• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرچ بشپ کنٹربری کی چرچ آف انگلینڈ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کرانے کیلئے زبردستی پر نکتہ چینی

لندن (پی اے) آرچ بشپ کنٹربری نے چرچ آف انگلینڈ میں ہم جنس پرستوں کی شادی کرانے کیلئے زبردستی پر نکتہ چینی کی ہے۔ گھانا میں عالمی اینگلیکن کنسلٹیٹو کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹن ویلبی نے کہا کہ جنرل Synod کے بہت سے ارکان نے حالیہ اصلاحات پر ان کے خدشات کو رد کردیا ہے۔ آرچ بشپ نے یہ باتیں چرچ آف انگلینڈ کی قانونی ساز اسمبلی جنرل Synod کی جانب سے منظور کی جانے والی ایک قرارداد کے بعد کی ہیں، جس میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں کا خیرمقدم کرنے کو کہا گیا تھا۔ گھانا میں عالمی اینگلیکن کنسلٹیٹو کونسل کے 18ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹن ویلبی نے کہا کہ چرچ آف انگلینڈ میں جنسیت کے حوالے سے یہ رولز برطانیہ میں بڑھتے ہوئے الحاد کے نتیجے میں بحث کیلئے پیش کئے گئے تھے۔ انھوں نے اجلاس کے شرکا سے کہا کہ کمیونٹی اور باہمی ذمہ داری کے حوالے سے مسیحیوں کی اقدار انفرادیت کی نذر ہوگئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب مسیحیوں نے، جن کو خوف تھا کہ اسلام یورپ میں چھا جائے گا، مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے ان سے کہا کہ سب سے بڑا خطرہ ملحدوں کی تعداد میں اضافے کا ہے، جنھیں “nones” کہا جاتا ہے کیونکہ جب ان سے مذہب کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میرا کوئی مذہب نہیں، نتیجہ واضح ہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جنسیت اور چرچ آف انگلینڈ میں جنسیت سے متعلق رولز پر بات چیت کے دوران میں نے تمام مسیحیوں کے صرف اینگلیکن نہیں، ایک دوسرے پر انحصار کے بارے میں بات کی، اس کے نتیجے میں مجھے دو مرتبہ پارلیمنٹ میں طلب کیا گیا اور ہم جنس پرستوں کی شادی پر مجبور کرنے کیلئے پارلیمانی کارروائی کی دھمکی دی گئی، جب میں نے چرچ آف انگلینڈ کے عمل کے بیرون ملک رہنے والے اینگلیکن کے لوگوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں بات کی تو بہت سوں نے میرے خدشات کی تردید کی۔ ویلبی نے کہا کہ چرچ آف انگلینڈ میں آرچ بشپ نہ تو جنرل Synod کی صدارت کرتا ہے نہ اس میں بحث کا اہتمام کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ اور یورپ کے بہت سے ملکوں میں لوگوں کی اکثریت کا کوئی مذہب نہیں ہے، وہ نہ تو عیسائی ہیں اور نہ مسلم، وہ نہ پگان ہیں نہ یہودی یا ہندو، ان کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آرچ بشپ نے وسیع تر جسمانی خودمختاری اور خودکشی میں معاونت پر بھی تنقید کی۔ انھوں نے کہا کہ ہم دولت ملکوں میں اب 30 سال پہلے کے مقابلے میں بہت ہی مختلف کلچر رکھتے ہیں، ہم نے کردار اور مسیحی عقائد کو اپنے جسموں پر ذاتی کنٹرول میں تبدیل کردیا ہے، اب جینٹک بچوں کی پیدائش بہت دور کی بات نہیں ہے اور موت کے بارے میں بہت سوں کا خیال ہے کہ انھیں اپنی پسند سے مرنے کے وقت کا تعین کرنے کا حق حاصل ہے، یہاں تک کہ میرے پیش رو جارج کیرے نے پارلیمنٹ میں اور ہاؤس لارڈز میں اپنی تقریر میں خودکشی میں معاونت کی زبردست حمایت کی۔ انھوں نے جدید یورپی اقدار کو دولت مندوں، بااثر لوگوں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی اقدار قرار دیا، جو انسانی گناہوں اور ناکامیوں اور کردار پر یقین نہیں رکھتے، یہ لوگ عفو ودرگزر اور معاف کرنے پر یقین نہیں رکھتے، انھیں امید پر یقین نہیں ہے، یہ وہ صورتحال ہے، جس کا چرچ کو سامنا ہے۔

یورپ سے سے مزید