میں تین گنا ہے اور یہ تعداد پچھلے چند سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ان افراد میں زیادہ تر ڈاکٹرز اور انجینئرز شامل ہیں اور ممکن ہے 2023ء میں اس میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے۔
سری لنکا کی حالیہ صورت حال کے پیش نظر یہ خدشات بھی نوجوان طبقے میں پروان چڑھ رہے ہیں کہ معیشت اور سیاست کا یہی حال رہا تو ملک پاکستان بھی کہیں دیوالیہ نہ ہوجائے۔ بیش تر نوجوانوں کا خیال ہے کہ خودکشی کرنے سے تو بہتر ہے بندہ دوسرے ملک چلا جائے اور وہاں جاکر اپنی زندگی کو خوش حال بنا لے۔" ہر فرد اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کا حق رکھتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ پاکستان معاشی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے انتہائی مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ہر ادارہ متنازع ہے، مایوسی کا اندھیرا بڑھ رہا ہے اور امید کی کرنیں ایک ایک کر کے بجھ رہی ہیں، تمام باتوں اور پاکستان کی صورت حال کے پیش نظر تو ہجرت کا فیصلہ بہر طور اچھا ہے لیکن یہ پاکستان کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔
تارکین وطن بے شک پاکستان کی خوش حالی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ ا پنی اجڑتی ہوئی بستی کو چھوڑ کر خوشحال بستی کی تلاش میں ہجرت کر لی جائے اور ایک نیا مسکن تلاش کیا جائے یا اس اندھیرے کو دور کرنے کے لئے خود ہی شمعیں روشن کی جائیں۔ مشکل گھڑی میں نو جوانوں کا کام امید کی شمعیں جلانا ہوتا ہے۔ سوچیں کہ اگر یونہی نوجوان اپنا ملک چھوڑ کر جاتے رہے تو مجبور اور لاچاروں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟
اگر گرہن کی اس گہری رات میں سب ہی جگنو چلے گئے تو صبح اور خوابوں کی تعمیل کے انتظار میں بیٹھے باقی مکینوں کو راستہ کون دکھائے گا۔اس وقت ملک چھوڑ کر درندوں کے حوالے کر کے جانے کا نہیں، یہ وقت اس نظام کو تبدیل کرنے کا ہے۔ پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں کو خود نظام کی تبدیلی کے لئے میدان میں آنا ہوگا۔ راہ فرار اختیار کرنا آسان ہوتا ہے لیکن حالات بدلنے کے لئے ذمہ داری اٹھانا مشکل۔ کیوں نہ اس اندھیرے کو دور کرنے کے لئے شمعیں جلائی جائیں۔
پاکستان میں نظام معیشت، نظام سیاست اور نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر جانب لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک پاکستان میں بھی دنیا بھر سے نوجوان نہ صرف یہاں تعلیم حاصل کرنے بلکہ نوکری کے حصول کے لیے بھی آئیں اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب پڑھے لکھے نوجوان انفرادیت کے بجائے اجتماعیت پر غور کرکے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنی قابلیت و صلاحیت صرف کریں۔ دوسرے ممالک کی طرف رخ کرنے کے بجائے اپنے وطن کو مثالی بنائیں۔